کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مسافر مقتدی نے امام کو مقیم سمجھ کر اقتدا کی اور چار رکعت کی نیت کرلی،امام نے دو رکعت پر سلام پھیر دی،اب یہ مقتدی کتنی رکعت پڑھے دو یا چار؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
نماز مثلا ظہر یا عصر کی نیت کافی ہوجاتی ہے۔رکعات کی الگ سے نیت ضروری نہیں،لہذا رکعات کی تعداد میں خطاء سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مذکورہ مقتدی امام کے ساتھ دو رکعت پر ہی سلام پھیر دے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی:" (ولا بد من التعيين عند النية) …(دون) تعيين (عدد ركعاته)؛ لحصولها ضمنا، فلا يضر الخطأ في عددها."
وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی:" وفي الأشباه: "الخطأ فيما لا يشترط له التعيين لا يضر، كتعيين مكان الصلاة وزمانها وعدد الركعات." (الدر المختار مع رد المحتار:1/418،420،دار الفکر،بیروت)