021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بعض اولاد کو نوازنا (اولادکے ہبہ میں تفاضل)
62090;تقسیم جائیداد کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

سوال:زید کےچار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں سب کی شادیاں ہو چکی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے زید کو کسی عدالتی معاملے میں رقم کی اشد ضرورت تھی تو اس نے اپنے تمام بیٹوں سے مدد کی درخواست کی تین بیٹوں نے مدد کی اور ایک نے یہ کہا کہ میں آپکا بیٹا نہیں اور نہ ہی میں آپکی مدد کروں گا ،تو زید نے اس سے کہا چلو ٹھیک ہے پھر تیرا جائیدا میں بھی کوئی حصہ نہیں۔ اس معاملے کے ختم ہونے کے بعد زید نے اپنی جائیدا کا کچھ حصہ ان تین بیٹوں میں تقسیم کیا جنہوں نے مدد کی تھی، اس کےکچھ سال بعد اب ان تینوں میں سے ایک کا انتقال ہو چکا ہے اورمرحوم کا ایک بیٹا ہے ۔اس وقت زید کی عمر ۸۰ سال ہے اس کی بیوی بھی اس کے ساتھ ہے ۔بیٹوں کا سلوک اس کے ساتھ اچھا نہیں تمام ضروریات خود پوری کرنی پڑتی ہیں ۔اب اس بیٹے کا مطالبہ ہے کہ مجھے بھی باقی بھائیوں کی طرح جائیدادمیں حصہ دو اوراولاد کی طرف سے یہ مطالبہ بھی ہے کہ باقی جائیداد بھی ہمارے درمیان تقسیم کرو اور اس بھائی کو بھی دو جس کو پہلے نہیں دیا۔ زید جائیدادتقسیم کرنے کے لیے تیار نہیں اورنہ ہی اس چوتھے بیٹے کو کچھ دینے کو تیار ہے، واضح رہے کہ زیدکا یہ بیٹا تقریبا ۲۵ برس سے زید سے بالکل علیحدگی اختیار کر چکا ہےکسی قسم کی کوئی مدد نہیں کرتا اور اس وقت بھی زید بڑی دشوار زندگی گزار رہا ہے۔ شریعت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں کہ ١۔کیا زید کا ایک بیٹے کو جائیداد میں سے اس لیے حصہ نہ دینا کہ اس نے اس کی مدد نہیں کی جائز ہے؟ کہیں نا انصافی تو نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور مشکلات میں ان کی مدد کرنا اولاد پر فرض ہے۔ شرعاً انسان پر سب سے زیادہ حقوق اس کے والدین کے ہیں۔اس لیے فقہاء نے اس بات کو واضح طور پر بیان کیا ہے کہ اگر والد ضرورت مند ہو تو اولاد کے ذمے واجب ہے کہ اس کا مالی تعاون کریں چاہے والد کما بھی سکتا ہو۔ زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کا اصول یہ ہے کہ بیٹے اور بیٹیوں کو برابر برابر دے البتہ اگر کسی نیکی یا اچھائی کی وجہ سے والد بعض بچوں کو جائیداد میں سے کو ئی خاص حصہ دے تو اسے شرعاً یہ حق حاصل ہے، اس کی حیثیت ہبہ(تحفہ)کی ہو گی اور اسے والد کی طرف سے نا انصافی نہیں کہا جائے گا بلکہ یہ احسان کا بدلہ ہے۔البتہ مکمل طورپر اولاد میں سے کسی کو جائیداد سے عاق کرنا شرعاً معتبر نہیں۔
حوالہ جات
(تبيين الحقائق : 3/ 64) قال في التتارخانية ثم يفرض على الابن نفقة الأب إذا كان الأب محتاجا والابن موسرا سواء كان الأب قادرا على الكسب أو لم يكن، وذكر شمس الأئمة السرخسي في شرح أدب القاضي للخصاف أن الأب إذا كان كسوبا، والابن أيضا كسوبا يجبر الابن على الكسب ونفقة الأب، (الدر المختار للحصفكي: 8/ 599) وفي الخانية: لا بأس بتفضيل بعض الاولاد في المحبة لانها عمل القلب، وكذا في العطايا إذا لم يقصد به الاضرار، وإن قصده يسوي بينهم، يعطي البنت كالابن عند الثاني، وعليه الفتوى.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب