021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ولی کی اجازت کے بغیرنکاح کاحکم
62690-۱نکاح کا بیاننکاح کے منعقد ہونے اور نہ ہونے کی صورتیں

سوال

میری بیٹی جو عاقلہ ہے اوربالغہ ہے اس نے کسی عاقل بالغ لڑکے سے میری اوروالدہ کی عدم موجودگی میں اوربغیر اجازت کے غیر کفوء میں نکاح کرلیااورخاندانی مہربھی مقرر نہیں کیا اورمہرمعجل جو مقرر کیا وہ بھی شوہر نے نہیں ادا نہیں کیا صورت مذکورہ میں در ذیل سوالات کے جوابات فقہ حنفی کی روشنی میں شریعت مطہرکے مطابق عنایت فرمائیں ۔ 1: کیاولی کی اجازت کے بغیر نکاح ہوجاتاہے اوراس کی شرعی کیاحیثیت ہے ؟ ایسے نکاح کا شریعت میں کا مقام ہے؟ 2: کیالڑکا اورلڑکی اپنے والدین کی اجازت اورشرکت کے بغیر نکاح کرسکتے ہیں یانہیں اورایسے نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1،2) ولی کی اجازت کے بغیرنکاح کرنا شریعت اور معاشرے کی نگاہ میں انتہائی نا پسندیدہ عمل ہے،اس لیے کہ شریعت نے جہاں نکاح میں عورت کی پسند اور ناپسند کو ملحوظ رکھا ہے وہاں ساتھ راستہ بھی بتا دیا کہ تمام معاملات اولیاء کے ہاتھوں انجام پذیرہوں، اسلام نے جہاں اس بات کی اجازت دی کہ ایک مسلمان خاتون کا نکاح بلاتمیز رنگ ونسل، عقل وشکل اور مال وجاہت ہر مسلمان کے ساتھ جائز ہے وہاں اس نے انسانی فطرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ پابندی بھی عائد کی ہے کہ اس عقد سے متاثر ہونے والے اہم ترین افراد کی رضامندی کے بغیر بے جوڑ نکاح نہ کیا جائے تاکہ اس عقد کے نتیجے میں تلخیوں، لڑائی جھگڑوں کا طوفان برپا نہ ہوجائے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنھاکی ایک حدیث میں تو ولی کی اجازت کے بغیرکئے نکاح کو باطل تک کہاگیاہے ،اولیاء کی اجازت کے بغیر پسند کی شادی میں نکاح سے پہلے کئی حرام امورکا ارتکاب کیاجاتاہے جیسے بدنظری ، ناجائزاختلاط ،اجنبی کے ساتھ خلوت اوربعض اوقات بدکاری تک بھی نوبت پہنچ جاتی ہے، اس لیے شریعت کی نظر میں ایسانکاح بالکل پسندیدہ نہیں ہے ،تاہم اگر کسی نے ایسی غلطی کرہی لی ہو اورلڑکا اس کے کفؤ(برابری)کا ہوتونکاح بہرحال منعقدہوجائے گا۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر نکاح کی نسبت عورت کی طرف کی گئی ہے۔ ارشادر بانی ہے: حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْ ھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَجَھُن [البقرة: 232] حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا: لا تُنْکَحُ الْأَیِّمُ حَتَّی تُسْتَاْمَرَ وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتَّی تُسْتَأْذَنَ قَالُوا یَارَسُولَ اللَّہِ وَکَیْفَ اِذْنُھَا قَالَ أَنْ تُسْکُتَ( صحيح البخاري کتاب النکاح 7/ 17ط الشاملۃ) ایک دفعہ حضور اکرمﷺ کے دور مبارک میں ایک عورت کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر ہوا، اس نے آپﷺ سے عرض کیا تو آپﷺ نے اس کا نکاح فسخ کر دیا۔ عَنْ خَنْسَایَ بِنْتِ خِدَامٍ الْأَنْصَارِیَّۃِ أَنَّ أَبَاھَا زَوَّجَھَا وَھِيَ ثَیِّب ُْ‘ فَکَرِھَتْ ذَلِکَ فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ نِکَاحَھا (صحيح البخاري کتاب النکاح (9/ 21) اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے: حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے ایک کنواری لڑکی حضور اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بولی اس کے باپ نے اس کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح کر دیا ہے تو آپﷺ نے اس کو اختیا ر دیا۔ (یعنی اگر وہ چاہے تو نکاح کو فسخ کر دے ۔ حضرت عروہؓ سے روایت ہے: أن عمر بن الخطاب قال: «يعمد أحدكم إلى بنته فيزوجها القبيح، إنهن يحببن ما تحبون»، يعني: إذا زوجها الدميم كرهت في ذلك ما يكره، وعصت الله فيه (مصنف عبد الرزاق الصنعاني (6/ 158) ’’حضرت عمرؓ بن خطابؓ نے فرمایا تم میں سے کوئی ایک اپنی بیٹی کی شادی کا ارادہ کرتا ہے اور اس کی شادی بدصورت آدمی سے کرا دیتا ہے (ایسا نہ کرو) بے شک وہ عورتیں بھی وہی پسند کرتی ہیں جو تم پسند کرتے ہو۔ ‘‘ اور حضرت عمرؓ کا یہ قول بھی کتب حدیث میں موجود ہے: لَا یُکْرِ ھَنَّ أَحَدُ کُمُ ابْنَتَہُ عَلَی الرَّجُلِ الْقَبِیْحِ فَاِنَّھُنَّ یُحْبِبْنَ مَاتُحِبُّونَ(تاریخ المدینۃ ۲/769) علامہ موسیٰ الحجاوی المقدسی (م۔ 968ھ) شیخ الاسلام ابن جوزیؒ (م۔ 597ھ) کی رائے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: قال ابن الجوزی فی کتاب النساء ویستحب لمن أراد أن یزوج ابنتہ أن ینظرلھا شابا مستحسن الصورۃ ولا یزوجھا دمیما وھوالقبیح(الاقناع فی فقہ الامام احمد۳/۱۵۷) وفی سنن ابن ماجة للقزويني - (ج 2 / ص 172) عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال : أتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل فقال : يا رسول الله ! إن سيدا زوجنى أمته ،وهو يريد أن يفرق بينى وبينها ، قال ، فصعد رسول الله صلى الله عليه وسلم المنبر فقال " يا أيها الناس ! ما بال أحدكم يزوج عبده أمته ثم يريد أن يفرق بينهما ؟ إنما الطلاق لمن أخذ بالساق " . وفی إرواء الغليل للالبانی- (ج 7 / ص 109) قلت : ولعل حديث إبن عباس بمجموع طريقيه عن موسى بن أيوب يرتقى إلى درجة الحسن . والله أعلم . ثم وجدت له طريقا ثالثة أخرجه الطبراني في ( المعجم الكبير )
حوالہ جات
۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب