021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اکراہ کی حالت میں تحریری طلاق کا حکم
63854طلاق کے احکامطلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان

سوال

میں نے صفیہ نامی لڑکی سےشادی کی، یہ شادی لو میرج تھی، اس لیے شادی کورٹ میں کی تھی۔ شادی کے کچھ دن بعد لڑکی کے گھر والوں نے ہمیں پکڑلیا۔ لڑکی کے بھائی بہت پاورفل لوگ ہیں اور ایک مشہور سیاسی جماعت سے ان کا تعلق ہے۔ ہمیں پکڑنے کے بعد انہوں نے مجھ پر اور لڑکی پر بہت تشدد کیا اور ہم دونوں کو الگ الگ جگہ پر بند کرلیا۔ اس تشدد میں میرا کندھا اور ٹانگ ٹوٹ گئی اور لڑکی کا بھی ہاتھ ٹوٹ گیا تھا۔ یہ تشدد مجھ پر ایک دن اور ایک رات چلتا رہا۔ مارپیٹ کے دوران وہ مجھ سے طلاق دینے کا مطالبہ کررہے تھے، لیکن میں لڑکی کو طلاق دینے پر راضی نہیں تھا۔ جب وہ مار مار کر تھک گئے تو مجھ پر الزامات لگانے لگے، مجھے ڈرانے لگے، لیکن میں پھر بھی طلاق کے لیے راضی نہیں ہوا۔ لڑکی کے بھائیوں کا غصہ بڑھتا جارہا تھا، غصے میں ایک بھائی نے پستول نکال لی اور میرے سر پر رکھ دی اور بولا کہ کاغذ پر لکھ دو کہ میں لڑکی کو طلاق دیتا ہوں ورنہ ابھی کے ابھی تجھے اور لڑکی کو ماردوں گا۔ وہ اتنے غصے میں تھا کہ اگر میں اب بھی طلاق دینے سے انکار کرتا تو وہ مجھے ماردیتا۔ اپنی جان اور لڑکی کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے میں نے سادہ کاغذ پر لکھ کر دیدیا کہ "میں فلاں بنت فلاں کو طلاق دیتا ہوں"، اور زبان سے کوئی الفاظ ادا نہیں کیے، نہ ہی دل میں طلاق دینے کا ارادہ کیا۔ کاغذ پر لکھنے کے بعد انہوں نے مجھے دھمکی دی کہ اگر دوبارہ نظر آیا تو آپ کو اور آپ کی فیملی کو جان سے ماردیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا گن پوائنٹ پر دل میں ارادہ کیے بغیر اور زبان سے کوئی الفاظ ادا کیے بغیر صرف لکھ کر دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے یا نہیں؟ اگر طلاق نہیں ہوتی تو میں قانونی کاروائی کرکے اپنی بیوی کو واپس لاسکوں۔ وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ میرا اور لڑکی کا خاندان ایک ہے، دینداری اور مالی لحاظ سے بھی ایک دوسرے کے برابر ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اصل سوال کے جواب سے پہلے بطور تمہید یہ بات سمجھ لیں کہ نامحرم خاتون کو ساتھ لے جانا شرعاً سخت ناجائز ہے، آپ نے لڑکی کو اس کے گھر سے اغواء کرکے سخت گناہ کاارتکاب کیا ہے جس پر آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاکر توبہ واستغفار کرنا چاہیے۔ نیز شریعت میں اولاد کو اپنے ولی (والد اور بھائیوں وغیرہ) کی اجازت اور سرپرستی میں نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا شرم وحیاء کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے آپ دونوں کا اپنے اولیاء سے چھپ کر نکاح کرنا بھی شرعاً اور اخلاقاً ناپسندیدہ فعل تھا۔ تاہم اگر آپ اور لڑکی واقعۃً ایک دوسرے کے کفؤ یعنی ہم پلہ ہیں تو یہ نکاح منعقد ہوگیا تھا۔ اس تمہید کے بعد اصل سوال کا جواب یہ ہے کہ مفتی غیب نہیں جانتا بلکہ وہ سوال کے مطابق جواب دیتا ہے۔سوال کے سچے اور جھوٹے ہونے کی ذمہ داری سوال کرنے والے پر عائد ہوتی ہے، نیز غلط بیانی کے ذریعہ فتویٰ حاصل کرنے سے حرام حلال نہیں ہوتا بلکہ حرام بدستور حرام ہی رہتا ہے اور غلط بیانی کا مزید وبال بھی عائد ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیل درست ہے اور واقعۃ ً لڑکی کے بھائیوں نے آپ کو مارنے کی دھمکی دی تھی اورآپ کوبھی یقین یا غالب گمان تھا کہ اگر کاغذ پر طلاق نہیں لکھیں گے تو آپ کو جان سے مار دیا جائے گا یا کوئی عضو تلف کر دیا جائے گا، اور اس حالت میں آپ نے دھمکی سے مجبور ہو کر صرف تحریری طور پر طلاق دی ہے، زبان سے طلاق کے الفاظ نہیں کہے تو اس صورت میں آپ کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور آپ کا نکاح اس کے ساتھ برقرار ہے ۔ آپ قانونی طریقۂ کار اختیار کرتے ہوئے یا لڑکی والوں سے صلح کرکے اپنی بیوی کو ساتھ لے جاسکتے ہیں۔
حوالہ جات
الدر المختار (3/ 56): ( ويفتى ) في غير الكفء بعدم جوازه أصلا ) وهو المختار للفتوى ( لفساد الزمان). حاشية ابن عابدين (3/ 57): قوله ( بعدم جوازه أصلا ) هذه رواية الحسن عن أبي حنيفة …… قوله ( وهو المختار للفتوى) وقال شمس الأئمة وهذا أقرب إلى الاحتياط كذا في تصحيح العلامة قاسم لأنه ليس كل ولي يحسن المرافعة والخصومة ولا كل قاض يعدل ولو أحسن الولي وعدل القاضي فقد يترك أنفة للتردد على أبواب الحكام واستثقالا لنفس الخصومات فيتقرر الضرر فكان منعه دفعا له، فتح. الدر المختار (6/ 129): (وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص (آخر) كإتلاف مال الغير(أو لحق الشرع) كشرب الخمر والزنا. حاشية ابن عابدين (3/ 236): في البحر …… لو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية. y
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب