021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خلوت صحیحہ کےبعدتین طلاق دینےکاحکم
60925طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

محترم مفتیان کرام! ایک شخص نےاپنی ہونے والی بیوی سے(جس کے ساتھ ابھی ازدواجی تعلقات کی ابتداء نہیں ہوئی ہے، نکاح ہوچکا ہے) متفرق طور پر صریح الفاظ میں طلاق کہہ چکا ہےاور تین سے زیادہ مرتبہ کہہ ڈالا ہے،اور یہ تینوں طلاقیں ایک ڈیڑھ مہینےکے اندر ہی دی ہیں۔حالانکہ ان کےآپس میں لمس وقبل وغیرہ ہوچکےہیں اور ساتھ ساتھ خلوت بھی ہوچکی ہے،مگر جماع سےانکار کردیا ہےکہ نہیں ہوئی ہے۔ اب موجودہ صورت حال یہ ہےکہ لڑکےکے والدین اورخاندان والوں نےاس پردباؤ ڈالا ہوا ہے کہ جوبھی ہواسی لڑکی ہی کوکرنا پڑےگا، کیونکہ وہ اپنی خاندانی عزت اور وقارکوکھو نہیں سکتے۔ لڑکےکوگھرسے نکالنے کی دھمکی دی ہوئی ہےاور لڑکی کےبھائیوں نے بھی اس مطلوبہ شخص کوجان سے مارنے کی دھمکی دی ہے۔ ان حالات کےتناظرمیں اس شخص نےکئی علماء کرام کےسامنے اپنا مسئلہ رکھا۔جنہوں نے یہ رائے دی۔ طلاق رجعی جماع کےبعدمنعقد ہوتی ہے،لہذآپ پرلازم ہےکہ نکاح دوبارہ نئےسرےسےکریں،کیونکہ بیوی بائنہ ہوچکی ہےپہلی بار طلاق دینےسے۔(اہلحدیث عالم کی رائے) دلیل میں یہ بتا دیا کہ ہدایہ شریف میں اسی طرح لکھا ہواہے کہ خلوت کے بعداگرکوئی جماع سےانکار کرتاہےتو اس کی رجعیت ساقط ہوجاتی ہےاوربیوی اس پر بائنہ ہوجاتی ہے،لہذوہ نیا نکاح کرےگا۔(کتاب الرجعہ) اسی طرح "ردالمحتار" سےبھی یہ بات اس کےسامنےرکھی کہ رجوع کا حق جماع کے بعدمؤکدرہتاہے۔ اب جب اس شخص نےمختلف فتاوی دکھاکرگھرمیں بات ظاہرکردی تواس کادوبارہ نکاح منعقدہورہاہے۔اب اگریہ شخص ان عبارتوں کےپیش منظرنکاح کرلےتوکیایہ اس کےلیےجائزہوگا؟ کیاوہ زنا کےزمرےمیں آئےگا؟ اس کی اولاد ولدالزناہوگی؟ کیونکہ اس کی بیوی حلالہ کرنےپرراضی نہیں ہورہی اور نہ اس کےگھر والےراضی ہورہےہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

استفتاء میں مذکوربات اس حد تک تو ٹھیک ہےکہ طلاق صریح کےبعدرجوع کا حق تب حاصل ہوتا ہے جب وہ جماع کے بعد دی گئی ہو اورجماع سےپہلےدی جانے والی طلاق سے رجوع کا حق ختم ہوجاتا ہےاوروہ بائنہ ہوجاتی ہے۔لیکن جس عورت کے ساتھ خلوت صحیحہ ہوچکی ہواس کو عدت بھی گزارنی ہوتی ہےاورعدت میں دی جانےوالی دوسری یاتیسری طلاق واقع ہوجاتی ہے۔لہذا اگرچہ پہلی طلاق بائن ہے،لیکن اس کےبعددی جانےدومزیدطلاقیں بھی واقع ہوجائیں گی،کیونکہ وہ عدت کے دوران دی جارہی ہیں اورصریح طلاقیں ہیں۔ حاصل یہ ہواکہ اس عورت کوتین طلاقیں ہوچکی ہیں۔اورحرمت مغلظہ ثابت ہوچکی ہے فی الحال دونوں کےلیےدوبارہ آپس میں نکاح بھی جائزنہیں ۔ اگریہ دونوں آپس میں صرف نکاح کرکے ایک ساتھ رہتے ہیں تو یہ نکاح ناجائز اورایساکرناگناہ کبیرہ ہوگااور اگر اسی نکاح کےساتھ شوہراور بیوی والا تعلق قائم کرتے ہیں تو یہ خالص زنا ہوگا۔ باقی جودونوں خاندان والوں کی طرف سےلڑکےپردباؤ یادھمکی ہےتو اس کا حل یہ ہےکہ علماء کے ذریعےانہیں قرآن وحدیث کاحکم بتائیں اورانہیں یہ بات سمجھائی جائے کہ اللہ کا حکم پوراکرناہی سب سےاہم ہے،اس سے سب مسائل حل ہوجاتےہیں۔ ورنہ دنیا وآخرت تباہ ہونےکا خطرہ ہے۔ان شاءاللہ امیدہےکہ وہ بھی مان جائیں گے۔ ذیل کےحوالہ جات میں متعلقہ دونوں کتابوں کی عبارتیں بھی نقل کی جاتی ہیں:
حوالہ جات
قال العلامة المرغينانی رحمه الله: فإن خلا بها، وأغلق بابا، أو أرخی سترا، وقال لم أجامعها، ثم طلقها لم يملك الرجعة؛ لأن تأکد الملك بالوطئ، وقد أقر بعدمه، فيصدق فی حق نفسه، والرجعة حقه. (الهداية:2/261) وقال العلامة ابن عابدين رحمه الله فی بيان الصور التی لم يملك الزوج الرجعة فيها: قوله:( إذ لارجعة في عدة الخلوة) أي ولو کان معها لمس أو نظر بشهوة ولو إلی الفرج الداخل ح. و وجه أن الأصل في مشروعية العدة بعد الوطئ تعرف براءة الرحم تحفظا عن اختلاط الأنساب، و وجبت العدة بلاوطئ احتياطا، وليس من الاحتياط تصحيح الرجعة فيها. رحمتی. قوله: (ابن کمال) حيث قال في العدة بعد الدخول: لابد من هذا القيد، لأن العدة قد تجب بالخلوةالصحيحة بلا دخول ولا تصح فيها الرجعة. (ردالمختار: 5/26) روی الإمام البخاری رحمه الله عن عائشة رضی الله عنها أنها قالت : إن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت : يا رسول الله: إن رفاعة طلقني فبت طلاقي،وإنی نکحت بعده عبد الرحمن بن الزبيرالقرظی وإنما معه مثل الهدبة. قال رسول الله صلی الله عليه وسلم : لعلک تريدين أن ترجعي إلى رفاعة، فقالت : نعم. فقال: لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقی عسيله. (صحيح البخاري:3/1503،مطبوع:الطاف سنـز) قال العلامة المرغيناني رحمه الله " وإن کان الطلاق ثلاثا فی الحرة، أوثنتينن فی الأمة لم تحل له، حتی تنکح زوجاغيره نکاحا صحيحا، ويدخل بها ثم يطلقها أويموت عنها. والأصل فيه قوله تعالی: "فإن طلقها فلاتحل له من بعد حتی تنکح زوجاغيره". (الهداية: 2/267، باب الرجعة) قال العلامة الزيلعي رحمه الله: وتقوم (الخلوةالصحيحة) مقام الوطئ فی بعض الأحکام دون البعض...وأما فی حق وقوع طلاق آخر، ففيه روايتان، والأقرب أن يقع.(تبيين الحقائق:2/552) قال العلامة ابن عابدين رحمة الله عليه: والحاصل:أنه إذا خلا بهاخلوة صحيحة، ثم طلقهاطلقة واحدة، فلاشبهة فی وقوعها، فإذا طلقها فی العدة طلقة أخری، فمقتضي کونها مطلقة قبل الدخول أن لاتقع عليها الثانية، لکن لما اختلفت الأحکام فی الخلوة أنها تارة تکون کالوطئ وتارة لاتکون جلعلناها کالوطئ فی هذا، فقلنابوقوع الثانية احتياطا؛ لوجودهافی العدة. (ردالمحتار: 4/248) وفی الفتاوی الهندية "وأصحابنا أقاموا الخلوة الصحيحة مقام الوطئ في حق بعض الأحكام دون البعض، فأقاموها مقامه في حق تأكد المهر وثبوت النسب والعدة والنفقة والسكنى في هذه العدة وحرمة نكاح أختها وأربع سواها وحرمة نكاح الأمة على قياس قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى ومراعاة وقت الطلاق في حقها، ولم يقيموها مقام الوطئ في حق الإحصان وحرمة البنات وحلها للأول والرجعة والميراث، وأما في حق وقوع طلاق آخر ففيه روايتان، والأقرب أن يقع؛ كذا في التبيين". (الهندية:1/306) قال العلامة ابن الهمام رحمه الله : واعلم أن أصحابنا أقاموا الخلوة الصحيحة مقام الوطئ في حق بعض الأحكام، تأكد المهر وثبوت النسب والعدة والنفقة والسكنى في مدة العدة ومراعاة وقت طلاقها، ولم يقيموهما مقامه في الإحصان وحلها للأول والرجعة... وأما في حق وقوع طلاق آخر، ففيه روايتان، والأشبه وقوعه، لأن الأحكام لما اختلفت في هذا الباب وجب أن يقع احتياطا. (فتح القدير:3/218) وفي مجمع الأنهر: اعلم أن أصحابنا أقاموا الخلوة الصحيحة مقام الوطئ في بعض الأحكام، لتأكد المهر وثبوت النسب والعدة والنفقة والسكنى في مدة العدة، وحرمة نكاح أختها وأربع سواها ما دامت العدة قائمة...ولم يقيموها مقام الوطئ فی حق الإحصان وحرمةالبنات وحلها للأول والرجعة الميراث، وأما في حق وقوع طلاق آخر، ففيه روايتان، والأقرب أن يقع. (مجمع الأنهرفی شرح ملتقی الأبحر:1/516)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب