021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
محض ایک دو تین کہنے سے طلاق نہیں ہوتی۔
77809طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

اٹھارہ سال قبل زید بیروزگاری اور  گھریلو نفاق کی زد میں تھا،اس نے اپنی بیوی کو جو کہ میکے میں تھی،ڈرانے کی غرض سے فون پر کہا کہ اگر شام تک نہ آئیں تو ایک دو تین۔ زید نے اصل الفاظ کے بجائے گنتی کا سہارا اس لئے لیا تھا کہ صرف ڈرانا مقصود تھا،نیت ہرگز نہیں تھی،اسے اپنے جہل کی وجہ سے صرف اصل لفظ کی ادائیگی سے ہی جدائی وقوع پذیر ہونے کاپتہ تھا،چونکہ ناچاقی بعض بدخواہوں کی وجہ سے عروج پر تھی، اسلئے یہ سوچ کر کہ زید کہیں غصہ اور نفاق کی شدت سے  سچ مچ ہی اہلیہ کو نہ چھوڑ دے، وہ فون کرنے کے بعد ڈاکٹر کے پاس گیا اور اس سے نسخہ لیا کہ زید گھریلو ناچاقیوں کی وجہ سے شدید ڈپریشن کی حالت میں ہے اور اسے خطرہ ہے کہ کہیں بیوی کو چھوڑ ہی نہ دے۔ اس  پر ڈاکٹر نے اسے پرسکون رہنے کی تلقین کی اور سکون آور ادویات دیں۔ اگلے دن وہ جاکر اپنی اہلیہ کو لے آیا۔اس واقعے کے پانچ سات سال بعد زید نے تبلیغ میں چار ماہ لگائے تو اپنی خلش یا وہم یا خوف دور کرنے کیلئے ایک تبلیغی مفتی صاحب سے سارا ماجرا بیان کرکے دریافت کیاتو انہوں نے کہا کہ طلاق واقع نہیں ہوئی،اب اٹھارہ سال بعد جبکہ زید کے 5  بچے بڑے ہو چکےاور 4 حافظ قرآن ہیں،خاندان کے بعض بدقماش حاسد اس واقعے کا ذکر انتہائی غلط الفاظ میں کرتے ہیں جس سے زید اور اسکی بیوی کو شدید اذیت ہوتی ہے،نیز زید کو باربار یہ وہم ہوجاتاہے کہ کہیں سچ مچ تو جدائی نہیں ہوچکی،اس وہم کی وجہ سےزیدشدیداندرونی کرب اورٹوٹ پھوٹ میں مبتلاہے۔ برائے مہربانی ازروئے شریعت جواب سے مطلع فرما دیں۔(ناقابل اشاعت از مستفتی)

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صرف ایک دو تین کہنے سے طلاق نہیں ہوتی، لہذا اگر واقعۃ صرف یہی الفاظ بولے گئے تھے( بیوی کی طرف نسبت پر مشتمل اعدادمثلا تجھے ایک دو تین وغیرہ  الفاظ نہیں تھے)تو  ان سے کوئی طلاق نہیں ہوتی اور اس بارے میں کسی قسم کے وہم میں پڑنے کی ضرورت نہیں ، نیز دیگر حضرات کا تنگ کرنا بھی ایذاء مسلم میں داخل ہونے کی وجہ سے حرام ہے، بالخصوص خاندان کے رشتہ کو جہاں تک ہوسکے باقی رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے ، زبردستی کسی لفظ سے یا عمل سے نکاح کےرشتہ   کوختم کرنے کی کوشش یا مہم جوئی ایک نہایت قبیح اور مذموم بلکہ حرام فعل ہے۔

حوالہ جات
۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۱صفر۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب