اگر کوئی گاڑی میں بغیر کرایہ پوچھے سوار ہو جائے اور بعد میں کرایہ پر تنازعہ پیدا ہو تو کس کی بات مانی جائے گی ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
گاڑی کا کرایہ معروف نہ ہو تو سوار ہونے سے پہلے کرایہ طے کرنا ضروری ہے، اگر مقرر نہ کیا تو یہ معاملہ فاسد ہو جائے گا،ایسی صورتحال میں گاڑی والے کا قول معتبر ہو گا، اور عرف کے مطابق جتنا کرایہ ہو(اجرت مثل) وہ وصول کرے گا۔
حوالہ جات
المحيط البرهاني لمحمود النجاري - (ج 7 / ص 705)
"وأما بيان شرائطها فنقول يجب أن تكون الأجرة معلومة، والعمل إن وردت الإجارة على العمل، والمنفعة إن وردت الإجارة على المنفعة، وهذا لأن الأجرة معقود به والعمل أو المنفعة معقود عليه، وإعلام المعقود به وإعلام المعقود عليه شرط تحرزاً عن المنازعة كما في باب البيع"
رد المحتار - (ج 24 / ص 256)
"ونقل في المنح أن شمس الأئمة الحلواني قال تطيب الأجرة في الأجرة الفاسدة إذا كان أجر المثل"