021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیع کو فسخ کرنے کے بعد اضافی رقم لینا
61393خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کو ختم کرنے کے مسائل

سوال

آج سے تقریباً پانچ سال پہلے میں نے اپنے دفتری ساتھی (زید صاحب فرضی نام) کے ساتھ مل کر ان کے دوست (خالد پراپرٹی ڈیلر) کے توسط سے اسکے دوست (بکرفرضی نام)کی شروع کردہ رہائشی سکیم میں دو پلاٹ(پلاٹ نمبر 30 اور 31)بک کروائے۔30 نمبر پلاٹ میرے نام سے جبکہ 31 نمبر پلاٹ میرے دفتری دوست زید کے نام سے بک کروایا۔ ایک پلاٹ کی قیمت چار لاکھ روپے طے پائی کیکن فائل(تحریری معاہدہ) میں پلاٹ کی قیمت ساڑھے چار لاکھ روپے لکھی گئی۔کیونکہ بکر کے بقول ان کی کمپنی ساڑھے چار لاکھ روپے میں پلاٹ سیل کر رہی تھی تو اس سے کم قیمت اگر لکھی گئی تو دفتر کے لوگ اعتراض کریں گے۔پلاٹ کی قیمت مبلغ چار لاکھ روپے ہم نے کچھ ایڈوانس دینے کے بعد ماہانہ قسطوں میں ادا کرنی تھی جسکے دورانیہ کی کوئی قید نہ تھی۔اور چار لاکھ روپے کی مکمل ادائیگی کرنے کے بعد بکر نے ہمیں پلاٹ کی رجسٹری کروا دینی تھی۔ تقریباًتین سال تک باقاعدہ قسطوں کی ادائیگی ہوتی رہی جسکے مطابق میں نے مبلغ 292000،ادا کر دیےلیکن پھر کچھ ذاتی وجوہات کی وجہ سے میں نے قسط کی ادائیگی مؤخر کر دی اور بکر سے درخواست کی کہ میں کچھ مہینوں کے بعد دوبارہ قسط کی ادائیگی شروع کر دونگا جو کہ بکر نے منظور کر لی جبکہ زید صاحب باقاعدگی سے قسط ادا کرتے رہے۔پھر کچھ مہینوں بعد میں نے زید صاحب کو بتایا کہ میں بھی قسط کی ادائیگی شروع کر رہا ہواور مجھ سے بھی پیسے لے لیا کرےتو انہوں نے کہا کہ چند مہینوں سے بکر قسط کے پیسے وصول کرنے کے لیے نہیں آرہاہے۔رابطہ کرنے پر بکر نے بتایا کہ اس کا بیٹا بیمار ہے اور وہ مجھ سے پیسے پھر لے لے گا۔اس طرح نو مہینے گزر گئے لیکن بکر نے قسط کے پیسے لینے کے لیے زید صاحب کے پاس چکر نہیں لگایا۔اس دوران زید صاحب نے فون پر بکر سے گفتگوں کرتے ہوئے اندازہ لگایا کہ بکر کو کچھ مسائل درپیش ہوئے ہے جس کی وجہ سے رہائشی اسکیم کے معامات اب بکر کے ہاتھ میں نہیں رہے۔زید صاحب نے تفصیل جاننے کے لیے اپنے دوست خالد پراپرٹی ڈیلر سے بات کی تو اس نے کہا کہ بکر کو دونوں پلاٹوں کے واجبات کی مکمل ادائیگی کر دے اور اس سے پلاٹوں کی رجسٹری کروالیں۔پھر وہ ہمارے پلاٹ اچھی قیمت میں سیل کر دے گا۔ زید صاحب نے بکر سے رابطہ کرنا شروع کیا اورکہا کہ بقیہ واجبات کی یکمشت ادائیگی کرنا چاہتے ہیں۔ہمیں دونوں پلاٹوں کی رجسٹری کرادو۔پہلے تو بکر لیت ولعل سے کام لیتا رہا۔پھر اس نے کہا کہ کہ میں زید صاحب کے پلاٹ کی رجسٹری کروادیتا ہو لیکن راحت کے پلاٹ کی رجسٹری نہیں کرونگا بلکہ راحت کے جو پیسے وصول ہوئے 292000 روپے وہ واپس کر دونگا۔کیونکہ راحت نے (قسطوں کی ادئیگی میں تعطل کی وجہ سے)کم پیسے ادا کیے ہے۔لیکن زید صاحب نے اصرار کیا کہ دونوں پلاٹوں کی رجسٹری کروادو، ہم بقیہ واجبات ادا کر دیتے ہیں۔لیکن وہ نہ مانا۔پھر زید نے اس بات کا تذکرہ اپنے دوست خالد پراپرٹی ڈیلر سے کیا تو خالد نے ہمیں اور بکر کو دفتر میں بلوایا اور پوچھا کہ ہمارے ذمہ کتنی رقم واجب الاداء ہےتو میرے ذمہ مبلغ 108000 روپے اور زید صاحب کے مبلغ 25000روپے تھی۔پھر خالد نے بکر سے رجسٹری پلاٹوں کے بارے میں پوچھا تو اس نے گول مول جواب دیا کہ کچھ معاملات خراب ہونے کی وجہ سےوہ اب سائیٹ پر کم ہی جاتا ہے۔تو خالد نے بکر سے کہا کہ وہ ہمیں پلاٹ دے دے اور رجسٹری کروادے۔بکر نے کہا کہ آئندہ ہفتے ہم دونوں خالد کے آفس آجائے اور اپنے ساتھ بقیہ واجبات کی رقم کے علاوہ مبلغ 40000 روپے پلاٹ رجسٹری کی قیمت اور شناختی کارڈ کی کاپی لے آئیں تو وہ رجسٹری کے لیے کاغذات جمع کروادے گا۔ اسی دوران میں نے ایک دوست کے ذریعہ سے بکر کی رہائشی سکیم کی صورتحال کا پتہ کروایا تو معلوم ہوا کہ اب رہائشی سکیم کے معاملات ایک دوسری پارٹی کے ہاتھ میں چلے گئے ہیں جو کہ بکر ہی کا دوست ہے۔ہم نے دوسری پارٹی سے رابطہ کیا کہ ہمارے دو پلاٹ ہے ان کی رجسٹری کرواکر سیل کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے پوچھا کہ پلاٹ کس سے خریدے ہیں تو ہم نے کہا کہ بکر سے۔تو انہوں نے کہا کہ اب صورتحال تبدیل ہو گئی ہےاور آپکی رجسٹری ایسے نہیں ہو سکتی۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنے فائل لیکر دفتر آجائیں وہ بکر کو بھی بلالیں گے یا ہم بکر کو ساتھ کے کر آ جائیں۔پھر بکر بتائے کہ ہمارے ذمہ کتنے پیسے واجب الاداء ہے۔تو ہمیں نئی فائل بنا کر دی جائے گی اور واجبات کی ادئیگی کرنے پر پلاٹ ہمارے نام ٹرانسفر کر دیا جائے گا۔ زید صاحب نے خالد سے بات کی تو اس نے کہا کہ اس نے بکر سے بات کی ہے اور بکر ہمیں ہماری جمع کردہ رقم کے ساتھ مبلغ پچاس ہزار روپے فی پلاٹ واپس کر دے گا۔ہمارا تحریری معاہدہ کینسل ہو جائے گااور فائلیں بکر کو واپس کر دیں گے۔ہم دونوں کو ہماری جمع کردہ رقم بمعہ اضافہ پچاس ہزار روپے بکر نے ادا کر دیے ہیں۔ مجھے اضافی رقم مبلغ پچاس ہزار روپے کے متعلق اشکال تھا تو زید صاحب سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ غلط نہیں ہے۔میں نے مفتی فیصل صاحب (شریعہ اینڈ بزنس) سے رابطہ کیا اور ان کو تحریری معاہدہ کی کاپی بھی واٹس ایپ کی تو انہوں نے کہا تو انہوں نے کہا کہ معاہدہ کی رو سے بکر نے ہمیں پلاٹ سیل کر دیے ہیں لیکن رقم کی ادائیگی ابھی باقی تھی۔تو اب اگر بکر سے مل کر یا ٹیلیفون پر یہ بات کر لی جائے کہ پہلے بکر نے ہمیں پلاٹ فروخت کیا ہے اب ہم اسکو پلاٹ فروخت کر رہے ہیں تو اضافی رقم مبلغ پچاس ہزار روپے رکھ سکتے ہیں۔مزید وضاحت کے لیے میں نے دارالافتاء سے فون پر رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اضافی رقم پچاس ہزار روہے اس صورتحال میں لینا ناجائز ہےاور ہمیں یہ رقم واپس کرنی ہو گی بکر کو۔ اب اس تفصیل کی روشنی میں فرمادیجیے کہ 1)کیا اضافی رقم مبلغ پچاس ہزار روپے لینا جائز ہے یا ناجائز؟ 2)اگر ناجائز ہے تو کیا رقم بکر سے پوچھ کر قسطوں میں واپس کی جا سکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اصول یہی ہے کہ جب خریدار اپنے درمیان ہونے والا معاہدہ کینسل کرے تو اس صورت میں خریدار کے لیے اضافی رقم لینا جائز نہیں ہے ۔آپ نے سوال میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ آپ نے بکر کے ساتھ اپنا معاہدہ کینسل کر کے اس سے اضافی رقم لے لی ہے۔ اس لیے بکر سے لی ہوئی اضافی رقم آپ کے لیے لینا درست نہیں ہے وہ رقم بکر کوواپس لوٹانا ضروری ہے۔ البتہ اگر آپ معاہدہ کینسل کرنے کے بجائے پلاٹ بکر کو دوبارہ فروخت کرتے تو اس صورت میں اضافی رقم لینا آپ کے لیے درست ہوتا۔ 2)یہ رقم آپ کے ذمہ قرض ہے آپ بکر سے بات کر کے اسے قسطوں میں واپس کر سکتے ہیں۔نیز اگر آپ رقم واپس کرنے پر آمادگی ظاہر کریں اور بکر آپ کو یہ رقم الگ سے مستقل اجازت کے ساتھ دے دیں تو پھر حرج نہیں۔
حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 55) "الإقالة جائزة في البيع بمثل الثمن الأول" لقوله عليه الصلاة والسلام: "من أقال نادما بيعته أقال الله عثرته يوم القيامة" ولأن العقد حقهما فيملكان رفعه دفعا لحاجتهما "فإن شرطا أكثر منه أو أقل فالشرط باطل ويرد مثل الثمن الأول". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 125) (قوله: وبالسكوت عنه) المراد أن الواجب هو الثمن الأول سواء سماه أو لا، قال في الفتح: والأصل في لزوم الثمن، أن الإقالة فسخ في حق المتعاقدين، وحقيقة الفسخ ليس إلا رفع الأول كأن لم يكن فيثبت الحال الأول، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 127) (و) إنما (هي بيع في حق ثالث) أي لو بعد القبض بلفظ الإقالة فلو قبله فهي فسخ في حق الكل في غير العقار ولو بلفظ مفاسخة أو متاركة أو تراد لم تجعل بيعا اتفاقا أو لو بلفظ البيع فبيع إجماعا. واللہ سبحانہ و تعالی اعلم ضیاءاللہ دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی 1/ربیع الثانی/ 1439ھ
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب