021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
آرڈر پرفروخت کرنے کا حکم
61471خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں: ایک شخص نمک کا کام کرتا ہے، طریقہ یہ ہے کہ وہ مارکیٹ سے آرڈر لیتا ہے مختلف دکانوں سے جس کو جتنا مال چاہیے وہ لکھ لیتا ہے۔ پھر وہ مطلوبہ مقدار میں نمک کا ٹرک منگوا کر ان سب کو مال بھجوا دیتا ہےاور پیسے بعد میں وصول کرتا ہے۔ کیا اس طرح کاروبار کرنا درست ہے؟ نیز اگر وہ پیسے پہلے وصول کر لے مال اگلے دن دینے کے وعدے پر، اور بعد میں مطلوبہ مقدار کا نمک منگوا کر انہیں دیتا رہے، تو کیا ایسا کرنا بھی درست ہوگا؟ تنقیح: مستفتی سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ بائع اپنا ذاتی ٹرک کمپنی بھیجواتا ہے اور وہاں رسید دکھا کر ٹرک لوڈ کرواتا ہے۔ پھر ٹرک ڈرائیور پہلے سارے مشتریوں کو ان کا حصہ پھنچاتا ہےاور باقی بائع آگے بیچنے کے لیے اپنے اسٹور میں رکھ لیتا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مذکورہ میں بازار کی مختلف دکانوں سے آرڈر لینا شرعًا ایک وعدہ کی حیثیت رکھتا ہے، پھر مطلوبہ مقدار کا نمک منگواکر اسے دکانوں میں سپرد کر دینا، یہ عقد بیع ہے۔ پیسے خواہ اسی وقت، بعد میں یا پہلے سے وصول کرلے، تینوں صورتوں میں یہ بیع درست ہوگی۔ پہلی دو صورتوں میں یہ بیع تعاطی (ایک نقدًا اور دوسری مؤجلاً) اور تیسری صورت یہ بیع الاستجرار کہلاتی ہے۔ البتہ تیسری صورت (یعنی پیسے پہلے وصول کرنے) میں دو احتمال ہیں۔ یہ پیسے بطور امانت وصول کرے یا بطور قرض، اور نمک دیتے وقت انہی پیسوں میں سے تبادلہ کر لے۔ امانت کی صورت بلا اختلاف جائز ہے، لیکن ان پیسوں میں تصرف کی اجازت نہیں ہوگی۔ قرض کی صورت میں تصرف کی اجازت ہے اور لوگوں کی ضرورت صحیحہ کی وجہ سے اس طرح کرنے کی بھی گنجائش ہے۔
حوالہ جات
قال العلامة ابن عابدین: " وفي جامع الفصولين أيضا: لو ذكرا البيع بلا شرط ثم ذكرا الشرط على وجه العقد جاز البيع ولزم الوفاء بالوعد، إذ المواعيد قد تكون لازمة فيجعل لازما لحاجة الناس، تبايعا بلا ذكر شرط الوفاء ثم شرطاه يكون بيع الوفاء؛ إذ الشرط اللاحق يلتحق بأصل العقد عند أبي حنيفة ثم رمز أنه يلتحق عنده لا عندهما، وأن الصحيح أنه لا يشترط لالتحاقه مجلس العقد. اهـ وبه أفتى في الخيرية وقال: فقد صرح علماؤنا بأنهما لو ذكرا البيع بلا شرط ثم ذكرا الشرط على وجه العدة جاز البيع ولزم الوفاء بالوعد." قال العلامة ابن عابدین: "قولہ: التعاطی من أحد الجانبین، صورتہ ان يتفقا على الثمن ثم يأخذ المشتري المتاع، ويذهب برضا صاحبه من غير دفع الثمن، أو يدفع المشتري الثمن للبائع ثم يذهب من غير تسليم المبيع، فإن البيع لازم على الصحيح، حتى لو امتنع أحدهما بعده أجبره القاضي وهذا فيما ثمنه غير معلوم أما الخبز واللحم، فلا يحتاج فيه إلى بيان الثمن." قال العلامة ابن عابدین: "قال: في الولوالجية: دفع دراهم إلى خباز فقال: اشتريت منك مائة من من خبز، وجعل يأخذ كل يوم خمسة أمناء فالبيع فاسد وما أكل فهو مكروه؛ لأنه اشترى خبزا غير مشار إليه، فكان المبيع مجهولا ولو أعطاه الدراهم، وجعل يأخذ منه كل يوم خمسة أمنان ولم يقل في الابتداء اشتريت منك يجوز وهذا حلال وإن كان نيته وقت الدفع الشراء؛ لأنه بمجرد النية لا ينعقد البيع، وإنما ينعقد البيع الآن بالتعاطي والآن المبيع معلوم فينعقد البيع صحيحا."
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / فیصل احمد صاحب