021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خلوتِ صحیحہ پر مرتب ہونے والے احکام
62847طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ: ہمارے علاقے صوبہ خراسان میں ایک رسم ہوتی ہے جسے (نامزدی) کہتے ہیں، نامزدی کا مطلب یہ ہے کہ اصل رخصتی سے پہلےلڑکے اور لڑکی کے درمیان ایجاب وقبول ہوتا ہے اور باقاعدہ طور پر خطبہ نکاح پڑھا جاتا ہے۔ اب یہ زمانۂ نامزدی کبھی دو سال پر محیط ہوتاہے، کبھی اس سے کم اور کبھی اس سے زیادہ لمبا ہوتا ہے، اور اسی نامزدی میں کبھی دخول بھی ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا، کیونکہ لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے سے ملتے ہیں ایک ساتھ سو بھی جاتے ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ خلوتِ صحیحہ پائی جاتی ہے۔ اس تمہید کے بعد توجہ طلب بات یہ ہے کہ: 1) باب طلاق میں کیا خلوتِ صحیحہ کے بعد بیوی مدخول بھا عورت کے حکم میں ہوگی یا اس میں تفصیل ہے؟ 2) اور خلوتِ صحیحہ کے بعد اگر الفاظ صریح کے ساتھ ایک طلاق دی جائے تو وہ طلاق رجعی ہوگی یا بائن؟ 3) اگر میاں ایک جملے میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے تو کتنی طلاقیں واقع ہوں گی؟ 4) اور اگر تین طلاقیں خلوتِ صحیحہ کے بعد لیکن دخول سے پہلے مختلف الفاظ میں دی جائیں تو کتنی طلاقیں واقع ہوں گی؟ 5) اور اگر طلاقِ صریح کے بعد الفاظ کنایہ میں سے کسی لفظ کا استعمال کرے تو کیا حکم ہے؟ 6) خلوتِ صحیحہ ہونے کے بعد کیا زوجین کو دخول کے بارے میں قسمیں دی جا سکتی ہیں یا نہیں؟ تنقیح:مستفتی سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ: قسم لینے کا ااصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ صرف خلوتِ صحیحہ ہونا ایسا ہے جیسے ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی۔ لہذا قسم دخول ہونے کی لیتے ہیں، اگر زوجین دخول ہونے کی قسم کھالیں تو پھر مدخول بھا عورت والا معاملہ کیا جاتا ہے ، اور اگر دخول نہ ہونے کی قسم اٹھائی تو پھر (خلوتِ صحیحہ ہونے کے باوجود ) خلوتِ صحیحہ کو رخصتی نہ ہونے کے درجہ میں لے کر صرف ایک ہی طلاق ہونے کا حکم لگایا جاتا ہے، چاہے شوہر نے بیک وقت یا متفرق طور پر تین طلاقیں دی ہوں۔ برائے مہربانی مذکورہ مسئلہ کی وضاحت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نکاح کے جواز کے لیے ایجاب وقبول کے ساتھ ساتھ شہادت بھی ضروری ہے۔ اگر نکاح کی تمام شرائط پائی جا رہی ہوں تو نکاح منعقد ہو جائے گا اور اس صورت میں خلوتِ صحیحہ کے احکام بھی مرتب ہوں گے اور اگر نکاح کی کوئی شرط معدوم ہو تو نکاح فاسد ہوگا اور اس صورت میں خلوتِ صحیحہ کا شرعاً کوئی اعتبار بھی نہیں ہوگا۔ درج ذیل آپ کے سوالوں کا ترتیب سے جواب ہے: 2-1) اس میں تفصیل ہے کہ اگر خلوتِ صحیحہ ہوئی لیکن دخول نہیں ہوا تو طلاق رجعی بھی بائن سمجھی جائے گی۔ البتہ اس بائن کو دوسری طلاق لاحق ہوگی کیونکہ یہ عورت عدت میں ہے۔ 3) اکھٹی تین طلاقیں دینے سے تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔ 5-4) اس میں اصل حکم یہ ہے کہ صريح طلاق کے بعد اگر عدت کے اندر ایک اور صريح یا بائن طلاق دی جائے تو دوسری طلاق پہلی سے لاحق ہوگی۔ اسی طرح اگر پہلے بائن طلاق دی پھر صریح طلاق دے دی تو دو بائن طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔ البتہ اگر بائن کے بعد دوسری بائن طلاق الفاظ کنایات استعمال کرتے ہوئے دے دی تو صرف پہلی طلاق واقع ہوگی۔ 6) اگر زوجین کا دخول وعدم دخول میں اختلاف نہ ہو تو خلوتِ صحیحہ قسم لیے بغیر بھی شرعاً دخول کے قائم مقام ہوتی ہے۔ لہذا خلوتِ صحیحہ کو وطئ کے قائم مقام قرار دینے کے لیے قسم کو ضروری قرار دینا اور قسم نہ کھانے کی صورت میں خلوتِ صحیحہ کے باوجود بھی اسے وطئ کے قائم مقام نہ شمار کرنا درست نہیں۔ لہذا شریعت کے منافی ہونے کی وجہ سے مذکورہ رواج سے احتراز لازمی ہے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی: (والخلوة) مبتدأ، خبره قوله الآتي: كالوطء ... (في ثبوت النسب) ولو من المجبوب (و) في (تأكد المهر) المسمى (و) مهر المثل بلا تسمية، و (النفقة والسكنى والعدة وحرمة نكاح أختها وأربع سواها) في عدتها (وحرمة نكاح الأمة، ومراعاة وقت الطلاق في حقها) وكذا في وقوع طلاق بائن آخر، على المختار. (لا) تكون كالوطء (في حق) بقية الأحكام، كالغسل و (الإحصان وحرمة البنات وحلها للأول والرجعة والميراث) وتزويجها كالأبكار، على المختار. قال الإمام ابن عابدين رحمہ اللہ تعالی في شرحه: قوله: (وكذا في وقوع طلاق بائن آخر إلخ): في البزازية: والمختار أنه يقع عليها طلاق آخر في عدة الخلوة، وقيل: لا، اهـ. وفي الذخيرة: وأما وقوع طلاق آخر في هذه العدة، فقد قيل: لا يقع، وقيل: يقع، وهو أقرب إلى الصواب ... والحاصل أنه إذا خلا بها خلوة صحيحة ثم طلقها طلقة واحدة فلا شبهة في وقوعها، فإذا طلقها في العدة طلقة أخرى فمقتضى كونها مطلقة قبل الدخول أن لا تقع عليها الثانية، لكن لما اختلفت الأحكام في الخلوة في أنها تارة تكون كالوطء وتارة لا تكون جعلناها كالوطء في هذا فقلنا بوقوع الثانية احتياطا لوجودها في العدة، والمطلقة قبل الدخول لا يلحقها طلاق آخر إذا لم تكن معتدة بخلاف هذه. والظاهر: أن وجه كون الطلاق الثاني بائنا هو الاحتياط أيضا، ولم يتعرضوا للطلاق الأول... ويشير إلى هذا قول الشارح طلاق بائن آخر، فإنه يفيد أن الأول بائن أيضا، ويدل عليه ما يأتي قريبا من أنه لا رجعة بعده، وسيأتي التصريح به في باب الرجعة. وقد علمت مما قررناه أن المذكور في الذخيرة هو الطلاق الثاني دون الأول، فافهم. ثم ظاهر إطلاقهم وقوع البائن أولا وثانيا وإن كان بصريح الطلاق، وطلاق الموطوءة ليس كذلك، فيخالف الخلوة الوطء في ذلك. (الدر المختار مع رد المحتار: 3/114-120) قال الإمام ابن عابدين رحمہ اللہ: والحاصل: أنه ينبغي إسقاط التكفير وفساد العبادة وزيادة فقد العنة، فتصير الأحكام التي خالفت الخلوة فيها الوطء عشرة، وقد نظمتها في بيتين مقتصرا عليها للعلم بأن ما سواها لا يخالف فيها الخلوة الوطء، فقلت: وخلوته كالوطء في غير عشرة ... مطالبة بالوطء إحصان تحليل وفيء وإرث رجعة فقد عنة ... وتحريم بنت عقد بكر وتغسيل (رد المحتار: 3/121) ذکر فی الفتاوی الھندیۃ: وأصحابنا أقاموا الخلوة الصحيحة مقام الوطء في حق بعض الأحكام دون البعض. فأقاموها مقامه في حق تأكد المهر، وثبوت النسب، والعدة، والنفقة، والسكنى في هذه العدة، وحرمة نكاح أختها، وأربع سواها، وحرمة نكاح الأمة -على قياس قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى-، ومراعاة وقت الطلاق في حقها. ولم يقيموها مقام الوطء في حق الإحصان، وحرمة البنات، وحلها للأول، والرجعة، والميراث. وأما في حق وقوع طلاق آخر ففيه روايتان، والأقرب أن يقع، كذا في التبيين. ولا تقام الخلوة مقام الوطء في حق زوال البكارة، حتى لو خلا ببكر ثم طلقها تزوج كالأبكار، كذا في الوجيز للكردري. (الفتاوى الهندية 1/ 306) قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: "(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة (والبائن يلحق الصريح) الصريح: ما لا يحتاج إلى نية بائنا كان الواقع به أو رجعيا، فتح، ... (لا) يلحق البائن (البائن) إذا أمكن جعله إخبارا عن الأول: كأنت بائن بائن، أو أبنتك بتطليقة فلا يقع لأنه إخبار فلا ضرورة في جعله إنشاء، بخلاف أبنتك بأخرى أو أنت طالق بائن، أو قال نويت البينونة الكبرى لتعذر حمله على الإخبار فيجعل إنشاء" (رد المحتار: 3/310)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب