021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کورٹ میرج اور اس کے بعد تین طلاق کا حکم
63885 نکاح کا بیاننکاح کے منعقد ہونے اور نہ ہونے کی صورتیں

سوال

پانچ سال پہلے ایک عورت کا کورٹ میرج ہوا، جس کا علم اس کے والدہ کو تو تھا، لیکن بھائی اور والد کو نہیں تھا۔ صحبت کے بعد لڑکے نے چند دنوں میں تین طلاقیں دیدیں، اور اس کے بعد والد صاحب اس لڑکے ساتھ نکاح پر راضی ہوئے حالانکہ ان کو کورٹ میرج اور طلاق کا علم نہیں تھا۔ خاندان کے اعتبار سے دونوں برابر ہیں۔ دینداری میں لڑکی کے گھر والے اچھے ہیں، اس کی بہنیں عالمہ ہیں، لیکن لڑکا کچھ خاص دیندار نہیں ہے۔ مالی لحاظ سے لڑکی کا خاندان اونچا ہے، لیکن بقول لڑکے کے ان کی مالی حالت اچھی تھی، اگرچہ لڑکی سے کم تھی، اور بقول لڑکی کے ان کے گھر میں کھانے تک کچھ نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں کورٹ میرج درست تھا یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت میں اولاد کو اپنے ولی (والد اور بھائیوں وغیرہ) کی اجازت اور سرپرستی میں نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا شرم وحیاء کے بھی خلاف ہے۔ تاہم صورتِ مسئولہ میں اگر یہ لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کے کفؤ یعنی خاندانی شرافت، دینداری، پیشہ اور مالداری (یعنی کہ لڑکا مہر اور نان نفقہ دینے پر قادر ہو) میں ہم پلہ تھے تو مذکورہ نکاح شرعاً منعقد ہوگیا تھا، لہٰذا اس کے بعد دی گئی تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں۔ اب نہ رجوع ہوسکتا ہے، نہ ہی حلالہ کے بغیر ان دونوں کا آپس میں دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کے کفؤ نہیں تھے تو پھر سرے سے یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوا تھا، اس لیے اس کے بعد دی گئی طلاقیں بھی واقع نہیں ہوئیں۔ اور جتنا عرصہ یہ دونوں ساتھ رہے ہیں اس کی وجہ سے دونوں سخت گناہ گار ہوئے ہیں، دونوں پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑاگڑا کر توبہ واستغفار کریں۔ اس دوسری صورت میں اگر لڑکی کا والد اس لڑکے کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح کرانے پر راضی ہو تو نکاح کراسکتے ہیں۔
حوالہ جات
الدر المختار (3/ 86): ( وتعتبر ) الكفاءة للزوم النكاح خلافا لمالك ( نسبا…… ( و ) تعتبر في العرب والعجم ( ديانة ) ….. ( ومالا ) بأن يقدر على المعجل ونفقة شهر لو غير محترف وإلا فإن كان يكتسب كل يوم كنفايتها لو تطيق الجماع ( وحرفة ) فمثل حائك غير كفء لمثل خياط ولا خياط لبزاز وتاجر ولا هما لعالم وقاض. حاشية ابن عابدين (3/ 90): قوله ( بأن يقدر على المعجل الخ ) أي على ما تعارفوا تعجيله من المهر وإن كان كله حالا فتح ، فلا تشترط القدرة على الكل ولا أن يساويها في الغنى في ظاهر الرواية وهو الصحيح، زيلعي. الدر المختار (3/ 56): ( ويفتى ) في غير الكفء بعدم جوازه أصلا ) وهو المختار للفتوى ( لفساد الزمان). حاشية ابن عابدين (3/ 57): قوله ( بعدم جوازه أصلا ) هذه رواية الحسن عن أبي حنيفة …… قوله ( وهو المختار للفتوى) وقال شمس الأئمة وهذا أقرب إلى الاحتياط كذا في تصحيح العلامة قاسم لأنه ليس كل ولي يحسن المرافعة والخصومة ولا كل قاض يعدل ولو أحسن الولي وعدل القاضي فقد يترك أنفة للتردد على أبواب الحكام واستثقالا لنفس الخصومات فيتقرر الضرر فكان منعه دفعا له، فتح.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب