021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں اپنا مکان بیٹی کو ہبہ کرنا
63499/57 ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

میں یہ مسئلہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ ہماری صرف ایک بیٹی ہے، بیٹا نہیں ہے۔ میرے شوہر کے تین بھائی تھے جو وفات پاچکے ہیں، ایک کے ہاں اولاد نہیں تھی، دو کی اولاد ہیں۔ میرے شوہر کے نام جو مکان ہے وہ ہم دونوں کی مشترکہ کمائی سے ہے، اگر میں اور میرے شوہر باہم رضامندی سے یہ مکان بیٹی کے نام کردیں تو گناہ گار تو نہ ہوں گے؟ دوسری صورت میں کون کون وارث ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا تنہا مالک ہوتا ہے اور اپنے مرض الموت میں مبتلا ہونے سے پہلے صحت والی زندگی میں اپنی جائیدادمیں ہر طرح کا جائز تصرف کرسکتا ہے۔ اس کی زندگی میں اولاد یا کوئی اور وارث اس سےاس کےجائیدادکی تقسیم کا مطالبہ نہیں کرسکتا، کیونکہ میراث کی تقسیم آدمی کے انتقال کے بعد ہوتی ہے،زندگی میں نہیں ہوتی۔تاہم اگر وہ اپنی مرضی سے اپنی اولاد یا اپنے ورثاء کے درمیان اپنی جائیداد تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے لیکن یہ میراث نہیں ہوگی بلکہ ہبہ (گفٹ ) ہوگا۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ دونوں اپنا یہ مکان اپنی بیٹی کو ہبہ (گفٹ) کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں، تاہم کسی کو کوئی چیز صرف زبانی یاتحریری طور پر دینے سے شرعاً ہبہ مکمل نہیں ہوتا۔ شرعاً ہبہ مکمل ہونے کے لیے باقاعدہ عملی قبضہ دینا ضروری ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ آپ اس مکان سے اپنا سامان وغیرہ نکال کر اس کی چابیاں اپنی بیٹی کو دیدیں۔ اگر گھر سے سامان نکال کر قبضہ دینا مشکل ہو تو پھر آپ دونوں اس گھر میں موجود اپنا سامان اپنی بیٹی کو بطورِ امانت دیں اور گھر ان کے نام کرکے چابیاں ان کو دیدیں، اس طرح کرنے سے بھی قبضہ تام ہوجائے گا۔ جب مذکورہ طریقے سے مکان پر آپ کی بیٹی کا عملی قبضہ ہوجائے تو اس کے بعد اگر آپ ان کی رضامندی سے دوبارہ اس گھر میں رہنا چاہیں تو رہ سکتے ہیں۔
حوالہ جات
فقه البیوع (1/399): 174- القبض فی الدار التی یسکنها البائع: ثم اشترط الفقهاء لصحة تسلیم الدار أن تکون خالیة من أمتعة البائع. فإن کانت مشغولةً بها لایتحقق القبض حتی یفرغها. ولکن جاء فی الفتاوی الهندیة عن فتاوی أبی اللیث "فإن أذن البائع للمشتری بقبض الدار والمتاع، صح التسلیم؛ لأن المتاع صار ودیعةً عند المشتری". وکذلك ذکروا حیلةً فی نفاذ هبة ما هو مشغول بمتاع البائع (لعل الصواب "الواهب"، والله اعلم) فقالوا: وحیلة هبة المشغول أن یودع الشاغل أولاً عند الموهوب له، ثم یسلمه الدار مثلاً، فتصح لشغلها بمتاع فی یده. ویمکن أن یخرج علی ذلك ما یقع کثیراً من أن الأب یهب داراً لابنه، وهو ساکن معه فیها بمتاعه. فلو أذن الأب ابنه بقبض متاعه ودیعةً، وسجل الدار باسم ابنه بعد الهبة، وصرح بأن کونه یسکن الدار بعد ذلك موقوف علی إذن الإبن علی سبیل العاریة، وقبل ذلك الإبن، ینبغی أن یعتبر قبضاً کافیاً لتمام الهبة، والله سبحانه أعلم.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب