021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دوسرے کی زمین میں بلااجازت اپنے لیے تعمیری کام کا حکم
63495تقسیم جائیداد کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

سوال:مرحومہ کی زندگی میں سب سے چھوٹے بیٹے انعام اللہ نے اپنی شادی کے وقت مکان کا ایک حصہ اپنے قبضے میں لے لیا جو کہ تعمیر شدہ تھا،اس میں اس نے کچھ مرمت اور کچھ تعمیر کرائی اور عرصہ دس سال تک اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہائش پذیر رہا،نیز اس تعمیر میں انعام اللہ کے خالہ زاد بھائی محمد صلاح الدین صاحب اور انعام اللہ کے بڑے بہنوئی محمد سلیم خان مرحوم نے بھی رقم بطور احسان فراہم کی تھی۔ اور اس نے مکان کی تعمیر مرمت کے وقت مرحومہ سے کسی بھی قسم کا کوئی دعوی یا رقم ی وصولی کا کوئی معاہدہ نہیں کیا تھا اور نہ مرحومہ نے اپنی زندگی میں کبھی بھی اس بات کا ذکر کیا جب مرحومہ نے کرایہ کا تقاضہ کیا تو اس نے کہا میں آپ کو کھانا بھی تو دیتا ہوں اور ماہانہ تین سو روپے انہیں بطور جیب خرچ دیتا رہا،مرحومہ اس کے اس فعل سے ناخوش رہیں،پھر اس نے مکان خالی کردیا اور الگ رہائش اختیار کرلی،جس پر مرحومہ نے یہ حصہ کرایہ پر دے دیا اور کرایہ کی آمدنی سے اپنی زندگی کے باقی ماندہ دن گزارے۔ مگر انعام اللہ اب دعوی کرتا ہے کہ میں ایک بڑی رقم اپنے حصے کے علاوہ لوں گا جو کہ میں نے مرمت اور تعمیر میں لگائی،اس کا دعوی پانچ چھ لاکھ روپے کا ہے،جبکہ اس کے برعکس تعمیر مرمت میں اس کی چوتھائی رقم بھی خرچ نہیں ہوئی۔ عرض خدمت یہ ہے کہ شریعت کا مندرجہ بالا باتوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ نوٹ: سائل سے فون پر تنقیح کے ذریعے معلوم ہوا کہ انعام اللہ نے یہ تعمیر والدہ کی اجازت کے بغیر زبردستی کی تھی اور اپنے لیے کی تھی،تعمیر کی تفصیل یہ ہے کہ دو کمرے پہلے سے بنے ہوئے اس نے تیسرے کمرے پر سمینٹ کی چادریں ڈلوائیں تھی اور رنگ و روغن وغیرہ کروایا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ انعام اللہ نے ماں کی اجازت کے بغیر یہ تعمیر اپنے لیے کی تھی،اس لیے جتنی تعمیر اس نے اپنے پیسے لگا کر کی ہے وہ اسی کی ہے ،البتہ چونکہ تعمیر ایسی ہے کہ اسے اکھاڑا نہیں جاسکتا اور اسے اکھاڑنے سے بقیہ تعمیر کو نقصان ہوگا،اس لیے اسے صرف اپنی تعمیر کے ملبے کی صورت میں جو قیمت بنے اس کے مطالبے کا حق ہے،اس سے زیادہ کا نہیں۔
حوالہ جات
"رد المحتار" (6/ 747): "(عمر دار زوجته بماله بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها) لصحة أمرها (ولو) عمر (لنفسه بلا إذنها العمارة له) ويكون غاصبا للعرصة فيؤمر بالتفريغ بطلبها ذلك (ولها بلا إذنها فالعمارة لها وهو متطوع) في البناء فلا رجوع له ولو اختلفا في الإذن وعدمه، ولا بينة فالقول لمنكره بيمينه، وفي أن العمارة لها أو له فالقول له لأنه هو المتملك كما أفاده شيخنا". قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ :" (قوله عمر دار زوجته إلخ) على هذا التفصيل عمارة كرمها وسائر أملاكها جامع الفصولين، وفيه عن العدة كل من بنى في دار غيره بأمره فالبناء لآمره ولو لنفسه بلا أمره فهو له، وله رفعه إلا أن يضر بالبناء، فيمنع ولو بنى لرب الأرض، بلا أمره ينبغي أن يكون متبرعا كما مر اهـ". "العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية "(2/ 274): "(سئل) فيما إذا كان لهند وبنتها دار مشتركة بينهما فعمر زوج هند في الدار بيوتا بدون إذن منهما ولا وجه شرعي، ورفع العمارة لا يضر بالدار فهل تكون العمارة للمعمر ويؤمر بالتفريغ بطلبهما؟ (الجواب) : نعم، ذكر في كتاب الحيطان من العدة: كل من بنى في دار غيره بأمره يكون البناء للآمر، وإن بنى بغير أمره يكون له وله أن يرفعه إلا أن يضر بالبناء فحينئذ يمنع يعني إذا بنى لنفسه بدون أمر، أما إذا بنى لرب الأرض بدون الأمر ينبغي أن يكون متطوعا عمادية من أحكام العمارة في ملك الغير. وقوله: كما مر هو قوله: وإن عمرها لها بغير إذنها قال الشيخ الإمام نجم الدين النسفي: العمارة لها ولا شيء عليها من النفقة وأنه متطوع في ذلك. اهـ. ومثله في الأشباه من الوقف وكذا في التنوير وشرحه من شتى الفرائض".
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب