021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نعرۂ تکبیر، نعرۂ رسالت وغیرہ مختلف نعرے لگانے کا حکم
63541 ایمان وعقائدایمان و عقائد کے متفرق مسائل

سوال

نعرۂ تکبیر – اللہ اکبر(جل جلالہ)، نعرۂ رسالت – یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)، نعرۂ خلافت – حق چار یار(رضوان اللہ علیہم اجمعین)، نعرۂ حیدری – یا علی (رضی اللہ عنہ)۔ یہ نعرے عام طور پر دینی اجتماعات اور جمعے کے خطبات میں لگتے ہیں۔ خطیب/ مبلغ صاحب زور دے کر کہتے ہیں کہ زور دار جواب دیا جائے۔ ایسے نعرے لگوانا اور لگانا کیسا ہے؟ کیا یہ نعرے مثلاً یا رسول اللہ، یا علی وغیرہ کہنا غیر شرعی، بدعت یا شرک تو نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جواب سے پہلے بطورِ تمہید یہ بات سمجھ لیں کہ مسجد میں نعرہ بازی مسجد کے آداب کے خلاف ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔ مسجد کے علاوہ دینی اجتماعات میں نعرے سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ ہر وہ نعرہ جس سے کسی خلافِ شرع بات کی تائید ہوتی ہو یا تعصب اور قوم پرستی پر مشتمل ہو یا جس سے فتنہ پھیلنے کا اندیشہ ہو، اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ اور جس نعرے میں ایسی کوئی خلافِ شرع بات نہ ہو تو وہ فی نفسہ جائز ہے، بشرطیکہ ناجائز ہونے کی کوئی اور وجہ نہ پائی جائے۔ اس تمہید کے بعد سوال میں مذکور نعروں کے احکام درجِ ذیل ہیں:- "نعرۂ تکبیر- اللہ اکبر" لگانا جائز ہے۔ اس میں کوئی شرعی خرابی نہیں ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے غزوات کے موقع پر "اللہ اکبر" کا نعرہ لگانے کا ثبوت احادیث میں ملتا ہے۔ اسی طرح ہجرت کے موقع پر جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچ گئے تو مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر "اللہ اکبر" کے نعرے بلند کئے۔ یہ اور ان جیسی دیگر روایات کے مجموعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے اہمیت کے حامل مواقع میں یا اسلام کی شان وشوکت کے اظہار کے لیے "اللہ اکبر" کا نعرہ لگانا درست ہے۔ "نعرۂ رسالت- یا رسول اللہ" اور "نعرۂ حیدری - یا علی" کی شریعت میں کوئی اصل نہیں، نیز ان نعروں میں فسادِ عقیدہ کا پہلو بھی موجود ہے۔ اس لیے یہ نعرے لگانا بدعت ہے جن سے بچنا ضروری ہے۔ "نعرۂ خلافت - حق چار یار" کا معنی فی نفسہ درست ہے۔
حوالہ جات
صحيح مسلم - عبد الباقي (1/ 323): عن عبد الله بن مسعود قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليلني منكم أولو الأحلام والنهى ثم الذين يلونهم ثلاثا وإياكم وهيشات الأسواق. شرح النووي على صحیح مسلم (4/ 156): قوله صلى الله عليه و سلم ( وإياكم وهيشات الأسواق ) هي بفتح الهاء وإسكان الياء وبالشين المعجمة أي اختلاطها والمنازعة والخصومات وارتفاع الأصوات واللغط والفتن التي فيها. صحيح البخاري- طوق النجاة (1/ 135) عن أنس بن مالك أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا غزا بنا قوما لم يكن يغزو بنا حتى يصبح وينظر فإن سمع أذانا كف عنهم وإن لم يسمع أذانا أغار عليهم قال فخرجنا إلى خيبر فانتهينا إليهم ليلا فلما أصبح ولم يسمع أذانا ركب وركبت خلف أبي طلحة وإن قدمي لتمس قدم النبي صلى الله عليه وسلم قال فخرجوا إلينا بمكاتلهم ومساحيهم فلما رأوا النبي صلى الله عليه وسلم قالوا محمد والله محمد والخميس قال فلما رآهم رسول الله صلى الله عليه وسلم قال الله أكبر الله أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم{فساء صباح المنذرين} مسند أحمد - الرسالة (1/ 180): عن البراء بن عازب قال اشترى أبو بكر من عازب سرجا بثلاثة عشر درهما قال فقال أبو بكر لعازب مر البراء فليحمله إلى منزلي فقال لا حتى تحدثنا كيف صنعت حين خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنت معه قال فقال أبو بكر خرجنا فأدلجنا…… حتى قدمنا المدينة فتلقاه الناس فخرجوا في الطريق وعلى الأجاجير فاشتد الخدم والصبيان في الطريق يقولون الله أكبر جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء محمد.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب