021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق مغلظہ کی عدت کے بعد صحبت سے پیدا ہونے والی اولاد کا حکم
63497طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اہمارے ایک ساتھی نے اپنی زوجہ سے بہ ہوش و حواس یہ کہا کہ آپ کو میری طرف سے طلاق ہے اور یہ الفاظ تین مرتبہ دہرائے اور پھر یہ بھی کہا کہ میں بالکل صحت کی حالت میں ہوں،کسی جنون یا کسی قسم کے اثر کی وجہ سے میں نے یہ الفاظ نہیں کہے۔ اس کے بعد زوجہ نے فرقت اختیار کرنے کے بجائے اسی گھر میں رہائش اختیار کی،جس کی وجہ یہ بنی کہ اس گھر کے علاوہ کوئی اور گھر نہیں تھا جہاں وہ اپنی رہائش رکھ سکتی اور کوئی اس کے کھانے وغیرہ کا خرچہ برداشت کرتا،محترمہ کے نہ والدین تھے اور نہ کوئی بھائی یا کوئی اور رشتہ دار جو اس کا خرچہ برداشت کرتا اور ان کی رہائش کی ذمہ داری لیتا،الغرض اس صورت حال کی بناء پر موصوفہ نے اسی گھر میں رہائش جاری رکھی،جس کی وجہ سے میاں بیوی میں اختلاط کے نتیجے دو یا تین بچوں کی ولادت ہوئی تو نکاح اور بچوں کے نسب کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ نوٹ: سائل سے تنقیح پر معلوم ہوا کہ طلاق کے بعد چھ ماہ تک تو میاں بیوی کے درمیان ناچاقی رہی،اس کے بعد جبکہ عدت گزرچکی تھی میاں بیوی میں اختلاط ہوا جس کے نتیجے میں حمل ٹہرا اور بچے کی ولادت ہوئی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

تین طلاقیں دینے کے بعد بیوی شوہر پر حرام ہوچکی تھی،جس کے بعد موجودہ حالت میں ان دونوں کا ساتھ رہنا جائز نہیں تھا،فوری طور پر علیحدگی ضروری تھی،اس لیے مذکورہ بچوں کا نسب باپ سے ثابت نہیں ہوگا،کیونکہ ان بچوں کی ولادت عدت گزرنے کے بعد صحبت کے نتیجے میں ہوئی ہے۔ میاں بیوی دونوں کے ذمے لازم ہے کہ فوری طور پر ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کریں اور اب تک جس حرام کاری کے مرتکب ہوئے اس پر شدیدقلبی ندامت کے ساتھ دل کی گہرائی سے توبہ و استغفار لازم ہے۔ نیز موجودہ حالت میں ان دونوں کا نکاح بھی ممکن نہیں ،نکاح ممکن ہونے کی صورت یہ ہے کہ مطلقہ عورت کاکسی اور سے نکاح ہوجائے اورپھر ان دونوں میں ازدواجی تعلقات بھی قائم ہوجائیں،اس کے بعد دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ کسی وجہ سے اس عورت کو طلاق دیدے،پھر عورت عدت گزارے،عدت گزرنے کے بعد اس عورت کا اپنے سابق شوہر سے دوبارہ نکاح ممکن ہوسکے گا۔ نیز ان بچوں کے نان نفقہ اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بإعثِ ثواب سمجھ کر پورے اہتمام کے ساتھ دونوں کو ادا کرنا چاہیے،کیونکہ ان بچوں کا ان کے ناجائز عمل میں کوئی عمل دخل نہیں۔
حوالہ جات
"الدر المختار " (3/ 409): "(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب (لا) ينكح (مطلقة) من نكاح صحيح نافذكما سنحققه (بها) أي بالثلاث (لو حرة وثنتين لو أمة) ولو قبل الدخول، وما في المشكلات باطل، أو مؤول كما مر (حتى يطأها غيره ولو) الغير (مراهقا) يجامع مثله". "الفتاوى الهندية "(2/ 148): "والشبهة في الفعل في وطء المطلقة ثلاثا في العدة ولو طلقها ثلاثا ثم راجعها ثم وطئها بعد مضي المدة يحد إجماعا وأم الولد إذا أعتقها سيدها والمختلعة والمطلقة على مال في العدة بمنزلة المطلقة ثلاثا في العدة لثبوت الحرمة إجماعا ووطء أمة أبيه وأمه كذا في الكافي". "رد المحتار" (3/ 518): "(قوله: بشبهة) متعلق بقوله وطئت، وذلك كالموطوءة للزوج في العدة بعد الثلاث بنكاح، وكذا بدونه إذا قال ظننت أنها تحل لي، أو بعدما أبانها بألفاظ الكناية، وتمامه في الفتح، ومفاده أنه لو وطئها بعد الثلاث في العدة بلا نكاح عالما بحرمتها لا تجب عدة أخرى لأنه زنا، وفي البزازية: طلقها ثلاثا ووطئها في العدة مع العلم بالحرمة لا تستأنف العدة بثلاث حيض، ويرجمان إذا علما بالحرمة ووجد شرائط الإحصان، ولو كان منكرا طلاقها لا تنقضي العدة، ولو ادعى الشبهة تستقبل. وجعل في النوازل البائن كالثلاث والصدر لم يجعل الطلاق على مال والخلع كالثلاث، وذكر أنه لو خالعها ولو بمال ثم وطئها في العدة عالما بالحرمة تستأنف العدة لكل وطأة وتتداخل العدد إلى أن تنقضي الأولى، وبعده تكون الثانية والثالثة عدة الوطء لا الطلاق حتى لا يقع فيها طلاق آخر ولا تجب فيها نفقة اهـ وما قاله الصدر هو ظاهر".
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب