021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
روایت”علم حاصل کروہ خواہ تمہیں اس کے لیے چین جانا پڑے اطلبوا العلم ولوبالصین” کی تحقیق
64104حدیث سے متعلق مسائل کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

اس حدیث کے بارے میں علمائے کرام كيا فرماتے ہیں؟ کہ حضورا کرمﷺ نے ارشاد فرمایا: "اطلبوا العلم ولو بالصين" يعنی تم علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے، کیا یہ حدیث ثابت ہے؟ اگر ثابت ہے  تو یہ کس  درجہ کی حدیث ہے؟ بعض علمائے کرام فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ثابت نہیں، ازراہ کرم تفصیلی جواب دے کر ممنون فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکرکردہ روایت کا اجمالی جواب یہ ہے کہ اس كو محدّثينِ كرام رحمۃ اللہ علیہم  نے مختلف اسناد  کے ساتھ ذکرکیا ہے، لیکن اس روایت کی کوئی بھی سند صحیح یا حسن درجے کی ثابت نہیں ہے، بلکہ ہر سند میں ضعف شدید پایا جاتا ہے، لہذا جب تک یہ روایت کسی معتبر سند سے ثابت نہ ہو اس کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنا درست نہیں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے:

یہ مکمل روایت  کتبِ حديث  میں اس طرح ذکرکی گئی ہے: اطلبوا العلم ولو بالصين؛ فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم»،    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنے کے اعتبار سےاس روایت کی نسبت حضرت انس بن مالک اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کی طرف کی گئی ہے:

1۔حضرت انس بن مالکؓ سے مروی طرق

حضرت انس ؓ سے روایت کرنے والے حضرات میں ابوعاتکہ ، امام زہری اور جابر بن زید رحمۃ اللہ علیہم کے نام شامل ہیں، چنانچہ بالترتیب ان  تینوں حضرات سے مروی طرق یہ ہیں:

الف:ابوعاتکہؒ سے مروی طرق:

ابو عاتکہؒ  سے مروی طریق کو مختلف ائمہ کرام نے اپنی کتب میں مختلف اسناد کے ساتھ ذکر کیا ہے، اختصار کے پیش نظر صرف ایک کتاب کی عبارت ذکرکرنے کے بعد باقی کتب کے صرف حوالہ جات پر اکتفاء کیا گیا ہے:

  1. چنانچہ علامہ بیہقی رحمہ اللہ نے "شعب الایمان" میں درج ذیل سند کے ساتھ ذکر کیا ہے:

أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، أخبرنا أبو الحسن علي بن محمد بن عقبة الشيباني، حدثنا محمد بن علي بن عفان، وأخبرنا أبو محمد الأصبهاني، أخبرنا أبو سعيد بن زياد، حدثنا جعفر بن عامر العسكري، قال: حدثنا الحسن بن عطية، عن أبي عاتكة، - وفي رواية أبي عبد الله - حدثنا أبو عاتكة، عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اطلبوا العلم ولو بالصين؛ فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم».

(شعب الإيمان للبیہقی : رقم الحديث: 1543، مكتبة الرشد للنشر، الرياض)

  1. "المدخل الی السنن الکبری" ،(رقم الحديث: 325) ابوبکر احمد بن حسین بیہقی دار الخلفاء ،الكويت۔

  2. "جامع بیان العلم وفضلہ" (رقم الحديث: 22) علامہ ابن عبدالبر مالکی ( المتوفی:463ھ)  دار  ابن الجوزي۔

  3. "ترتیب الامالی الخمیسۃ" (رقم الحديث: 284) ابو بکر محمد بن عبد الباقی، المتوفی:535، دار عالم الفوائد۔

  4. "التدوين في أخبار قزوين" (1/ 492) علامہ ابو القاسم عبد الكريم بن محمد الرافعی (المتوفى : 623ھ) دارالکتب العلمیۃ، بیروت۔

  5. "تاريخ بغداد" (9/ 363) علامہ أبو بكر أحمد بن علی بن ثابت بن أحمد بن مہدی(المعروف بالخطيب البغدادی،المتوفى: 463ھ) دار الغرب الإسلامی، بيروت۔

  6. "الضعفاء الکبیر"(2/230، رقم الترجمۃ:864) ابو جعفر محمد بن عمرو عقیلی ؒ (المتوفیٰ: 322ھ) دارالکتب العلمیۃ، بیروت۔

مذکورہ بالا تمام اسناد ابو عاتکہ پر جا کر جمع ہو جاتی ہیں،جن كا نام طریف بن سلمان  بصری اور کنیت ابو عاتکہ ہے اور ابو عاتکہ ؒ اس حدیث کو حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت کرتے ہیں۔

ابوعاتکہ پر ائمہ جرح و تعدیل کا کلام:

ابوعاتكہ کے بارے میں ائمۂ جرح و تعدیل نے کافی  کلام کیا ہے اور کسی بھی امام کا اس کے بارے میں توثیق اور تعدیل کا قول ہمیں  نہیں ملا،چنانچہ مختصر الفاظ میں ائمہ کرامؒ کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:

 

 

الرقم

أقوال الجرح

أقوال التوثيق

1

قال أبوحاتم: ذاهب الحديث، منكرالحديث

ما وثّقه أحد من الأئمة.

2

قال البخاري: منكر الحديث

 

3

قال النسائي: ليس بثقة

 

4

قال الدارقطني: ضعيف

 

5

قال العقيلي: متروك الحديث

 

6

قال ابن حبان: منكرا لحديث جدا

 

7

قال الذهبي: ضعفوه

 

مذکورہ بالا اقوال  میں سے بعض کو علامہ ذہبیؒ (المتوفیٰ: 748ھ) نے  "میزان الاعتدال" میں نقل کیا ہے:

طريف بن سلمان أبو عاتكة عن أنس. قال أبو حاتم: ذاهب الحديث. وقال البخاري: منكر الحديث وقال النسائي: ليس بثقة. وقال الدارقطني وغيره: ضعيف. قلت: هو صاحب حديث: «اطلبوا العلم ولو بالصين» وهو بالكنية أشهر.

(ميزان الاعتدال: 3/ 359، رقم الترجمة: 3984، دار الكتب العلمية)

     اسی طرح امام محمد بن حبان (المتوفیٰ:354ھ) نے ابو عاتکہ کے بارے میں اپنی کتاب" المجروحین" میں "منکرالحدیث جدا" لکھنے کے بعد فرمایا:  ابو عاتکہ حضرت انس بن مالک ؓ سے ایسی احادیث بیان کرتا ہے جو ان کی احادیث نہیں ہیں، اس کے بعد یہی حدیث بیان فرمائی، چنانچہ عبارت ملاحظہ فرمائیں:

طريف بن سلمان أبو عاتكة شيخ من أهل العراق، يروى عن أنس بن مالك إن كان رآه روى عنه الحسن بن عطية والكوفيون. منكر الحديث جدا، يروى عن أنس مالا يشبه حديثه وربما روى عنه ما ليس من حديثه. روى أبو عاتكة عن أنس عن صلى الله عليه وسلم قال: «اطلبوا العلم ولو بالصين ».          

  (المجروحين لابن حبان:1/ 382، دار الوعي)

حافظ ابن حجر ؒ نے"تقریب التہذیب" میں ابو عاتکہ کے بارے میں کچھ  کلام ذکرکرنے کے بعد اس پر ضعف کا حکم لگایا ہے، عبارت ملاحظہ فرمائیں:

أبو عاتكة البصري أو الكوفي اسمه طريف ابن سلمان أو بالعكس ضعيف وبالغ السليماني فيه من الخامسة.

(تقريب التهذيب: 3/425، دار المكتبة العلمية ، بيروت)

مذکورہ بالاعبارات  سے معلوم ہوا کہ ابو عاتکہ  ائمۂ جرح وتعدیل کی نظر میں  معتبر راوی  نہیں ہے، کیونکہ"منکرالحدیث جدا"،  ذاہب الحدیث" اور "متروک الحدیث" کے الفاظ کو ائمۂ جرح وتعدیل نے تیسرے درجے کی جرح میں شامل کیا ہے اور محدثین کرامؒ کے نزدیک ایسے راوی کی روایت متابع اور شاہد کے طور پر بھی قبول نہیں کی جاتی، خصوصا جبكہ اس کے بارے میں تعدیل کا قول کہیں نہیں ملا، لہذا گزشتہ ذکرکردہ طُرق میں  سے کوئی بھی طریق معتبر نہیں، كيونكہ ان سب کا مدار ابو عاتکہ پر ہے۔

ب:   امام زہری ؒ  سےمروی طریق:

امام زہریؒ   سے مروی طریق صرف ایک سند سے ثابت ہے، جس کو علامہ أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم القرطبی  (المتوفى: 463ھ)نے"جامع بيان العلم وفضله" میں درج ذیل سند کے ساتھ  ذکر کیا ہے:

أخبرنا أحمد نا مسلمة، نا يعقوب بن إسحاق بن إبراهيم العسقلاني، ثنا يوسف بن محمد الفريابي ببيت المقدس ثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اطلبوا العلم ولو بالصين فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم».

(جامع بيان العلم وفضله:1/ 37، رقم الحديث: 29، دار ابن الجوزي)

مذکورہ  طریق میں ایک راوی "یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم عسقلانی" کو علامہ ذاہبیؒ نے" المغنی فی الضعفاء (2/ 757)" میں اور حافظ ابن حجر ؒ نے "لسان المیزان" میں "کذاب" قرار دیا ہے ، نیز  حافظ ابنِ حجرؒ نے يعقوب بن اسحاق کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ  وہ اس حدیث کو ایک طریق میں "إبراهيم النخعی عن أنس"کے طریق سے روایت کرتا ہے، حالانکہ ابراہیم نخعیؒ کا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں،چنانچہ عبارت ملاحظہ فرمائیں: 

يعقوب بن إسحاق العسقلاني كذاب فإنه قال حدثنا حميد بن زنجويه ثنا يحيى بن بكير عن مالك عن نافع عن بن عمر رضى الله تعالى عنهما مرفوعا من حفظ على أمتي أربعين حديثا انتهى رواه بن عبد البر في كتاب العلم حدثنا أحمد بن عبد الله ثنا مسلم بن قاسم عنه وروى أيضا عن عبيد الله بن محمد الفريابي عن سفيان عن الزهري عن أنس رضى الله

تعالى عنه رفعه «اطلبوا العلم ولو بالصين؛ فإن طلبه فريضة على كل مسلم ورواه أيضا بإسناد عن إبراهيم النخعي قال سمعت أنسا رضى الله تعالى عنه نحوه وإبراهيم لم يسمع من أنس شيئا.

(لسان الميزان: 8/ 525، مكتب المطبوعات الاسلامية)

     جہاں تک اس راوی  کے بارے میں تعدیل کے الفاظ کاتعلق ہے تو حافظ ابن حجر ؒ نے مسلمہ بن قاسم کے حوالے سے لکھا ہے کہ بعض حضرات نے یعقوب بن اسحاق کی توثیق بھی کی ہے، عبارت ملاحظہ فرمائیں:

وذكره مسلمة بن قاسم في الصلة وذكر له جماعة من الشيوخ وقال: كتبت عنه واختلف فيه أهل الحديث فبعضهم يضعفه وبعضهم يوثقه.

(لسان الميزان: 8/ 526، مكتب المطبوعات الاسلامية)

لیکن یہاں پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلمہ بن قاسم نے توثیق کرنے والوں  کا نام ذکر نہیں کیا، جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ توثیق کرنے والے کس درجہ کے لوگ ہیں؟ دوسری یہ کہ  کسی بھی کتاب میں یعقوب بن اسحاق سے متعلق توثیق کا قول نہیں ملا، اس کے برخلاف "کذاب" کا قول بہت سے حضرات نے نقل کیا ہے، خود حافظ ابن حجرؒ نے اس پر کذاب کا حکم لگایا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ انھوں نے  خود بھی اس توثیق کا اعتبار نہیں کیا، لہذا یہ طریق بھی صحیح نہیں۔

ج:حضرت  جابر بن زيدؒسےمروی طریق:

 حضرت جابربن زيدؒ سے مروی طريق بھی صرف ایک سند سے مروی ہے، جس کو امام ربیع بن حبیب بن عمر ازدی بصری ( جن کی وفات ایک قول کے مطابق ایک سو تین ہجری  میں ہے) نے درج ذیل سند کے ساتھ نقل کیا ہے:

حدثني أبو عُبيدة، عن جابر بن زَيد ، عن أنس بن مالك عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: أطلبوا العلم ولو بالصين.

مسند ربيع بن حبيب (ص: 29، رقم الحديث:18، دار الحكمة، بيروت۔

اس سند کےسب سے پہلے راوی ابو عبیدہ عبداللہ بن قاسم ہیں، ان کو مختلف ائمہ جرح و تعدیل نے ثقہ قرار دیا ہے، امام عبدالرحمن بن ابی حاتم نے امام یحی بن معین ؒ کے حوالے سے  ان کے بارے میں فرمایا: "ليس به بأس" یعنی اس سے حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں اور امام ابن حبان ؒ نے ان كو "  کتاب الثقات" میں ذکر کیا ہے، نیز ان کے بارے میں کسی امام کی جرح بھی منقول نہیں، لہذا یہ  ثقہ راوی ہیں،عبارت ملاحظہ فرمائیں:

عبد الله بن القاسم أبو عبيدة روى عن صالح الدهان عن جابر بن زيد وروى عن بنت ابي بكرة روى عنه معتمر بن سليمان سمعت أبي يقول ذلك. نا عبد الرحمن انا عبد الله بن أحمد بن محمد بن حنبل فيما كتب إلى قال قلت ليحيى بن معين: شيخا حدث عنه معتمر يقال له أبو عبيدة عن صالح الدهان عن جابر بن زيد، من أبوعبيدة هذا؟ قال: رجل يقال له عبد الله بن القاسم، ليس به بأس.

(الجرح والتعديل :5/ 141 دار إحياء التراث العربي بيروت)

دوسرے راوی جابر بن زید ہیں جو کہ مشہور تابعی ہیں، بصرہ میں رہتے تھے، ان کا تفصیلی تذکرہ"  کتاب الثقات لابنِ حبان " میں موجود ہے، یہ حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمراورحضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں، قرآنِ مقدّس کا خوب علم رکھتے تھے،  ان کے بارے میں امام ابن حبان ؒ نے حضرت ابن عباس  کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ  اگر اہلِ بصرہ جابر بن زید کو لازم پکڑ لیں تو ان کا کتاب اللہ سے متعلق علم وسیع ہو جائے گا، یہ سن ترانوے ہجری میں جمعہ کے دن فوت ہوئے،اسی دن حضرت انسؓ کا انتقال ہوا، عبارات ملاحظہ فرمائیں:

جابر بن زيد أبو الشعثاء الأزدي اليحمدي أصله من الجوف ناحية بعمان وكان ينزل البصرة في الأزد في موضع يقال درب الجوف وكانت الإباضية تنتحله وكان هو يتبرأ من ذلك يروى عن ابن عباس وابن عمر روى عنه عمرو بن دينار وكان من أعلم الناس بكتاب الله وكان ابن عباس يقول لو أن أهل البصرة نزلوا عند قول جابر بن زيد لأوسعهم علما عما في كتاب الله وكان فقيها مات سنة ثلاث وتسعين ودفن هو وأنس بن مالك في جمعة واحدة.

(الثقات لابن حبان: 4/ 101،رقم الترجمة: 2009، دار الفكر)

وقال أبو نعيم: مات جابر بن زيد وأنس سنة ثلاث وتسعين في جمعة.

(التاريخ الأوسط 2/ 1094، دار الرشد ،الرياض)

البتہ ابو عبیدہؒ کا حضرت جابر بن زیدؒ سے سماع ثابت نہیں، چنانچہ امام احمد بن حنبلؒ نے يحی بن معين ؒ كا قول نقل  کیا ہے كہ ابو عبیدہ نے جابر بن زیدؒ سے سماع نہیں کیا، بلکہ  ابو عبیدہ  اور جابر بن زید کے درمیان ایک راوی ساقط ہے:

سألت يحيى قلت معتمر عن أبي عبيدة عن عمارة بن حيان عن جابر بن زيد من هذا عمارة بن حيان، قال: رجل روى عنه أبو عبيدة، هذا من أصحاب جابر بن زيد، وقد حدث أبو عبيدة عن صالح الدهان، سمعت يحيى يقول: أبو عبيدة لم يسمع من جابر بن زيد عن رجل عنه.

(العلل ومعرفة الرجال: 3/ 12،رقم الترجمة: 3924، المكتب الإسلامي بيروت)

اس سے معلوم ہوا کہ اس سند میں انقطاع ہے، اب حل طلب مسئلہ  يہ ہے کہ درمیان میں کونسا راوی ساقط ہے ؟ تو اس کی صراحت کسی کتاب   میں نہیں ملی، البتہ عبارات  سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صالح دہانؒ یا عمارہ بن حیان ہیں، کیونکہ  کتابوں میں  ابو عبیدہ کے ان دونوں سے روایت کرنے کا ذکر ملتا ہے، اسی طرح  ائمہ جرح وتعدیل رحمہم اللہ نے صالح دہانؒ  اور عمارہ بن حیان کے حضرت جابر بن زید سے روایات لینے کی  بھی تصریح کی ہے،  البتہ ان دونوں میں سے صالح بن ابراہیم دہان  ثقہ راوی ہیں،  امام یحی بن معینؒ اور امام احمد بن حنبلؒ نے ان کی توثیق کی ہے،جبکہ عمارہ بن حیان متروک الحدیث راوی ہیں،  امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے یحی بن معین رحمہ اللہ کے حوالے سے ان کے بارے "لیس بشئِ " کے الفاظ نقل کیے ہیں اور ان کو مراتب جرح میں چوتھے مرتبہ کے الفاظ میں سے شمار کیا گیا ہے،  ایسے راوی کی روایت کو ائمہ حدیث رحمہم اللہ احکام اور فضائل دونوں کے لیے قبول نہیں کرتے۔عبارات ملاحظہ فرمائیں:

صالح بن ابراهيم وهو صالح الدهان أبو نوح روى عن جابر بن زيد روى عنه ابان بن يزيد العطار وسلم بن ابى الذيال وزياد ابن الربيع ونوح بن قيس سمعت ابى يقول ذلك. نا عبد الرحمن قال ذكره أبى عن إسحاق بن منصور عن يحيى بن معين انه قال: صالح الدهان ثقة.

(الجرح والتعديل 4/ 393، دار إحياء التراث العربي بيروت)

عبد الله بن القاسم أبو عبيدة عن صالح الدهان (كان في الاصل: دهسان) عن جابر بن زيد قوله، روى عنه معتمر وقال محمد بن عقبة حدثنا عبد الله ابن حفص الكنانى سمع عبد الله بن القاسم: سمعت ابنة أبى بكرة أن أبا بكرة نهى عن الحجامة يوم الثلثاء ۔

التاريخ الكبير (5/173، رقم الحديث: 551)

عمارة بن حيان عن جابر بن زيد قال : يحيى ليس بشيء۔

المغني في الضعفاء (2/ 460، رقم الحدیث: 4398):

حدثنا يحيى بن معين، قال: حدثنا معتمر بن سليمان، عن أبي عبيدة، عن عمارة بن حيان أن عكرمة كان لا يصلى خلف من لا يجهر.

التاريخ الكبير (2/ 198، رقم الحدیث: 2388):) أبو بكر أحمد بن أبي خيثمة  (المتوفى: 279ھ) الفاروق الحديثة للطباعة والنشر - القاهرة:

مذکورہ طریق  کا حکم:

گزشتہ عبارات سے معلوم ہوا کہ اس سند میں بھی  انقطاع  پایا جاتا ہے،  پھر اگر ساقط راوی  عمارہ بن حیان ہیں تو یہ سند بھی متروک شمار ہو گی، کیونکہ عمارہ بن حیان متروک الحدیث راوی ہیں اور اگر صالح بن ابراہیم دہان ہیں تو اس صورت میں اگرچہ یہ انقطاع روایت  کو نقصان نہیں دے گا، کیونکہ اس کے بقیہ رواۃ ثقہ ہیں،  لیکن چونکہ مسند ربیع بن حبیب کا مذکورہ  نسخہ قابلِ اعتماد نہیں ہے، کیونکہ ایک قول کے مطابق ان کی وفات (103ھ)  اور ايك قول كے مطابق (170ھ) میں ہوئی، اس اعتبار سے یہ  موطا امام مالکؒ سے بھی پہلے کا نسخہ ہے، جبکہ یہ  کتاب ابھی کچھ عرصہ پہلے منظرِ عام پر آئی ہے، درمیان میں اس کی سند  کافی عرصہ تک مقطوع  رہی ہے،  اس لیے یہ سند بھی معتبر نہیں۔

2۔حضرت ابوہریرہؓ سے مروی طريق

     حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی طریق  صرف ایک سند سے منقول ہے، جس کو علامہ ذہبی ؒ نے" میزان الاعتدال" میں احمد بن عبداللہ بن خالد جویباریؒ کے ترجمہ میں ذکر کیاہے، چنانچہ عبارت ملاحظہ فرمائیں:

 حدثنا ابن كرام ، حدثنا أحمد ، عن الفضل بن موسى، عن محمد بن عمرو ، عن أبى سلمة ، عن أبى هريرة حديث : «اطلبوا العلم ولو بالصين».

(ميزان الاعتدال،1/90،رقم الترجمة: 421، مکتبة رحمانية، لاهور)

     لیکن اس سند میں احمد بن عبداللہ جویباری  ایک راوی ہیں، ان کے بارے میں  علامہ ذہبی ؒ نے امام ابن عدیؒ (المتوفى: 365ھ) کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ احادیث گھڑا کرتا تھا([1]) علامہ ذہبیؒ نے اس کے ترجمہ میں اور بھی بعض احادیث ذکرکی ہیں جن کو مذکورہ راوی کی وجہ سے غیرمعتبر قرار دیاگیا ہے،چنانچہ عبارت ملاحظہ فرمائیں:

أحمد بن عبدالله بن خالد الجويبارى ويقال الجوبارى. وجوبار من عمل هراة، ويعرف بستوق. عن ابن عيينة وطبقته. قال ابن عدى: كان يضع الحديث لابن كرام على ما يريده، فكان ابن كرام يخرجها في كتبه عنه. فمن ذلك: ابن كرام، حدثنا أحمد، عن أبى يحيى المعلم،عن حميد، عن أنس: «يكون في أمتى رجل يقال له أبو حنيفة يجدد الله سنتى على يده».

(ميزان الاعتدال،1/90،رقم الترجمة: 421، مکتبة رحمانية، لاهور)

اسی طرح امام ابن حبان نے اپنی کتاب" المجروحین" میں  احمد بن عبداللہ بن خالد جویباری کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ثقات سے احادیث روایت کرتا اور جھوٹی احادیث گھڑ کر ان کی طرف منسوب کرتا تھا، اس لیے انہوں نے بھی اس  پر  کذاب اور وضعِ حدیث کا حکم لگایا ہے:

أحمد بن عبدالله بن خالد بن موسى بن فارس بن مرداس بن نهيك التيمى العبسى أبو على الجويبارى من أهل هراة، دجال من الدجاجلة كذاب، يروى عن ابن عيينة ووكيع وأبى ضمرة وغيرهم من ثقات أصحاب الحديث، ويضع عليهم ما لم يحدثوا.

(المجروحين لابن حبان: 1/ 142، دار الوعي بحلب)

عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال اطلبوا العلم ولو بالصين فان طلبه فريضة على كل مسلم وهذا بهذا الإسناد باطل يرويه الحسن بن عطية عن أبي عاتكة عن أنس وأبو البختري المذكور في هذا الإسناد اسمه وهب بن وهب ممن يضع الحديث ولأحمد بن عبد الله الهروي مما وضعه أحاديث كثيرة لم أخرجها هاهنا.

الكامل في ضعفاء الرجال (1/178،المتوفى: 365هـ)

مذکورہ بالا عبارات سے معلوم ہوا کہ یہ طریق بھی  معتبرنہیں۔

مذکورہ روایت پرائمۂ حدیث کاکلام:

محدثینِ کرام رحمہم اللہ نے اس حدیث پر درج ذیل الفاظ میں کلام کیاہے:

  1.  امام بیہقیؒ نے "المدخل إلى السنن الكبرى" میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد درج ذیل الفاظ میں تبصرہ فرمایا:

هذا حديث متنه مشهور , وأسانيده ضعيفة , لا أعرف له إسنادا يثبت بمثله الحديث.

ترجمہ: اس حدیث کا متن مشہور  اور اس کی اسناد ضعیف ہیں اورمیرے علم میں اس روایت کی  ایسی کوئی سند نہیں جس طرح کی سند سے حدیث  ثابت ہوسکے۔

(المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي: ص: 241، دار الخلفاء، الكويت)

  1. علامہ أبو بكر أحمد بن عمرو (المعروف بالبزار،المتوفى: 292ھ) نے "مسند البزار" میں اس حدیث کو ذکرکرنے کے بعد فرمایا کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے:

وحديث أبي العاتكة: «اطلبوا العلم ولو بالصين» لا يعرف أبو العاتكة ولا يدرى من أين هو، فليس لهذا الحديث أصل.

(مسند البزار: 1/175، مكتبة العلوم والحكم بالمدينة المنورة)

  1. علامہ سخاویؒ نے"المقاصد الحسنۃ" میں اس حدیث کو ذکرکرنے کے بعد فرمایا کہ یہ حدیث دو طرق سے مروی ہے اور دونوں طرق ضعیف ہیں، نیز یہ بھی فرمایا کہ  امام ابنِ حبان ؒ کے نزدیک  یہ حدیث باطل ہے،  اس کی کوئی اصل نہیں اور علامہ ابنِ جوزیؒ نے اس حدیث  کو موضوعات میں شامل کیا ہے، چنانچہ علامہ سخاوی ؒ كی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

حديث (اطلبوا العلم ولو بالصين فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم» البيهقي في الشعب والخطيب في الرحلة وغيرها وابن عبد البر في جامع العلم والديلمي كلهم من حديث أبي عاتكة طريف بن سلمان وابن عبد البر وحده من حديث عبيد بن محمد عن ابن عيينة عن الزهري كلاهما عن أنس مرفوعا به وهو ضعيف من الوجهين بل قال: ابن حبان إنه باطل، لا أصل له، وذكره ابن الجوزي في الموضوعات.

(المقاصد الحسنة،ص: 121، رقم الحديث: 125، دار الكتاب العربي)

پیچھے ذکرکردہ طرق کی تفصیل اور مذکورہ بالا عبارات سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث کسی بھی  معتبر سند سے ثابت نہیں، بلکہ اس کے ہر طریق میں ضعفِ شدید پایا جاتا ہے، کیونکہ  پہلے طریق میں موجود راوی پر متروک الحدیث، ذاہب الحدیث اور منکرالحدیث جدا وغیرہ کا حکم اور بقیہ دو طرق میں موجود راویوں پر کذاب  کا حکم لگایا گیا ہے اور ایسے رواۃ کی احادیث کو متابعت اور شواہد کے طور پر بھی قبول نہیں کیا جاتا۔لہذا کثرتِ طرق سے بھی یہ حدیث ضعف سے نہیں نکلے گی۔

اشکال:

     پیچھے ذکرکردہ عبارات کا حاصل یہ ہے کہ یہ حدیث کسی بھی صحیح یا حسن درجے کی  سند سے ثابت نہیں، لہذا یہ روایت موضوع ہے یا اس میں ضعفِ شدید پایا جاتا ہے،  جبکہ علامہ زين الدين عبدالرؤف مناویؒ (المتوفى : 1031ھ)نے الجامع الصغیر کی شرح " فیض القدیر" میں اس حدیث کے تحت ائمہ کے مختلف اقوال ذکرکرنے کے بعد آخر میں علامہ مزیؒ کے حوالے سےتحریر فرمایا کہ یہ حدیث کثرتِ طرق کی بناء پر حسن درجہ تک پہنچی  ہوئی ہے اور علامہ ذہبی ؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس حدیث کے بعض طرق صالح بھی ہیں، عبارت ملاحظہ فرمائیں:                      

(اطلبوا العلم) الآتي بيانه (ولو بالصين) أي ولو كان إنما يمكن تحصيله بالرحلة إلى مكان بعيدجدا ۔۔۔۔۔۔۔  قال ابن حبان: باطل، لا أصل له والحسن ضعيف وأبو عاتكة منكر الحديث،وفي الميزان أبو عاتكة عن أنس مختلف في اسمه مجمع على ضعفه من طريق البيهقي۔ هذا المذكور عن أنس بن مالك قال السخاوي وغيره: وهو ضعيف من الوجهين بل قال ابن حبان: باطل لا أصل له۔ وحكم ابن الجوزي بوضعه ونوزع بقول المزي له طرق ربما يصل بمجموعها إلى الحسن ويقول الذهبي في تلخيص الواهيات روي من عدة طرق واهية وبعضها صالح".

(فيض القدير شرح الجامع الصغير:رقم الحديث:1110، دار المعرفة بيروت)

جواب: 

در اصل اس حدیث کے دو حصے ہیں، پہلا حصہ«اطلبوا العلم ولو بالصين» اور دوسرا حصہ «فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم» ہے۔پیچھے ذکرکردہ تمام تفصیل مذکورہ حدیث کے پہلے نصف حصے  سے متعلق تھی، جہاں تک اس کے دوسرے نصف حصے یعنی «فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم»کا تعلق ہے تو وہ  پہلے جملے سے علیحدہ مستقل طور پر بھی کئی طرق سے مروی ہے، علامہ مناوی ؒ  نے علامہ مِزی اور علامہ ذہبی ؒ کے حوالے سے جوعبارات نقل کی ہیں وہ اس حدیث کے دوسرے حصے سے متعلق ہیں، اس کی تفصیل درج ذیل ہے:

علامہ ابو الحسن على بن محمد بن عراق كنانیؒ (المتوفی: 963)نے اپنی کتاب " تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأحاديث الشنيعة" میں اس حدیث کے تحت تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد لکھا ہےکہ اس حدیث کے نصفِ ثانی کو امام ابن ماجہ ؒ نے بھی ذکر کیا ہے، اس کے بعد علامہ مزی ؒ کی وہ عبارت ذکر فرمائی جس کو علامہ مناویؒ نے  "فیض القدیر" میں ذکرکیا ہے،پھر ان تمام محدثین ؒ کے نام ذکرکیے، جنہوں نے اس حدیث کو ذکر کیا اور ساتھ ان کے اقوال کو بھی ذکر کیاہے، چنانچہ علامہ ابن عراق ؒ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

ونصفه الثانى أخرجه ابن ماجه قال الحافظ المزى الشافعى: وله طرق كثيرة عن أنس يصل مجموعها إلى مرتبة الحسن، وأخرجه البيهقى فى الشعب أيضا من حديث أبى سعيد الخدرى ( قلت) وأخرجه الحافظ العراقى الشافعى فى أماليه من حديث أنس من غير طريق ابن ماجه ثم قال:حديث حسن غريب من هذا الوجه قال: وهو مشهور من حديث أنس رويناه من رواية عشرين رجلا من التابعين عنه قال: وقد ضعف جماعة من الأئمة طرقه كلها فقال أحمد: لايثبت عندنا فى هذا الباب شئ وكذا قال أبو على النيسابورى الشافعى والبيهقى وابن عبد البر، وذكره ابن الصلاح فى علوم الحديث مثلا للحديث المشهور غير الصحيح انتهى، وفى تلخيص الواهيات للذهبى روى

عن على وابن مسعود وابن عمر وابن عباس وجابر وأنس وأبى سعيد وبعض طرقه أو هى من بعض وبعضها صالح والله أعلم.

تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأحاديث الشنيعة (1/258، دار الكتب العلمية، بيروت)

واضح رہے کہ علامہ مزیؒ کی مذکورہ  عبارت جو حدیث کے نصف ثانی سے متعلق ہے وہ بھی تلاش کے باوجود کسی اور کتاب میں نہیں ملی۔ جہاں تک علامہ ذہبیؒ کی  عبارت کا تعلق ہے   تواس کا جواب یہ ہے:

  1. علامہ ذہبی ؒ نے تلخیص الواہیات میں روایت کے مذکورہ حصے «اطلبوا العلم ولو بالصين» کو ذکرکرنے کے بعد امام ابن حبان ؒ كے حوالے سے خود اس  كا باطل ہونا  ذکر کیاہے، اگر ان کے نزدیک اس حدیث کے کچھ طرق صالح اور مقبول ہوتے تو ضرور ان کا ذکر فرماتے، چنانچہ عبارت ملاحظہ فرمائیں:

حديث «اطلبوا العلم ولو بالصين»رواه جماعة عن الحسن بن عطية عن أبي عاتكة عن أنس قال ابن حبان: هذا باطل وأبو عاتكة طريف واهٍ.

