021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سادات کو زکوۃ نہ دینے سے متعلق فتوی پر بعض اشکالات کے جوابات
66074زکوة کابیانمستحقین زکوة کا بیان

سوال

محترم مفتی صاحب ! بنو ہاشم کے زکوٰۃ سے متعلق استفتاء میں آپ حضرات کے جواب کے حوالہ سے دو باتوں سے اطمینان حاصل کرنا چاہتا ہوں ، امید ہے کہ آپ حضرات غور کرکے بندہ کو مطمئن کریں گے۔

پہلی بات  یہ کہ آپ حضرات کے بقول ابو عصمہ ؒ محدثین کے نزدیک انتہائی ضعیف راوی ہے جس کی بنا پر اس کی مذکورہ فقہی روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ ابوعصمہ کے بارے میں عرض یہ ہے کہ اگرچہ حضرات محدثین نے ان پر  بہت جرح کی ہے (جیسا کہ بندہ نے پہلے لکھا ہے ) لیکن محدثین کی ایک جماعت نے اس کی تعدیل بھی کی ہے ۔ بلکہ علامہ عبد الفتاح ابو غدہؒ نے ایک بہترین تحقیق میں اس جرح کو کئی وجوہ سے قطعاً غلط قرار دیا اور اس کی توثیق کی ہے(جس کو اس خط کے ساتھ لف کیا جاتا ہے ) ۔ اس کے علاوہ اس روایت کے چند مؤیدات بھی ہے ۔

۱:        ابو عصمہ امام صاحب کا براہِ راست شاگرد ہے اور امام صاحب نے اپنے شاگردوں پر اعتماد کا اظہار بھی کیا ہے جیسا کہ مناقب ابن بزازی میں ہے ۔

۲:        ابو عصمہ اس روایت میں منفرد بھی نہیں (جیسا کہ تحریر میں ہے) ۔

۳:        فقہائے کرام اور محدثین کی ایک جماعت نے بغیر کسی جرح کے اس کے قول کو نقل کیا ہے ۔

۴:        امام صاحب سے مطلقاً جواز کے قول کا منقول ہونا ابوعصمہ کے قول کی ندرت کو ختم کرتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہاں تک تو اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ خمس الخمس جن سے بنو ہاشم کے فقراء کی ضروریات پوری ہوتی تھیں اور آپ حضرات کے بقول زکوٰۃ کا عوض ہے وہ نہ ہونے کی صورت میں بنو ہاشم کے فقراء کی حاجت و ضرورت کا پیش ہونا اور اسی کو پورا کرنا ضروری ہے اس لیے ہم کہتے ہیں کہ حکومت دوسرے عطیات و صدقات نافلہ سے ان کی ضروریات پورا کرے ، اگر حکومت کوئی ایسا اقدام نہ کرے تو صاحب ثروت لوگوں کو چاہیے کہ ان کی خبر گیری کا کوئی مستقل نظام قائم کریں ۔ جب حکمران اور صاحب ثروت لوگ کوئی نظم نہ بنائیں تو پھر یہاں سے دو طرح کااختلاف رائے پیدا ہوتا ہے ۔

ایک یہ کہ اس صورت میں آپ حضرات کے بقول سادات کی ضرورت اس طرح پوری کی جائے کہ ان کو زکوٰۃ و صدقات کی رقم کی تملیک کرواکے بطورِ عطیہ دیا جائے ۔ بندہ کی رائے میں بغیر تملیک کے دینا درست ہے ۔

دوسری یہ کہ آپ حضرات کے بقول تملیک کی صورت نہ بننے پر بقدرِ ضرورت اس وقت دینا جائز ہے جبکہ ہاشمی کو سوال کے بغیر کوئی چارہ نہ ہوجبکہ بندہ کی رائے میں بغیر تملیک کے جس حال میں ایک عام آدمی کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ہاشمی کو دینے کے لیے یہی حالت کافی ہے نہ یہ کہ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہا جائے کہ سوال کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔

تو اس کے بارے میں عرض یہ ہےکہ شریعت میں ایسے نظائر موجود ہیں کہ جب وہاں زکوٰۃ کو بوجہ حاجت و ضرورت جائز قرار دیا جائے تو بغیر تملیک کے اور سوال تک نوبت آنے سے پہلے ہی جائز قرار دیا جاتا ہے ۔ مثلاً ابن السبیل کو لیجیے کہ وہ اگرچہ فی نفسہٖ صاحب ثروت ہو، لیکن اگرحالت سفر میں محتاج ہوجائے تو محنت پر قدرت رکھنے یا قرض لینے پر قدرت کے باوجود زکوٰۃ لے سکتا ہے پھر اگر سفر پورا ہونے کے بعد زکوٰۃ کی کچھ رقم بچ رہی تو باقی ماندہ رقم کو صدقہ کرنا ضروری نہیں ، بلکہ فقہائے کرام نے ان لوگوں کو بھی مسافر ہی کے حکم میں رکھا ہے جو اپنے ہی وطن میں موجود ہوں لیکن ان کے مال تک رسائی نہ ہو  ۔

تو یہاں نہ تو تملیک کو ضروری قرار دیا گیا اور نہ ہی اس مجبوری کی حد تک پہنچنے کو لازم قرار دیا گیا ہے کہ سوال کے بغیر چارہ نہ رہے ، پھر یہ کہ تملیک کے بعد تو کسی کو بھی زکوٰۃ کی رقم دینا جائز ہے خواہ اس کی ضرورت اس حد تک پہنچ گئی ہو یا نہ ہو بلکہ اقارب کو بھی دینا جائز ہے لیکن بات یہ ہے کہ عوام سے صحیح معنوں میں اس حالت (کہ سوال کے بغیر چارہ نہ رہے ) کا ادراک اور شرعی طور پر تملیک کا سر انجام ہونا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے ۔ اس طرح فقط بنو ہاشم کو اس حد تک تکلیف دینا (کہ سوال کے بغیر چارہ کار نہ ہو) مناسب معلوم نہیں ہوتا اور شاید نہ ہی وہ اس حد تک کنٹرول کرسکیں ۔ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ شاید عوام اس طرح کے حیلوں کو سمجھ کر زکوٰۃ غیر مستحقین میں تقسیم کرنا شروع کردیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ تحریر میں سائل نے سابقہ فتوی(64461) پر دو اشکالات کیے  ہیں، جن کے جوابات درج ذیل ہیں:

اشکال نمبر۱: ابو عصمہ راوی کی روایت کو قبول کرنے کے بارے میں پانچ مؤیدات ہیں، جن کی بنیاد پر ابوعصمہ  کی روایت کو قبول کرنا چاہیے۔

جواب: سوال میں ذکرکردہ مؤیّدات کی بنیاد پر بھی ابو عصمہ کی روایت کو قبول نہیں کیا جا سکتا، جس کی تفصیل یہ ہے:  

۱۔پہلا مؤید: ابوعصمہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے براہ راست شاگرد ہیں اور ان پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ  ابو عصمہ کے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا براہ راست شاگرد ہونے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ان پر اعتماد کا اظہار کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کی امام صاحب رحمہ اللہ سے منقول ہر روایت یقین کی حد تک درست ہو، یہاں تک کہ اس کو اجماع کے خلاف بھی قبول کیا جا سکے، خصوصاً جبکہ امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ سے منقول فقہی اقوال کو مرتب کرنے والے اور عرصہ دراز تک  شرفِ تلمذ پانے والے  حضرت امام محمد رحمہ اللہ کی ظاہر الروایہ میں یہ قول منقول نہیں۔

۲۔ دوسرا مؤید: امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ابو عصمہ کے علاوہ دیگر بعض حضرات نے بھی خمس نہ ہونے کی صورت میں جواز کی روایت نقل کی ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے مروی دیگر روایات مستند حوالوں سے ثابت نہیں، جس کی تفصیل یہ ہے:

پہلی روایت  علامہ یوسف قرضاوی رحمہ اللہ کی کتاب فقہ الزکاۃ میں مجمع الانہر کے حوالہ سے نقل کی گئی ہے، مجمع الانہر میں یہ روایت موجود ہے، لیکن صاحب مجمع الانہر عبد الرحمن بن محمد بن سليمان  گیارہویں صدی ہجری  (المتوفى: 1078ھ)کے فقیہ ہیں۔ مجمع الانہر کے علاوہ الآثاراور کسی دیگر مستند کتاب  میں یہ روایت کہیں نہیں ملی۔

دوسری روایت امام محمد رحمہ اللہ سے  البحرا الرائق کے حوالہ سے نقل کی ہے، یہ روایت بھی البحر الرائق سے پہلے کسی فقیہ کی  کتاب میں نہیں ملی اور علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ  دسویں صدی ہجری (المتوفى: 970ھ) کے فقیہ ہیں، لہذا دونوں روایات مرجوح ہیں، کیونکہ متقدمین اور متاخرین میں سے جمہور فقہائے کرام رحمہم اللہ کا ان روایات کو ذکر نہ کرنا ان کے مرجوح ہونے کی دلیل ہے۔

تیسری روایت فقہ الزکوۃ اور طحاوی شریف کے حوالے سےنقل کی گئی ہےاور امام طحاوی نے  اپنی کتاب شرح معانی الآثار میں اس موضوع پر مختلف روایات اور اقوال  جمع کیے ہیں، ان کے اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک قول راجح يہ ہے کہ کسی بھی صورت (خمس دیا جائے یا نہ) میں سادات کو زکوۃ دینا جائز نہیں، چنانچہ انہوں نے تحریمِ صدقہ کی روایات کے متواتر ہونے کی تصریح کی ہے اور اسی کو ہمارے ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کا قول قرار دیا ہے:

شرح معاني الآثار للطحاوی(2/6):

ثم قد جاءت بعد هذه الآثار عن رسول الله صلى الله عليه وسلم متواترة بتحريم الصدقة على بني هاشم۔

شرح معاني الآثار للطحاوی (2/ 10):

قال أبو جعفر: فهذه الآثار كلها قد جاءت بتحريم الصدقة على بني هاشم , ولا نعلم شيئا نسخها ولا عارضها إلا ما قد ذكرناه في هذا الباب , مما ليس فيه دليل على مخالفتها ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فلما حرم على بني هاشم أخذ الصدقات المفروضات , حرم عليهم أخذ الصدقات غير المفروضات. فهذا هو النظر في هذا الباب , وهو قول أبي حنيفة , وأبي يوسف, ومحمد رحمهم الله تعالى۔

اسی لیے امام طحاوی رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ سے نقل کی گئی  جواز کی روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص مجھ سے  یہ کہے کہ کیا آپ بنو ہاشم کے غلاموں کے لیے صدقات کو مکروہ (تحریمی) قرار دیتے ہیں ؟تو میں کہوں گا جی ہاں۔ پھر دلیل میں حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ذکر فرمایا، جس میں آپ ﷺ نے ’’مولى القوم من أنفسهم‘‘  کے الفاظ ارشاد فرمائے تھے۔اس كے بعد فرمایا: ’’وما علمت أحدا من أصحابنا خالفه في ذلك.‘‘ یعنی میں نے اس مسئلہ میں اپنے مشائخ میں سے کسی کا اختلاف نہیں پایا، اس سے معلوم ہوا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ  کے نزدیک جب بنوہاشم کے مولی (غلام) کے بارے میں ائمہ احناف رحمہم اللہ سے زکوۃ کے جواز کی کوئی روایت منقول نہیں اور بنو ہاشم کے بارے میں جو روایت انہوں نے نقل کی ہے وہ بھی ان کے نزدیک ناقابلِ اعتبار اور مرجوح ہے۔ لہذا امام طحاوی رحمہ اللہ کی نقل کردہ روایت سے استدلال درست نہیں، عبارت ملاحظہ فرمائیں:

شرح معاني الآثار (2/ 11):

وذهب في ذلك عندنا إلى أن الصدقات إنما كانت حرمت عليهم من أجل ما جعل لهم في الخمس من سهم ذوي القربى. فلما انقطع ذلك عنهم ورجع إلى غيرهم , بموت رسول الله صلى الله عليه وسلم، حل لهم بذلك ما قد كان محرما عليهم من أجل ما قد كان أحل لهم.

وقد حدثني سليمان بن شعيب , عن أبيه , عن محمد، عن أبي يوسف , عن أبي حنيفة رحمهم الله في ذلك , مثل قول أبي يوسف رحمه الله , فبهذا نأخذ. فإن قال قائل: أفتكرهها على مواليهم؟ قلت: نعم , لحديث أبي رافع الذي قد ذكرناه في هذا الباب , وقد قال ذلك أبو يوسف رحمه الله في كتاب الإملاء , وما علمت أحدا من أصحابنا خالفه في ذلك.

۳۔ تیسرا مؤید یہ ہے کہ فقہائے کرام اور محدثین کرام رحمہم اللہ کی ایک جماعت نے ابو عصمہ کے قول کو بغیر جرح کے نقل کیا ہے۔

اس کا جواب یہ  ہے کہ اگر آپ کی ’’ابو عصمہ کے قول‘‘ سے مراد جواز کی روایت ہے تو اس کے بارے میں عرض یہ ہے کہ متقدمین فقہاء اور محدثین کرام رحمہم اللہ کی کتب (سوائے شرح معانی الآثار کے، جس کا جواب پیچھے گزر چکا)  میں ابو عصمہ کی مذکورہ روایت ہمیں نہیں ملی، اگر متقدمین فقہائے کرام رحمہم اللہ کی مستند کتب میں یہ روایت مل جائے تو اس پر دوبارہ غور کیا جا سکتا ہے، لہذا اگر آپ کے پاس اس کا حوالہ موجود ہو تو ہمیں بھیج دیجیے۔

اوراگر اس سے آپ کی مراد ابو عصمہ کی تعدیل ہے تو اس کا جواب انشاء اللہ تعالی پانچویں مؤید کے تحت آ جائے گا۔

۴۔ چوتھا مؤید یہ کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے مطلقاً جواز کا قول ابو عصمہ کی روایت کی ندرت کو ختم کرتا ہے۔

 اس کا جواب مؤیدنمبر۲ کے تحت  گزر چکا ہے، وہ یہ کہ ایسی روایات متقدمین فقہائے کرام رحمہم اللہ کی کتب جیسے ظاہر الراوایہ، المبسوط اور متون میں موجود نہیں، بلکہ اس کے خلاف کی روایات موجود ہیں۔

 ۵۔پانچواں مؤید یہ کہ منسلکہ تحریر میں علامہ عبدالفتاح ابو غدہ صاحب رحمہ اللہ نے اپنی ایک بہترین تحقیق میں  ابو عصمہ پر کی گئی جرح  کو کئی وجوہ سے غلط قرار دیا ہے۔

اس کے بارے میں عرض یہ ہےکہ منسلکہ تحریر (جو علامہ عبد الحي لکھنوی رحمہ اللہ کی کتاب ’’ظفر الامانی بشرح مختصر السید شریف الجرجانی‘‘ کی تعلیقات سے لی گئی ہے)میں علامہ عبد الفتاح  ابو غدہ صاحب رحمہ اللہ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ فضائلِ سور سے متعلق علامہ عبد الحي لکھنوی رحمہ اللہ نے جس روایت کو ابو عصمہ کی بنیاد پر موضوع قرار دیا  ہے اس روایت کو ابو عصمہ کی وجہ سے موضوع کہنا درست نہیں، اس پر انہوں نے کئی دلائل دیئے ہیں، نیزاس میں  انهوں نے  ابو عصمہ کے واضع ہونے کی بھی  نفی کی ہے۔

  لیکن جہاں تک ابو عصمہ راوی  پر کی گئی جرح کا تعلق ہے تو  اسی تحریر میں علامہ ابو غدہ صاحب رحمہ اللہ نے  از خود  ابو عصمہ کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل رحمہم اللہ کے ایسے اقوال نقل کیے ہیں جن سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ابو عصمہ کی روایت اصول ِحدیث کی روشنی میں  احکام کے بارے میں قبول نہیں کی جا سکتی، چنانچہ مذکورہ تحریر میں چند عبارات ملاحظہ فرمائیں: 

  1.  علامہ ابو غدہ صاحب رحمہ اللہ نے پہلی وجہ کے بیان میں صفحہ نمبر1 (کتاب کا صفحہ نمبر:573) پر عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا اپنے کے والد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ قول نقل کیا ہے "ابو عصمۃ یروی احادیث  مناکیر" یعنی ابو عصمہ منکر احادیث بیان کرتے ہیں۔

  2. صفحہ نمبر2 (کتاب کا صفحہ نمبر:574) پر امام وکیع  رحمہ اللہ کے حوالہ سے نقل کیا  ہے کہ ان  سے ابو عصمہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے سوال کرنے والے سے  فرمایا: تو اس سے کیسے روایت لے گا؟  جبکہ امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے ابو عصمہ سے روایت نہیں لی،  اس سے امام وکیع رحمہ اللہ کا ابو عصمہ کے ضعف کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا۔ دیکھیے عبارت: 

قال عباس: روی عنہ شعبۃ، قیل لوکیع: ابو عصمۃ؟ فقال: "ما تصنع بہ، ولم یرو عنہ ابن المبارک" کما فی الکامل لابن عدی۔

  1. اسی صفحہ نمبر 2 پر  امام ابن عدی کے حوالہ سے ابو عصمہ کے بارے میں نقل کیا ہے: "وھو مع ضعفہ یکتب حدیثہ" یعنی ابو عصمہ کے ضعف کے باوجود اس کی  حدیث لکھی جائے گی۔

مذکورہ بالا الفاظ ائمہ جرح وتعدیل کے نزدیک چھٹے درجے کی جرح  شمار ہوتی ہے اور ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس راوی کی حدیث صرف توابع، شواہد اور فضائل کے باب میں قبول کی جائے گی، احکام کے باب میں قبول نہیں ہو گی، جیسا کہ حافظ ابن حجر، علامہ سیوطی اور علامہ سخاوی رحمہم اللہ نے تصریح فرمائی ہے:

فتح المغيث لعبد الرحمن السخاوی:(ج:1،ص:213):

ألفاظ التجريح ۔۔۔۔۔ والحكم في المراتب الأربعة الأولى أنه لا يحتج بواحد من أهلها ولا يستشهد به، ولا يعتبر به (وكل من ذكرمن بعد) لفظ "لا يساوی شيئا" وهو ما عدا الأربع (بحديثه اعتبر) أي يخرج حديثه للاعتبار۔

  1. مذکورہ تحریر کےصفحہ نمبر5(کتاب کا صفحہ نمبر:577) پرامام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے ابو عصمہ کے بارے میں امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا  یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ ابو عصمہ احادیث گھڑا کرتا تھا۔ علامہ عبدالفتاح ابو غدہ صاحب رحمہ اللہ نے  اس کا صرف یہ جواب دیا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی کوئی سند ذکر نہیں فرمائی، حالانکہ امام بخاری رحمہ اللہ خود بہت بڑے متقی اور محتاط آدمی ہیں، جن کی ثقاہت مسلّم ہے۔ نیز حضرت عبدالفتاح ابو غدہ صاحب رحمہ اللہ كے اس فرمان کہ ’’علامہ مزی اور علامہ ذہبی رحمہما اللہ نے اس کو قول کو نقل نہیں کیا‘‘ میں تسامح ہے، کیونکہ تہذیب الکمال للمزی اور میزان الاعتدال للذہبی کے مطبوعہ نسخوں میں شیخ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا مذکورہ قول منقول ہے، عبارات ملاحظہ فرمائیں:

تهذيب الكمال في أسماء الرجال للمزی  (30/ 59) مؤسسة الرسالة ،بيروت:

وقَال البُخارِيُّ : قال ابن المبارك لوكيع: حَدَّثَنَا شيخ يقال له: أَبُو عصمة كان   يضع كما يضع المعلى بن هلال.

ميزان الاعتدال للحافظ الذهبی (4/ 152) دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت:

وقال البخاري: قال ابن المبارك لوكيع: عندنا شيخ يقال له أبو عصمة نوح بن أبي مريم يضع كما يضع معلى.

یہ بھی واضح رہے کہ امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کی وفات ایک سو اکیاسی ہجری (۱۸۱ھ)میں ہوئی اور امام بخاری رحمہ اللہ کی ولادت ایک سو چورانے ہجری (۱۹۴ھ)میں ہوئی، اس لیے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری اور امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ  کے درمیان صرف ایک واسطہ ساقط ہے اور ایسی صورت میں اگر راوی خود ثقہ اور تدلیس نہ کرتا ہو تو اس کی روایت قبول ہوتی ہے، جب ایسے راوی کی منقطع روایت مقبول ہے تو  اس کی طرف  سے نقل کی گئی جرح بدرجہ اولی قبول ہو گی، لہذا  جرح کی صرف سند (جس میں بظاہر ایک واسطہ ساقط ہے) مذکور نہ ہونے کی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ کے قول کو رد کرنا محل نظر ہے، خصوصاً جبکہ اقوالِ جرح وتعدیل کو نقل کرنے والے امام جمال الدین مزی، علامہ ذہبی اور حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ نے بھی امام عبد الله بن مبارك رحمہ اللہ کے اس قول کو ذکر کیا  ہے۔

  1. مذکورہ تحریر کے صفحہ نمبر7 (کتاب کا صفحہ نمبر:579) پر حضرت ابو غدہ صاحب رحمہ اللہ نے فضائل سور سے متعلق بعض احادیث کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ان روایات کی سند ابو عصمہ تک صحیح ہے تو پھر ان احادیث میں نکارت زید العمّی اور علی بن زید بن جدعان کے سُوء حفظ یا  ابوعصمہ کی تدلیس یا  ابو عصمہ کے حدیث کے میدان میں صعف کی وجہ سے ہو سکتی ہے، دیکھیے عبارت:

نعم أورد الثعلبي كما نقله عنه الزيلعي من طريق أبي عصمة عن زيد العمّي عن أبي نضرة عن ابن عباس عن أبي بن كعب أربعة أحاديث، وأورد أيضا من طريق أبي عصمة عن علي بن زيد بن جدعان عن زر بن حبيش عن أبي بن كعب مرفوعا خمسة أحاديث في فضل بعض السوروبعض تلك الأحاديث التسعة له شاهد يعضده وأما ما عدا ذلك فإن صحت الطرق إلي أبي عصمة وثبت أنه رواھا، فالنكارة فيها إما من سوء حفظ زيد العمّي و علي بن زيد بن جدعان أو من تدليس أبي عصمة أو من جهة ضعفه في الحديث وهذه مواضع لتلك الأحاديث من تخريج الزيلعي المذكور لتسهل المراجعة إليها لمن شاء 45:1، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

مذکورہ بالا عبارت سے معلوم ہوا کہ حضرت عبد الفتاح ابو غدۃ صاحب رحمہ اللہ خود بھی ابو عصمہ کی تدلیس اور ان کے  ضعف فی الحدیث کے قائل ہیں، اگرچہ وہ ان کے  واضع ہونے کی نفی کرتے ہیں۔لیکن یہ دونوں چیزیں حضراتِ محدثین رحمہما اللہ کے نزدیک  علیحدہ علیحدہ حکم رکھتی ہیں، راوی پر وضع کی جرح کرنا سب سے سخت قسم کی جرح ہےاور جرح کے مراتب میں یہ سب سے پہلے نمبر کی جرح شمار ہوتی ہے،  ایسے راوی کی روایت فضائل اور تابع و شاہد کے طور پر بھی قبول نہیں کی جاتی۔ جبکہ راوی کا ضعیف ہونا پانچویں یا چھٹے درجے کی جرح ہے، ایسے راوی کی روایت ترغیبات، ترہیبات اور توابع وشواہد کے لیے قبول ہوتی ہے، لہذا علامہ عبد الفتاح ابو غدہ صاحب رحمہ اللہ کے وضع کی نفی سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی روایت احکام کے باب میں بھی قبول کی جائے گی، اسی لیے انہوں نے اپنی اس تحقیق میں احکام کے باب میں ابوعصمہ کی روایت کے قبول ہونے یا نہ ہونے سے متعلق کوئی تعرض نہیں فرمایا۔  البتہ ان کی تحقیق کے مطابق زیادہ سے زیادہ ابو عصمہ کی روایت فضائل کے باب میں قبول کی جا سکتی ہے۔

ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال کے درمیان موازنہ:

 اب ابو عصمہ نوح بن ابی مریم کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل  رحمہم اللہ  سےمنقول  اقوال کے درمیان موازنہ پیش کیا جاتا ہے، جس سے واضح طور پر معلوم ہو گا کہ ابو عصمہ کی روایت احکام کے باب میں قبول نہیں:

اقوالِ جرح:

جن ائمہ کرام رحمہم اللہ نے ابو عصمہ کو حدیث کے معاملے میں ضعیف اور متروک راوی قرار دیا ہے، ان میں امام بخاری، امام مسلم، امام ابن حبان، امام احمد بن حنبل، امام ابو عبد اللہ حاکم، امام ابن عدی، امام وکیع، امام یحی بن معین، امام ابو زرعہ، امام نسائی، امام ابو حاتم رازی، امام دارقطنی، امام ابو بشر دولابی، علامہ یوسف مزی، علامہ ذہبی اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ وغیرہ کے نام شامل ہیں، ان حضرات کے اقوال کی تفصیل یہ ہے:

التكميل في الجرح والتعديل ومعرفة الثقات والضعفاء والمجاهيل (1/ 414) ابوالفداء إسماعيل بن عمر بن كثير (المتوفى: 774هـ):

قال البخاري: قال ابن المبارك لوكيع: حَدَّثنا شيخٌ يقال له: أبو عصمة يضع كما يضع المعلى بن هلال.

وقال أحمد: كان أبو عصمة يروي أحاديث مناكير، لم يكن في الحديث بذاك، وكان شديداً على الجهمية والرد عليهم، تَعَلَّم منه نُعَيْم بن حَمَّاد.

وقال ابن معين: ليس بشيء، ولا يُكتب حديثه.

وقال الجُوزْجَانيُّ: سقط حديثه.

وقال أبو زرعة: ضعيف الحديث.

وقال أبو حاتم ومسلم وأبو بشر الدولابي والدارقطني: متروك.

وقال البخاري: منكر الحديث. وقال مَرَّةً: ذاهب الحديث جداً.

 وقال النسائي: ليس بثقة، ولا مأمون، لا يُكتبُ حديثه.

وذكر الحاكم أبو عبد الله: أنه وضع حديثاً في فضائل القرآن.

التاريخ الكبير للإمام لبخاري (8/ 111، رقم الترجمة: 2383) (المتوفى: 256هـ)

نُوح بْن أَبي مَريَم، أَبو عِصمَة، قا ضي مَرو ذاهِبُ الحديثِ جِدًّا.

تهذيب الكمال في أسماء الرجال (30/ 60) للعلامہ یوسف المزی (المتوفى: 742هـ):

وَقَال إِبْرَاهِيم بْن يعقوب الجوزجاني: أَبُو عصمة نوح بن أَبي مريم قاضي مرو يسقط حديثه.

وَقَال أَبُو زُرْعَة : ضعيف الْحَدِيث.

وَقَال أَبُو حاتم، ومسلم بن الحجاج ، وأَبُو بشر الدولابي  ، والدَّارَقُطنِيّ :متروك الحديث ۔

وقَال البُخارِيُّ: نوح بن يزيد بن جعونة يقال: إنه نوح بن أَبي مريم أَبُو عصمة المروزي قاضي مرو عَنْ مقاتل بن حيان منكر الحديث.

وَقَال في موضع آخر: نوح بن أَبي مريم ذاهب الحديث جدا.

وَقَال النَّسَائي: أَبُو عصمة نوح بن جعونة، وقيل: نوح بن يزيد بن جعونة، وهو نوح بن أَبي مريم قاضي مرو ليس بثقة، ولا مأمون، روى عنه المقرئ.

وَقَال في موضع آخر: ليس بثقة، ولا يكتب حديثه.

ميزان الاعتدال ( 4/ 279)للعلامۃ الناقد شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي (المتوفى: 748هـ):

وقال أحمد: لم يكن بذاك في الحديث.

وكان شديدا على الجهمية.

وقال مسلم وغيره: متروك الحديث.

وقال الحاكم: وضع أبو عصمة حديث فضائل القرآن الطويل.

وقال البخاري: منكر الحديث.

وقال ابن عدي: عامة ما أوردت له لا يتابع عليه، وهو مع ضعفه يكتب حديثه.

اقوالِ تعدیل:

ابو عصمہ نوح بن ابی مریم کو علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’تاریخ الاسلام‘‘ میں فقیہ اور بڑا عالم قرار دیا ہے، جبکہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے جرح وتعدیل پر لکھی گئی اپنی کتاب ’’میزان الاعتدال‘‘ میں اس کو ثقہ قرار نہیں دیا، بلکہ ائمہ کبار رحمہم اللہ کی طرف سے اس راوی پر کی گئی جرح کے بہت سے اقوال نقل کیے ہیں، جیسا کہ پیچھے عبارات گزر چکی ہیں، اس کے علاوہ ہمیں تلاش کے باوجود جرح وتعدیل کی مستند کتب میں ابو عصمہ کے بارے میں تعدیل وتوثیق کے اقوال کہیں نہیں ملے، علامہ عبد الفتاح ابو غدہ صاحب رحمہ اللہ نے منسلکہ تحریر میں ’’مناقب الامام الأعظم للموفق المکی‘‘ کے حوالہ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ ابو عصمہ اہلِ مرو کے امام تھے، لیکن ہمیں یہ کتاب نہیں مل سکی۔

تاريخ الإسلام للعلامۃ الناقد شمس الدين أبو عبد الله محمد الذهبي (11/ 218):

هو أبو عصمة نوح بن أبي مريم المروزي الفقيه، أحد الأعلام.

قولِ فیصل:

پیچھے ذکرکردہ اقوالِ جرح وتعدیل سے معلوم ہوا کہ كبار ائمہ کرام رحمہم اللہ نے ابو عصمہ کو ضعیف اور متروک الحدیث قرار دیا ہے اور ضعیف راوی کی روایت باتفاق المحدثین احکام کے باب اصالتاً قبول  کرنا جائز نہیں۔ اور مبحوث عنہا  (سادات کو زکوۃ  دینے کا)  مسئلہ احکام سے متعلق ہے اور انتہائی احتیاط کا مقتضی ہے، جس کے عدمِ جواز  پر صحیح اور صریح احادیث موجود ہیں اور مذاہب اربعہ کے جمہور فقہائے کرام رحمہم اللہ کا اس پر اتفاق ہے، لہذا  ہمارے نزدیک عام حالات میں ابوعصمہ کی روایت پر فتوی نہیں دیا جا سکتا۔

اشکال نمبر۲:

شریعت میں بعض ایسے نظائر بھی موجود ہیں کہ جہاں ضرورت وحاجت کی بنیاد پر زکوۃ کو جائز قرار دیا  گیا ہے اور وہاں بغیرتملیک کے سوال کی نوبت آنےسے پہلے زکوۃ لینےکی اجازت دی گئی، مثلا: ابن السبیل کو لیجیے،  وہ اگرچہ فی نفسہ صاحب ثروت ہو، مگر حالت سفر میں محتاج ہو جائے تو محنت پر قدرت رکھنے اور قرض لینے کی استطاعت کے باوجود اس کو زکوۃ لینے کی اجازت دی گئی۔پھر اگرسفر پورا ہونے کے بعد زکوۃ کی کچھ رقم اس کے پاس بچ جائے تو باقی ماندہ رقم کو صدقہ کرنا یا واپس کرنا ضروری نہیں۔

جواب:

مسافر کے بارے میں چونكہ نصِ قرآنی موجود ہے، جس میں ضرورت کے پیشںِ نظر مسافر کو مصارفِ زکوۃ میں شامل کیا گیا اور اس کو زکوۃ لینے کی اجازت دی گئی، لہذا جس حالت میں اس نے زکوۃ وصول کی تھی اس وقت وہ مستحق زکوۃ تھا اور زکوۃ لینے کے بعد چونکہ وہ زکوۃ کی رقم کا مالک بن چکا ہوتا ہے، اس لیے باقی ماندہ رقم کو صدقہ کرنا اس کے ذمہ لازم نہیں، جیسا کہ فقیر زکوۃ لینے کے بعد اگر غنی ہو جائے تو فقہائے کرام رحمہم اللہ نے نصاب سے زائد رقم کو صدقہ کرنا  واجب قرار نہیں ديا۔

جہاں تک ہاشمی کے مسئلہ کا تعلق ہے تو  اس کو مسافر پر قیاس کرنا درست نہیں، کیونکہ شریعت نے اس کو مصارف زکوۃ میں شامل نہیں کیا اور اس پر بہر صورت  زکوۃ کو حرام قرا دیا ہے،  لہذا ہاشمی دراصل  مستحق ِزکوۃ نہیں، اس لیے  اصولی طور پر ہاشمی اور سید کے لیے کسی بھی حالت میں زکوۃ لینا جائز نہیں،  ہم نے گزشتہ فتوی(64461) میں ضرورت کے وقت  (جب  سوال کی حد تک نوبت آجائے اورعطیہ اور تملیک وغیرہ کی کوئی صورت ممکن نہ ہو) نادر اقوال کے مطابق  سید اور ہاشمی کو بقدر ضرورت زکوۃ لینے کی اس لیے اجازت دی ہے تاکہ عالی نسب والے خاندان سے تعلق رکھنے والا شخص سوال کی ذلت سے بچ سکے۔

حوالہ جات
تاريخ الإسلام للعلامۃ الناقد شمس الدين أبو عبد الله محمد الذهبي (11/ 218):
هو أبو عصمة نوح بن أبي مريم المروزي الفقيه، أحد الأعلام.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

6/رجب المرجب 1440ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / شہبازعلی صاحب