سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ درج بالا استفتاء کے جواب کے بعد یہ معاملہ پیش آیا کہ شوہر اس بات پر حلف اٹھانے کو تیار ہے کہ میں نے یہ میسج نہیں لکھے اور میں نے طلاق نہیں دی۔
دوسری طرف بیوی بھی اب شوہر کی طرفدار ہوکر شوہر کی بات کی تائید کررہی ہے اور شوہر کے ساتھ رہنے کی خواہشمند ہے،یہاں تک کہ بیوی کے بھائی کے بقول پیر کی رات کو اگر موسلادھار بارش نہ ہوتی تو یہ بیوی رات کو ہی اس کے پاس چلی جاتی۔
مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ کیا اس صورت میں شوہر کے حلف کا اعتبار ہوگا؟
کیا بیوی کے اس کردار اور شوہر کے حلف اٹھانے کے بعد طلاق والا سابقہ حکم برقرار رہے گا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
شوہر تو پہلے بھی طلاق کا انکار کررہا تھا،لیکن بیوی اس پر مصر تھی کہ طلاق کے میسج شوہر نے خود ہی لکھے ہیں اور بیوی کے بیان ہی کی بنیاد پر طلاق کا سابقہ حکم تحریر کیا گیا تھا،بہرحال اگر اب بیوی کو شوہر کے قسم پر آمادگی یا دیگر قرائن کی وجہ سے جو اس وقت اس کے سامنے نہیں آئے تھے،اس بات پر دلی اطمئنان ہوچکا ہے کہ طلاق کے میسج اس کے شوہر نے نہیں لکھے تھے،تو ان دونوں کا نکاح برقرار ہے۔
لیکن یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اگر بیوی اب محض طلاق سے بچنے کے لیے اپنےسابقہ طلاق کے دعوے سے مکررہی ہے اورصرف ظاہرا شوہر کی طرفداری کررہی ہو ،جبکہ حقیقت میں اسے یقین یا ظن غالب ہو کہ وہ میسج اس کے شوہرنے ہی لکھا تھاتو پھر اس کے لیے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہ ہوگا،اس لیے دنیا کی چند روزہ مشقت سے بچنے کے لیے غلط بیانی سے کام لے کر اپنی آخرت کی دائمی زندگی کو برباد نہ کرے،اور جس بات پر دل در حقیقت مطمئن ہو اس کے مطابق عمل کرے۔
حوالہ جات
"البحر الرائق " (3/ 109):
"وفي الخلاصة قيل: لرجل ما فعلت بأم امرأتك؟ قال: جامعتها ثبتت الحرمة ولا يصدق أنه كذب وإن كانوا هازلين والإصرار ليس بشرط في الإقرار لحرمة المصاهرة. اهـ. وهذا عند القاضي
وأما فيما بينه وبين الله تعالى إن كان كاذبا فيما أقر لم تثبت الحرمة كما في التجنيس، وإذا أقر بجماع أمها قبل التزوج لا يصدق في حقها فيجب كمال المهر المسمى إن كان بعد الدخول ونصفه إن كان قبله كما في التجنيس أيضا، فإن قلت: لو قال هذه أمي رضاعا ثم رجع وتزوجها صح فما الفرق بينهما؟ أجاب عنه في التجنيس: بأنه في مسألتنا أخبر عن فعله وهو الجماع والخطأ فيه نادر فلم يصدق وهنا أخبر عن فعل غيره وهو الإرضاع فله الرجوع والتناقض فيه معفو كالمكاتب إذا ادعى العتق قبل الكتابة والمختلعة إذا ادعت الطلاق قبل الخلع يصدقان بإقامة البينة".
"البحر الرائق " (6/ 155):
"أما الطلاق فصوره العيني بما إذا اختلعت من زوجها ثم أقامت بينة أنه كان طلقها ثلاثا قبل الخلع فإنه تقبل بينتها، ولها أن تسترد بدل الخلع وإن كانت متناقضة لاستقلال الزوج بإيقاع الثلاث عليها من غير أن يكون لها علم بذلك، وفي البزازية ادعت الطلاق فأنكر ثم مات لا تملك مطالبة الميراث اهـ.
وليس المراد حصر ما يعفى فيه التناقض بل المراد أن ما كان مبنيا على الخفاء فإنه يعفى فيه التناقض".
"الدر المختار " (5/ 200):
"والأصل أن التناقض (لا) يمنع دعوى ما يخفى سببه ك (النسب والطلاق و) كذا (الحرية فلو قال عبد لمشتر.....
قال ابن عابدین رحمہ اللہ:" (قوله والأصل إلخ) أشار بهذا وبالكاف إلى أنه ليس المراد حصر ما يعفى فيه التناقض بما ذكره المصنف بل كل ما في سببه خفاء".