(تلخيص الواهيات لشمس الدين الذهبي ، رقم الحديث: 110)

  1. علامہ ذہبی ؒ  کی کتاب "تلخیص الواہیات" کے مطالعہ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے"بعضھا صالح" بات  نصف ِ ثانی " طلب العلم فريضة على كل مسلم" کےبارے میں فرمائی ہے، كيونكہ اس میں پہلے نصف حصے کا ذکر ہی نہیں ہے، چنانچہ عبارت ملاحظہ فرمائیں:

«طلب العلم فريضة» يروى فيه عن علي، وابن مسعود، وابن عمر، وابن عباس، وجابر، وأنس، وأبي سعيد، وبعض طرقه أوهى من بعض وبعضها صالح.

(تلخيص الواهيات لشمس الدين الذهبي : ص:34)

علامہ ذہبی ؒ نے’’ تلخيص الواهيات: ص:34‘‘میں فرمایا کہ حدیث « طلب العلم فريضة على كل مسلم" کئی صحابہ کرام یعنی حضرت علی، حضرت عبدا للہ بن مسعود، حضرت ابن عمر، حضرت ابنِ عباس، حضرت جابر اور حضرت انس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، حالانکہ جس روایت میں«اطلبوا العلم ولو بالصين» مذکور ہے وہ صرف حضرت انس اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔

مذکورہ بالا امور سے واضح ہو گیا  کہ علامہ ذہبیؒ کا کلام  مذکورہ روایت کے دوسرے حصے کے بارے میں ہے جو مستقل طور پر کئی طرق سے مروی ہے اور  ان میں سے بعض طرق ضعیف ہیں، البتہ ان طرق کی کثرت کی بناء پر حضرات محدثین  رحمہم اللہ کی تصریح کے مطابق یہ حدیث کم از کم"حسن" درجے تک  ضرور پہنچی ہوئی ہے، اس حدیث  کی تفصیل درج ذیل ہے:

اس حدیث کے طرق میں سے  ایک طریق کو امام ابن ِ ماجہ ؒ (المتوفى: 273ھ)نے اپنی سنن میں بھی ذکر فرمایا ہے:

حدثنا هشام بن عمار، حدثنا حفص بن سليمان ، حدثنا كثير بن شنظير، عن محمد بن سيرين، عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «طلب العلم فريضة على كل مسلم».

                                                                                           (سنن ابن ماجة :رقم الحديث: 224، دار المعارف، الرياض)

اس كے علاوه علامہ طبرانی ؒ نے اس حدیث کو " المعجم الأوسط (6/ 96) " میں، حافظِ مغرب علامہ ابن عبدالبرؒ نے "جامع بيان العلم وفضلہ (1/ 23) " میں،  علامہ بیہقیؒ نے "المدخل إلى السنن الكبرى (245/1)" میں  اور ابوبكر محمد بن ابی اسحاق كلاباذیؒ (المتوفیٰ: ۳۸۰ھ )نے"بحر الفوائد  للکلابازی الحنفی (ص: 327)" میں ذکرکیا ہے۔

  اس حدیث پرمحدثين حضراتؒ کا کلام:

  1. اس حدیث کو ذکرکرنے کے بعد علامہ بیہقیؒ (المتوفی: ۴۵۸ھ) نے اپنے استادحافظ ابو عبداللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ میرے نزدیک اس حدیث کی سند صحیح ہے، چنانچہ عبارت ملاحظہ فرمائیں:

أخبرنا أبو عبد الله الحافظ قال: سمعت أبا علي الحسين بن علي الحافظ يقول: صح عندي عن النبي صلى الله عليه وسلم في «طلب العلم فريضة على كل مسلم» إسناده.

 (المدخل إلى السنن الكبرى: رقم الحديث: 326، دار الخلفاء)

  1. علامہ عجلونیؒ (المتوفی: 1162ھ) نے "کشف الخفاء" میں حافظ ابن ِ حجر ؒ کے حوالے سے اس حدیث«فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم» کے کئی صحابہ سے مروی ہونے کا ذکرکیا اور آخر میں اس حدیث پر حسن ہونے کا حکم لگایا ہے، چنانچہ عبارت ملاحظہ فرمائیں:

قال الحافظ ابن حجر: في اللآلئ بعد أن ذكر روايته عن علي وابن مسعود وأنس وابن                     عمر وابن عباس وجابر وأبي سعيد من طرق فيها مقال، ورواه ابن ماجه في سننه عن

أنس مرفوعا بلفظ «طلب العلم فريضة على كل مسلم، وواضع العلم عند غير أهله كمقلد الخنازير الجواهر واللؤلؤ والذهب» وهو حسن . وقال المزي: روي من طرق تبلغ رتبة الحسن.

(كشف الخفاء ومزيل الإلباس عما اشتهر من الأحاديث على ألسنة الناس:2/ 44)

  1. علامہ مناویؒ نے اس حدیث کے تحت علامہ سیوطیؒ  کا فرمان نقل کیا ہے کہ میں نےاس حدیث کے پچاس طرق جمع کیے اور اس پر "صحیح لغیرہ" کا حکم لگایا، چنانچہ عبارت ملاحظہ فرمائیں:

جمعت له خمسين طريقا وحكمت بصحته لغيره ولم أصحح حديثالم أسبق لتصحيحه سواه.

(فيض القدير للمناوي :15/ 158،دار الكتب العلمية بيروت)

  1. علامہ سخاویؒ نے "المقاصد الحسنۃ" میں اس حدیث کو علامہ مزیؒ کے حوالے سے حسن قراردیا، نیز علامہ عراقیؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ بعض ائمہ نے اس حدیث کے بعض طرق کو صحیح قرار دیا ہے، عبارت ملاحظہ فرمائیں:

قال العراقي: قد صحح بعض الأئمة بعض طرقه كما بينته في تخريج الإحياء وقال المزی إن طرقه تبلغ به رتبة الحسن.

(المقاصد الحسنة، ص: 442 دار الكتاب العربي)

  1. علامہ عبد الفتاح ابو غدہ صاحبؒ نے " الأ سئلة العشرة الكاملة" کے حاشیہ ميں شيخ احمد غماریؒ کے حوالے سے اس کو کثرتِ طرق کی بناء پر"صحیح لغیرہ" قرار دیا ہے:

قال عبد الفتاح: ولأستاذنا العلامة الشيخ أحمد الغماري جزء خاص بهذالحديث سماه" المسهيم، بطرق حديث "طلب العلم فريضة على كل مسلم" انتهى فيه إلى أن الحديث يبلغ  بمجموع طرقه رتبة الصحيح لغيره.

(الأ جوبة الفاضلة للأسئلة العشرة ، ص: ۱۵۸، مکتب المطبوعات الإسلامية)

مذکورہ بالا عبارات سے معلوم ہوا کہ بعض ائمہ کرام رحمہم اللہ نے  اس حدیث کے دوسرے حصے کومستقل حدیث کے طور پر ذکر فرمایا ہے اور اسے کثرتِ طرق کی بناءپر حسن اور بعض نے صحیح لغیرہ  قرار دیا ہے۔نیز کتب کی مراجعت سے معلوم ہوتا ہےکہ علامہ مزیؒ اور علامہ ذہبیؒ کی عبارات کی نسبت پوری حدیث«اطلبوا العلم ولو بالصين فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم»  کی طرف  کرنا درست ہے، کیونکہ نفس الامر میں اس پوری حدیث کا کوئی بھی طریق حسن یا صالح نہیں۔واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔

حاصلِ کلام:

مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس  روایت  کا پہلا حصہ«اطلبوا العلم ولو بالصين»کسی  بھی معتبرسند سے  ثابت نہیں،  لہذا  جب تک یہ روایت کسی معتبر سند سے ثابت نہ ہو اس کی رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت کرنا درست نہیں۔ البتہ اس روايت کا معنی صحیح ہے، جیسا کہ علامہ سخاویؒ نے امام اسحاق بن راہویہؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس کا معنی صحیح ہے اور اس سے فرائض  و واجبات یعنی نماز، روزہ زکوۃ اور حج وغیرہ کا علم مراد ہے، چنانچہ عبارت ملاحظہ فرمائیں:

قال إسحاق بن راهويه: إنه لم يصلح أما معناه فصحيح في الوضوء والصلاة والزكاة إن كان له مال وكذا الحج وغيره.

(المقاصد الحسنة، ص: 442، دار الكتاب العربي)

اسی طرح علامہ مناویؒ نے "الجامع الصغیر" کی شرح میں لکھاہے کہ اس سے مراد وہ علم ہے جس کا حاصل کرنا ضروری ہے اور اس کےبارے میں مسلمان کا  کوئی عذر قبول نہیں:

( اطلبوا العلم ) أي الشرعي علي وجهه المشروع ( ولو بالصين ) مبالغة في البعد ( فإنّ طلب العلم فريضة على كل مسلم» وهو العلم الذي لا يعذر المكلف في الجهل به والعلم ستة أقسام فرض كفاية إذا قام به البعض سقط الحرج عن الكل وإلا أثم الكل وفرض عين وهو ما يحتاجه المكلف في الفرض كوضوء وصلاة وصوم.

التيسير بشرح الجامع الصغير (1/ 329)

جہاں تک اس حدیث کےدوسرے حصے«فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم» کا تعلق ہے تو  چونکہ وہ  دیگر کئی مستقل طرق سےبھی مروی ہے اور علامہ مزیؒ کی تصریح کے مطابق یہ حدیث اپنے مجموعۂ طرق کے اعتبار سے حسن ،  علامہ ذہبیؒ  كے نزديك اس کے بعض طرق  صالح اور علامہ سیوطی ؒ نے کثرتِ طرق کی بناء پر ا س کو "صحیح لغیرہ" قرارد یا ہے،(جیسا کہ عبارات گزر چکی ہیں) لہذا یہ حدیث ( جو دیگرکئی سندوں سے ثابت ہے) سند کے اعتبار سے"صحیح لغیرہ"یا کم ازکم "حسن" درجے کی ہے اور اس کو حدیث کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔

 

([1]) الكامل في معرفة ضعفاء المحدثين:1/ 291، الناشر: دار الكتب العلمية.

"احمد بن عبد الله الهروي يعرف بالجوباري جوبار هراة ويعرف بستوق حدث عن جرير والفضل بن موسى وغيرهما بأحاديث      وضعها عليهم وكان يضع الحديث لابن كرام على ما يريده وكان بن كرام يضعها في كتبه عنه".

حوالہ جات
٫٫٫

محمد نعمان خالد عفی عنہ

دارالافتاء: جامعۃ الرشید کراچی

12/محرم الحرام1440ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب