ایک شخص اپنی زوجہ کو چچا کے گھر لے گئے، وہاں کسی وجہ سے لڑائی ہو ئی توشوہر نے اپنی زوجہ کو کہا کہ’’ اگر آئندہ تم یہاں آ گئی تو تمہیں طلاق ہو‘‘۔ اس ماجرا کوبارہ سال ہو گئے ہیں، اس کی بیوی اب تک اس گھر نہیں گئی ہے حالانکہ اس گھر میں اس کی بہن کی شادی بھی ہوئی ہے۔اب شوہر بھی پشیمان ہے تواگر یہ خاتون وہاں جائے تو طلاق ہو جائے گی یا نہیں یا کوئی اور طریقہ ہے جس سے یہ خاتون وہاں جاسکے۔ براہ کرم جواب عنایت فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اس شخص کا اپنی زوجہ کو یہ کہنا کہ "اگر تم یہاں آگئی تو تمہیں طلاق ہو" یہ قسم ہے،لہذا جب یہ خاتون اس گھر میں جائے گی تو شوہر حانث ہو گا اور بیوی کو ایک طلاق رجعی واقع ہو گی۔جس کے بعد شوہر کو عدت کے اندر بغیر تجدید ِنکاح کے رجوع کا حق حاصل ہوتاہے،اور عدت گزرنے کے بعد دوبارہ نکاح اور مہر طے کرنا ضروری ہوگا۔آئندہ شوہر کو صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔
حوالہ جات
الدر المختار للحصفكي - (ج 3 / ص 374)
"باب التعليق (هو) لغة من علقه تعليقا....واصطلاحا (ربط حصول مضمون جملة بحصول مضمون جملة أخرى) ويسمى يمينا مجازا، وشرط صحته كون الشرط معدوما على خطر الوجود"
الجامع الصغير وشرحه النافع الكبير لأبو عبدالله الشيباني - (ج 1 / ص 200)
"باب الايمان في الطلاق اعلم ان تعليق الطلاق ونحوه يمين خلافا لداؤد الاصفهاني وهذا لورود الشرع والعرف به قال ( عليه الصلاة والسلام ) من حلف بالطلاق ويقال حلف فلان بالطلاق كما يقال حلف بالله وانما سمي التعليق يمينا لأنه يتقوى به وجود الفعل"
الدر المختار للحصفكي - (ج 3 / ص 377)
(شرط الملك)حقيقة كقوله لقنه: إن فعلت كذا فأنت حر أو حكما، ولو حكما (كقوله لمنكوحته) أو معتدته (إن ذهبت فأنت طالق، أو الاضافة إليه) أي الملك الحقيقي