کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
ایک شخص گنے کی مشین خریدتاہے اوراس کے چلانے کے لیےدوسرےشخص کو ملازم رکھتاہے اوراجرت اس طرح طے کرتاہے کہ روزانہ کے 200روپے اوراس کے علاوہ جوبھی آمدنی ہوگی اس میں سے تیسرا حصہ اس ملازم کی اجرت ہوگی،اس طرح اجرت متعین کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ رغبت سے کام کرے،کیا اس طرح اجرت مقررکرناجائز ہے یانہیں ؟بینوا توجروا
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
منافع کے ذاتی محرک کو پڑھانے کے لیے ملازم کی اجرت کا کچھ حصہ متعین رقم کی صورت میں اورباقی حاصل ہونے والی آمدنی کی ایک خاص فیصدی حصہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں، یہ جائز ہے ۔
حوالہ جات
وفی المعاییرالشرعیۃ (622)
5/2/4يجوز أن تكون أجرة الوكيل ما زاد على الناتج المحدد للعملية أو نسبة منه، مثل أن يحدد له الموكل ثمنا للبيع وما زادعليه فهو أجرة الوكالة.
6/2/4 يجوز أن يضاف إلى لأجرة المعلومة نسبة من الناتج المحدد للعملية الموكل بها وذلك على سبيل التحفيز.(وکذا فی فتاوی دارالافتاء جامعۃ الرشید(رقم55/55657)