021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لفظِ "فارغ” کے ساتھ تین مرتبہ بغیر حرفِ عطف تعلیقِ طلاق کا حکم
63905طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

میاں بیوی کے درمیان جھگڑا چل رہا تھا۔ بیوی اپنے والدین کے گھر تھی، اسی دوران خاوند اور اس کے خاندان والے صلح صفائی کے لیے کوششیں کرتے رہیں، مگر بات بنتی نہیں دکھائی دے رہی تھی۔ بالآخر کئی واسطے استعمال کرنے کے لیے سوچ بچار ہوئی اور رابطے کیے گئے۔ ایسی ہی ایک مجلس خاوند اور اس کے خاندان کے مابین چل رہی تھی جس میں چند افراد کو صلح کے لیے واسطہ بناکر بیوی والوں کے پاس بھیجنے کی بات چلی تو اس دوران خاوند کے والد نے کہا: "مجھے نہیں معلوم یہ (مذکورہ خاوند) مجھے کہاں کہاں اور کس کس کے آگے ذلیل کروائے گا؟ اس پر خاوند نے یہ الفاظ کہے: "اگر فلاں فلاں آدمی (جن پر اس کے والد کو ناراضگی تھی) صلح کے لیے میری بیوی کے گھر گئے تو وہ میری طرف سے فارغ ہے، فارغ ہے، فارغ ہے"۔ بعد میں وہی لوگ صلح کے لیے چلے گئے۔ اب اس صورت میں طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ اگر ہوگی تو کتنی اور کونسی؟ کیا دوبارہ رجوع یا نکاح کی کوئی صورت ہوسکتی ہے یا نہیں؟ یاد رہے کہ خاوند کا کہنا ہے کہ میں نے یہ الفاظ صرف اور صرف والد کی دلجوئی کے لیے کہے تھے۔ طلاق کی نیت بالکل بھی نہیں تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

لفظِ "فارغ" ہمارے عرف میں ایسا کنایہ ہے جو صرف جواب کا احتمال رکھتا ہے، اور کنایات کی اس قسم کا حکم یہ ہے کہ قرینہ کے وقت بلانیت بھی ان سے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر شوہر نے واقعۃً وہی الفاظ کہے ہیں جو سوال میں مذکور ہیں، اور اس کے بعد مذکورہ لوگ (جن کے جانے پر شوہر نے طلاق کی تعلیق کی تھی) صلح کے لیے اس کے بیوی کے گھر چلے گئے ہیں تو اس شخص کی بیوی پر دو بائن طلاقیں واقع ہوگئی ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جب شوہر نے یہ الفاظ "اگر فلاں فلاں آدمی صلح کے لیے میری بیوی کے گھر گئے تو وہ میری طرف سے فارغ ہے" کہے تو ان سے ایک طلاقِ بائن معلق ہوگئی، اس کے بعد جب شوہر نے حرفِ عطف کے بغیر دوسری دفعہ "فارغ ہے" کے الفاظ کہے تو اس کی وجہ ایک طلاقِ بائن تنجیزاً اسی وقت واقع ہوگئی، تیسری دفعہ شوہر نے جو "فارغ ہے" کے الفاظ کہے ہیں وہ لغو تھے جس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی؛ لأن البائن لایلحق البائن إذا أمکن جعله إخباراً۔ پھر جب شرط پائی گئی یعنی وہ لوگ صلح کے لیے اس کی بیوی کے گھر چلے گئے تو پہلی معلق طلاقِ بائن بھی واقع ہوگئی۔ اور چونکہ شوہر نے یہ الفاظ مذاکرۂ طلاق کی حالت میں کہے ہیں اس لیے نیت نہ ہونے کے باوجود دو طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، جس کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا۔ البتہ اگر یہ دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو باہم رضامندی سے نئے مہر پر دو گواہوں کے سامنے دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں، تاہم اس کے بعد شوہر کو صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا، یعنی اگر دوبارہ نکاح کے بعد شوہر نے ایک مزید ایک طلاق بھی دی تو حرمتِ مغلظہ ثابت ہوجائے گی جس کے بعد حلالہ کے بغیر دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکے گا۔ اس لیے آئندہ طلاق کے معاملے میں انتہائی احتیاط سے کام لینا ضروری ہوگا۔ یہ تو "قضاء" کا حکم ہے، یعنی اگر یہ معاملہ عدالت میں پہنچ جائے تو قاضی شوہر کی نیت کا اعتبار نہیں کرے گا اور وقوعِ طلاق کا حکم لگائے گا؛ کیونکہ کنایات میں قضاءً شوہر کی نیت کا اعتبار نہیں ہوتا۔ طلاق کے معاملے میں عورت بھی قاضی کے قائم مقام ہوتی ہے یعنی وہ الفاظ کے مطابق عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے، اس لیے اگر عورت نے مذکورہ الفاظ سنے ہیں یا کسی عادل شخص نے اس کو خبر دی ہے تو اس کے لیے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں، شوہر کے لیے بھی اس کو اپنے پاس رہنے پر مجبور کرنا جائز نہیں۔ البتہ کنایات میں "دیانۃً" شوہر کی نیت کا اعتبار ہوتا ہے، اس لیے اگر صورتِ مسئولہ میں شوہر طلاق کی نیت نہ کرنے میں سچا ہو (چونکہ معاملہ حلال، حرام کا ہے اس لیے شوہر اپنی آخرت سامنے رکھ کر ہی فیصلہ کرے) اور اس پر قسم بھی اٹھائے تو دیانۃً یعنی فیمابینہ وبین اللہ مذکورہ الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اور اگر عورت نے مذکورہ الفاظ نہ سنے ہوں اور نہ کسی نے اس کو خبر دی ہو تو اس صورت میں شوہر کے لیے اس کو بطورِ بیوی اپنے پاس رکھنے کی گنجائش ہے۔
حوالہ جات
الدر المختار (3/ 298): الحالات ثلاث رضا وغضب ومذاكرة والكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب أو لا ولا ( فنحو اخرجي واذهبي وقومي ) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة ( يحتمل ردا، ونحو خلية برية حرام بائن ) ومرادفها كبتة بتلة ( يصلح سبا، ونحو اعتدي واستبرئي رحمك أنت واحدة أنت حرة اختاري أمرك بيدك سرحتك فارقتك لا يحتمل السب والرد، ففي حالة الرضا ) أي غير الغضب والمذاكرة ( تتوقف الأقسام ) الثلاثة تأثيرا ( على نية ) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما، مجتبى ( وفي الغضب ) توقف ( الأولان ) إن نوى وقع وإلا لا ( وفي مذاكرة الطلاق ) يتوقف ( الأول فقط ) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية لأنها أقوى لكونها ظاهرة والنية باطنة. بدائع الصنائع (3/ 137): وإن علق بشرط فإن قدم الشرط بأن قال إن دخلت الدار فأنت طالق طالق طالق فالأولى يتعلق بالشرط لوجود التعليق الصحيح وهو ذكر شرط وجزاء في الملك والثاني ينزل في الحال لأن قوله أنت طالق إيقاع تام، وقوله وطالق معناه أنت طالق وأنه إيقاع تام لأنه مبتدأ وخبر وقد صادف محله وهو المنكوحة فيقع ويلغو الثالث لوقوع البينونة بالإيقاع، ولو تزوجها ودخلت الدار ينزل المعلق لأن اليمين باقية لأنها لا تبطل بالإبانة فوجد الشرط وهي في ملكه فينزل الجزاء ولو دخلت الدار بعد البينونة قبل التزوج تنحل اليمين ولايقع الطلاق وإن كانت مدخولا بها فالأول يتعلق بالشرط لما ذكرنا والثاني والثالث ينزلان للحال لأن كل واحد منهما إيقاع صحيح لمصادفته محله. الهداية شرح البداية (1/ 240): وإذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها لأن الوقاع مصدر محذوف لأن معناه طلاقا بائنا على ما بيناه فلم يكن قوله أنت طالق إيقاعا على حدة فيقعن جملة، فإن فرق الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة وذلك مثل أن يقول أنت طالق طالق طالق لأن كل واحدة إيقاع على حدة إذا لم يذكر في آخر كلامه ما يغير صدره حتى يتوقف عليه فتقع الأولى في الحال فتصادفها الثانية وهي مبانة. اللباب في شرح الكتاب (ص: 271): (فإن فرق الطلاق) كأن يقول لها: أنت طالق طالق طالق (بانت بالأولى ولم تقع الثانية)، لأن كل واحدة إيقاع على حدة. المبسوط للسرخسي (6/ 228): وإن قال إذا تزوجتك فأنت طالق طالق طالق ثم تزوجها طلقت واحدة؛ لأنه ما عطف الثانية والثالثة على الأولى فتتعلق الأولى بالشرط وتلغو الثانية والثالثة. الأصل للشيباني، ط: قطر (4/ 499): وإذا قال: إذا تزوجتك فأنت طالق طالق طالق، ثم تزوجها وقعت واحدة عليها، وبطل ما سوى ذلك. الفتاوى الهندية (1/ 374): وإن علق الطلاق بالشرط إن كان الشرط مقدما فقال إن دخلت الدار فأنت طالق وطالق وطالق وهي غير مدخولة بانت بواحدة عند وجود الشرط في قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى ولغا الباقي وعندهما يقع الثلاث وإن كانت مدخولة بانت بثلاث إجماعا إلا أن على قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى يتبع بعضها بعضا في الوقوع وعندهما يقع الثلاث جملة واحدة وإن كان الشرط مؤخرا فقال أنت طالق وطالق وطالق إن دخلت الدار أو ذكره بالفاء فدخلت الدار بانت بثلاث إجماعا سواء كانت مدخولة أو غير مدخولة، هذا كله إذا ذكره بحرف العطف، فإن ذكره بغير حرف العطف إن كان الشرط مقدما فقال إن دخلت الدار فأنت طالق طالق طالق وهي غير مدخولة فالأول بالشرط والثاني يقع للحال والثالث لغو ثم إذا تزوجها ودخلت الدار ينزل المعلق وإن دخلت بعد البينونة قبل التزوج حنث ولا يقع شيء وإن كانت مدخولة فالأول معلق بالشرط والثاني والثالث يقعان في الحال. وإن أخر الشرط فقال أنت طالق طالق إن دخلت الدار وهي غير مدخولة فالأول ينزل للحال ولغا الباقي، وإن كانت مدخولة ينزل الأول والثاني للحال ويتعلق الثالث بالشرط كذا في السراج الوهاج. الفتاوى البزازية (3/ 34): إن دخلت الدار فأنت طالق طالق طالق وهي غير ملموسة فالأول معلق بالشرط والثاني ينزل في الحال ولغو الثالث وإن تزوجها ودخل الدار نزل المعلق ولو دخل بعد البينونة قبل التزوج انحل اليمين لا إلى جزاء ولو موطوأة تعلق الأول ونزل الثاني والثالث في الحال. الدر المختار (3/ 308): ( لا ) يلحق البائن ( البائن ) إذا أمكن جعله إخبارا عن الأول كأنت بائن بائن أو أبنتك بتطليقة فلا يقع لأنه إخبار فلا ضرورة في جعله إنشاء بخلاف أبنتك بأخرى أو أنت طالق بائن أو قال نويت البينونة الكبرى لتعذر حمله على الأخبار فيجعل إنشاء ولذا وقع المعلق كما قال ( إلا إذا كان ) البائن ( معلقا بشرط ) أو مضافا ( قبل ) إيجاد ( المنجز البائن ) كقوله إن دخلت الدار فأنت بائن ناويا ثم أبانها ثم دخلت وبانت بأخرى لأنه لا يصلح إخبارا ومثله المضاف كأنت بائن غدا ثم أبانها ثم جاء الغد يقع أخرى. النهر الفائق (2/ 356): (لا تطلق بها) أي: بالكناية يعني قضاء (إلا بالنية) أي: نية الطلاق (أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب، أما في الديانة فيصدق بيمينه، ويكفي تحليفها له في البيت فإن امتنع رفعته إلى القاضي، فإن نكل فرق بينهما كما مر في (المجتبي). البحر الرائق (3/ 329) باب الکنایات: وأطلق في كونه يصدق فأفاد أنه يصدق قضاء وديانة، وفيما لا يصدق فيه إنما لا يصدق قضاءً، وأما ديانةً فلا يقع إلا بالنية، وقدمنا أن المرأة كالقاضي. الدر المختار (3/ 296): باب الكنايات ( كنايته ) عند الفقهاء ( ما لم يوضع له ) أي الطلاق ( واحتمله وغيره ( ف ) الكنايات ( لا تطلق بها ) قضاء ( إلا بنية أو دلالة الحال ) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب. حاشية ابن عابدين (3/ 297): قوله ( قضاء ) قيد به لأنه لا يقع ديانة بدون النية ولو وجدت دلالة الحال فوقوعه بواحد من النية أو دلالة الحال إنما هو في القضاء فقط كما هو صريح البحر وغيره. قوله ( أو دلالة الحال ) المراد بها الحالة الظاهرة المفيدة لمقصوده، ومنها تقدم ذكر الطلاق. البحر الرائق (3/ 329): وفي الهداية: وفي كل موضع يصدق الزوج على نفي النية إنما يصدق مع اليمين؛ لأنه أمين في الإخبار عما في ضميره والقول قول الأمين مع اليمين ا هـ
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب