021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مجلسِ نکاح میں دلہن کے وکیل کی اجازت کے بغیر براہ راست لڑکے سے نکاح قبول کروانے کا حکم
63645نکاح کا بیاننکاح کی وکالت کابیان

سوال

سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے ک ےبارے میں کہ میرا نکاح ایک عالم دین نے پڑھایا ہے اس طور پر کہ دلہن کے دستخط،دولہا کے دستخط،دلہن کے وکیل شادی کے گواہ نکاح کی مجلس میں موجود تھے۔ غرض یہ کہ میرے نکاح فارم کی تحریری کاروائی مکمل تھی،اور دلہن کے وکیل دلہن سے اجازت و دستخط کرواکر نکاح کی مجلس میں موجود تھے،طرفین کی باہمی رضامندی کے ساتھ میرے نکاح خواں عالم دین نے تمام کی موجودگی میں خطبہ نکاح پڑھا اور اس کے بعد دو مرتبہ میرے سے قبول کرواکر دعاء کروادی۔ اور میرے نکاح خواں عالم دین نے بھول کی وجہ سے دلہن کے وکیل سے اجازت نہیں لی،جبکہ لڑکی کے وکیل شادی کے گواہ سب کے سب نکاح کی مجلس میں موجود تھے اور نکاح پر راضی تھے اور انہیں کی مرضی سے یہ نکاح ہوا ہے،اب پوچھنا یہ ہے کہ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں یہ نکاح درست ہوگیا یا نہیں،جبکہ رخصتی ہوئے پندرہ دن گزرچکے ہیں؟ لڑکی کے قریبی رشتہ داروں میں سے ایک آدمی حسد و بغض کی وجہ سے رشتہ داروں میں توڑ پیدا کرنے کے لیے اس بات کا پروپیگنڈہ کررہا ہے کہ یہ نکاح نہیں ہوا اور میرے نکاح خواں جو کہ دینی اداروں کے سرپرست اور ذمہ دار ہیں اور معاشرے میں اچھی شہرت اور کردار کے مالک ہیں،ان کی عزت خراب کررہا ہے،ایسے شخص کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب نکاح کرنے والے نے مجلس نکاح میں دلہن کے وکیل سے اجازت لیے بغیر براہِ راست خود ایجاب کرکے دولہا سے قبول کروالیا ہے تو اس نکاح کا حکم وہی ہے جو فضولی کے نکاح کا ہے،یعنی وکیل کی قولی یا عملی اجازت پر موقوف ہوگا،چونکہ مذکورہ صورت میں اس لڑکی کی رخصتی بھی عمل آچکی ہے،جو وکیل کی طرف عملی طور پر نکاح کی اجازت کے حکم میں ہے،اس لیے یہ نکاح منعقد ہوچکا ہے۔ نیز اس مفروضے کو بنیاد بناکر ایک معزز عالم دین کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا اور ان کی بے عزتی پر تل جانا انتہائی سنگین گناہ ہے،جس کی معافی کے لیے صرف توبہ ہی کافی نہیں،بلکہ اس عالم سے معافی تلافی بھی ضروری ہے۔
حوالہ جات
"البحر الرائق" (3/ 148): "وتثبت الإجازة لنكاح الفضولي بالقول والفعل فمن الأول أجزت ونحوه، وكذا نعم ما صنعت وبارك الله لنا وأحسنت وأصبت وطلقها إلا إذا قال المولى لعبده كما سيأتي في بابه ومن الثاني قبول المهر". "رد المحتار"(2/ 142): "ونظيره إذا أجاز نكاح الفضولي بالفعل يجوز ومجرد حضوره وسكوته وقت العقد لا يدل على الرضا فافهم ".
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب