65128 | رضاعت کے مسائل | متفرّق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
اگرانسانی دودھ کو خالص شکل میں یا اس کے اندر دیگر اجزاء شامل کرکے جامد شکل میں لاکر سفوف یا پاؤڈر وغیرہ تیار کرلیا جائے تو اس کے کھانے سے حرمتِ رضاعت کاکیا حکم ہوگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
پاوڈر ہی کھانے سے تو حرمت ِرضاعت ثابت نہیں ہوگی ،البتہ جب اس میں پانی ملاکردوبارہ دودھ بناکرپلایاجائےتواس میں یہ تفصیل ہے کہ اگرپاوڈرخالص انسانی دودھ کا بنایاہو اوراس میں کوئی اور چیز نہ ڈالی گئی ہو تواس کےپانی میں ملاکرپلانے سےحرمت ِرضاعت ثابت ہوگی بشرطیکہ دودھ پانی پر غالب ہو یا اس کے برابرہو،کیونکہ نشونما اس سے بھی ہوتاہے جس سے جزئیۃ کا شبہہ پیداہوجاتاہے جو حرمتِ رضاعت کااصل سبب ہے،اوراگردودھ کی مقدار مغلوب ہو تو رضاعت ثابت نہیں ہوگی،اوراگر پاؤڈربنانے کےلیے کوئی اورچیزدودھ میں ملائی گئی ہو تواس میں یہ تفصیل ہےکہ اگر اس مکسچرکوپکاکرپاؤڈر بنایا گیا ہو تو اس سے توبالاتفاق حرمت ثابت نہیں ہوگی اوراگر پکائے بغیر اس کا پاوڈر بنایاگیاہوتوپھر امام صاحب کے راجح قول کے مطابق تب بھی اس سے حرمت ثابت نہیں ہوگی چاہے غالب پانی ہو پاوڈر،جبکہ صاحبین کے ہاں اگر پاؤڈر غالب ہویا پانی کے برابرہوتوحرمت ثابت ہوجائے گی،احتیاط صاحبین کے قول میں ہے۔
حوالہ جات
ولو جعل اللبن محیصاً أو رائباً أو شیرازاً أو جبناً أو أقطاً أو مصلاً فتناولہ الصبي لا یثبت التحریم؛ لأن اسم الرضاع لا یقع علیہ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۴۵۲ زکریا)الأول أن یکون مائعاً بحیث یصح أن یقال فیہ: إن الصبي قد رضعہ أما إذا عمل جبناً أو قشدۃ أو رائباً أو نحو ذٰلک وتناولہ الصبي فإنہ لا یتعلق بہ التحریم لأن إسم الرضاع لا یقع علیہ في ہٰذہ الحالۃ فلا یقال إن الصبي رضع ہٰذا اللبن وإنما یقال لہ أکلہ۔ (الفقہ علی المذاہب الأربعۃ مکمل ۹۱۹، البحر الرائق ۳؍۲۲۸ کوئٹہ، شامي ۴؍۳۰۳ بیروت، ۴؍۴۱۳ زکریا)
وفی الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 219)
ولنا أن السبب هو شبهة الجزئية وذلك في اللبن لمعنى الإنشاز والإنبات وهو قائم باللبن.
الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 219)
فأما المحرم في الرضاع فمعنى النشوء ولا يوجد ذلك في الاحتقان لأن المغذى وصوله من الأعلى.
الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 218)
" وإذا اختلط اللبن بالماء واللبن هو الغالب تعلق به التحريم وإن غلب الماء لم يتعلق به التحريم " خلافا للشافعي رحمه الله هو يقول إنه موجود فيه حقيقة ونحن نقول المغلوب غير موجود حكما حتى لا يظهر في مقابلة الغالب كما في اليمين " وإن اختلط بالطعام لم يتعلق به التحريم " وإن كان اللبن غالبا عند أبي حنيفة رحمه الله وقالا إذا كان اللبن غالبا يتعلق به التحريم قال رضي الله عنه قولهما فيما إذا لم تمسه النار حتى لو طبخ بها لا يتعلق به التحريم في قولهم جميعا لهما أن العبرة للغالب كما في الماء إذا لم يغيره شيء عن حاله ولأبي حنيفة رحمه الله أن الطعام أصل واللبن تابع له في حق المقصود فصار كالمغلوب ولا معتبر بتقاطر اللبن من الطعام عنده هو الصحيح لأن التغذي بالطعام إذ هو الأصل " وإن اختلط بالدواء واللبن غالب تعلق به التحريم " لأن اللبن يبقى مقصودا فيه إذ الدواء لتقويته على الوصول " وإذا اختلط اللبن بلبن الشاة وهو الغالب تعلق به التحريم وإن غلب لبن الشاة لم يتعلق به التحريم " اعتبارا للغالب كما في الماء "
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
26/4/1440ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |