زید ایک سودی بینک کا منیجر ہے، وہ مسجد میں چندہ دیتا ہے۔ اس کا چندہ مسجد کے کن اخراجات میں لگا سکتے ہیں۔ کیا اس سے بیت الخلا تعمیر کروا سکتے ہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سود کی کمائی مسجد کے اخراجات میں لگانا جائز نہیں ، اس سے بیت الخلا تعمیر کرنا بھی جائزنہیں۔ مذکورہ شخص چونکہ سودی بینک کا منیجر ہے ، سودی معاملات چلاتا ہے اور اسی کی تنخواہ لیتا ہے، تو اس کی آمدن حرام ہے۔لہذا ان کا چندہ مسجد میں استعمال نہ کیا جائے۔جو رقم ان سے لی گئی ہے وہ واپس کر دی جائے اور ان کو یہ کہا جائے کہ وہ اس رقم کو ثواب کی نیت کے بغیر کسی فقیر کو دے دیں۔
حوالہ جات
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 658):
(قوله لو بماله الحلال) قال تاج الشريعة: أما لو أنفق في ذلك مالا خبيثا ومالا سببه الخبيث والطيب فيكره لأن الله تعالى لا يقبل إلا الطيب، فيكره تلويث بيته بما لا يقبله.
درر الحكام شرح غرر الأحكام - (ج 1 / ص 494)
( قوله بماله أي بمال الباني ) قال تاج الشريعة وهذا إذا كان من طيب ماله أما إذا أنفق في ذلك مالا خبيثا أو مالا مسببه الخبيث والطيب فيكره ؛ لأن الله تعالى لا يقبل إلا الطيب فيكره تلويث بيته بما لا يقبله