021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قربانی کی کھالیں امامِ مسجد کی تنخواہ اور ضروریاتِ مسجد میں خرچ کرنا
63849قربانی کا بیانقربانی کی کھال کے مصارف کا بیان

سوال

ہمارے گاؤں میں ایک مسجد ہےجس کی انتظامیہ نے دو سال سے یہ سلسلہ شروع کررکھا ہے کہ قربانی کی کھالیں لوگوں سے از خود لیتے ہیں اور ہر ایک کا نام بھی لکھتے ہیں، جو کھال نہیں دیتا اس کو کھال دینے پر مجبور بھی کرتے ہیں۔ پھر ان کھالوں کو بیچ کر حاصل ہونے والی رقم سے تو امامِ مسجد کی تنخواہ دیتے ہیں یا مسجد کا کوئی کام کرواتے ہیں۔ بندہ کے سمجھانے پر باز آنے کے بجائے الٹا برا بھلا کہتے ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس مسئلے کا جواب عنایت فرمائیں کہ آیا یہ عمل درست ہے یا نہیں؟ کیونکہ اس مسئلے کی وجہ سے گاؤں میں شدید اضطراب اور بے چینی پائی جارہی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

قربانی کی کھالوں کو بیچ کر حاصل ہونے والی رقم سے امامِ مسجد کی تنخواہ دینا یا اس کو مسجد کی ضروریات میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔ اصول یہ ہے کہ قربانی کی کھال قربانی کرنے والا خود استعمال کرسکتا ہے، لیکن بیچنے کی صورت میں حاصل ہونے والی رقم بلا معاوضہ مستحقینِ زکوۃ فقراء کو دینا واجب ہوتا ہے۔ اس لیے مسجد کی ضروریات پوری کرنے اور امام کی تنخواہ کا یہ نظام بنانا شرعی اصول کے خلاف اور غلط ہے۔ اور لوگوں کو اس نظام پر مجبور کرکے ان سے قربانی کی کھالیں لینا ناجائز اور حرام عمل ہے جس سے مذکورہ انتظامیہ کو فوراً باز آنا چاہیے، اور اب تک قربانی کی جتنی کھالوں کو غلط مصرف میں صرف کیا ہے ان کی قیمت لوگوں کو واپس کرنا لازم ہے
حوالہ جات
سنن الدارقطني (3/ 26): عن يحيى بن سعيد عن أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : لا يحل مال أمرئ مسلم إلا بطيب نفسه. صحيح البخاري- طوق النجاة (2/ 172): حدثنا مسدد حدثنا يحيى عن ابن جريج قال أخبرني الحسن بن مسلم وعبد الكريم الجزري أن مجاهدا أخبرهما أن عبد الرحمن بن أبي ليلى أخبره أن عليا رضي الله عنه أخبره أن النبي صلى الله عليه وسلم أمره أن يقوم على بدنه وأن يقسم بدنه كلها لحومها وجلودها وجلالها ولا يعطي في جزارتها شيئاً. المبسوط للسرخسي (12/ 25): قال: ويكره أن يبيع جلد الأضحية بعد الذبح لقوله عليه الصلاة والسلام: "من باع جلد أضحيته فلا أضحية له" وقال لعلي رضي الله عنه: "تصدق بجلالها وخطمها ولا تعط الجزار منها شيئا" فكما يكره له أن يعطي جلدها الجزار فكذلك يكره له أن يبيع الجلد، فإن فعل ذلك تصدق بثمنه كما لو باع شيئا من لحمها. الدر المختار (6/ 328) کتاب الأضحیة: ( ويتصدق بجلدها أو يعمل منه نحو غربال وجراب ) وقربة وسفرة ودلو ( أو يبدله بما ينتفع به باقيا ) كما مر ( لا بمستهلك كخل ولحم ونحوه ) كدراهم ( فإن بيع اللحم أو الجلد به ) أي بمستهلك ( أو بدراهم تصدق بثمنه ) ومفاده صحة البيع مع الكراهة وعن الثاني باطل لأنه كالوقف ، مجتبى ( ولا يعطى أجر الجزار منها ) لأنه كبيع، واستفيدت من قوله عليه الصلاة والسلام من باع جلد أضحيته فلا أضحية له هداية. الدر المختار (2/ 344)کتاب الزکوۃ: ويشترط أن يكون الصرف ( تمليكا ) لا إباحة كما مر ( لا ) يصرف ( إلى بناء ) نحو ( مسجد و ) لا إلى ( كفن ميت وقضاء دينه ) أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره ولو أذن فمات فإطلاق الكتاب يفيد عدم الجواز وهو الوجه، نهر. حاشية ابن عابدين (2/ 339) کتاب الزکوۃ: باب المصرف: قوله (أي مصرف الزكاة والعشر) يشير إلى وجه مناسبته هنا، والمراد بالعشر ما ينسب إليه كما مر فيشمل العشر ونصفه المأخوذين من أرض المسلم وربعه المأخوذ منه إذا مر على العاشر أفاده ح،وهو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة كما في القهستاني.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب