021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غاصب کے رشتہ دار سےاپنا حق وصول کرنا
61165غصب اورضمان”Liability” کے مسائل متفرّق مسائل

سوال

یہاں ایک آدمی کے ساتھ کچھ لوگوں نے کمیٹی ڈالی۔کمیٹی نکلنے پر وہ آدمی فراڈ کرکے بھاگ گیا۔کمیٹی ڈالنے والوں نے اسے بہت ڈھونڈا۔مگر نہ ملا۔بھاگنے والے شخص کے مزید پانچ بھائی ہیں۔یہ شخص اپنے دو بھائیوں کے ساتھ اپنے والد صاحب کے ساتھ رہتا تھا۔اور تین بھائی الگ ہیں ،شادی شدہ ہیں ،اپنے گھر بار ہیں۔والد صاحب کی جائیداد ابھی تقسیم نہیں ہوئی ،تمام بھائیوں کی مشترکہ جائیداد ہے۔والد صاحب ابھی حیات ہیں۔ مذکورہ پس منظر کے بعد سوال یہ ہے کہ : رقم لے کر بھاگنے والے شخص کی شریعت میں کیا حیثیت ہے؟ کمیٹی ڈالنے والے اس شخص کے بڑے بھائی سے مطالبہ کرسکتے ہیں،جن کاالگ گھر بار ہے،اور کافی ذمہ دار ہیں۔ اگر اس کے بھائی سے رقم وصول کرلیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ اگر اس کے بھائی سے رقم وصول کرنا جائز نہ ہو تو ،اپنے حق کی وصولی کے لیے شرعاًکیا تدبیر اختیار کی جا سکتی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت نے ہر انسان کی جان ومال کو محترم قرار دیا ہے،لہذا کسی کے مال کو اس کی رضامندی کے بغیر لینے کی شریعت نے بھرپور مذمت کی ہے۔سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: لا يحل لامرئ أن يأخذ مال أخيه بغير حقه وذلك لما حرم اللہ مال المسلم على المسلم۔ کسی بھی آدمی کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کا مال اس کی رضامندی کے بغیرلے،کیونکہ اللہ نے مسلمان پر مسلمان کا مال حرام کردیا ہے۔ مزید یہ کہ کمیٹی کی رقم جس شخص کے پاس رکھی جاتی ہے،وہ اس کے پاس امانت ہوتی ہےلہذا اس میں کسی بھی قسم کی کوتاہی شرعاً خیانت کے زمرے میں آتی ہے،اور شریعت امانت میں خیانت کی بھرپور مذمت کرتی ہے۔سرکار دوعالم ﷺ نے فرمایا: "آية المنافق ثلاث: إذا حدث كذب. وإذا وعد أخلف. وإذا ائتمن خان".وفی روایۃ:" المكر والخديعة والخيانة في النار " . منافق کی تین نشانیاں ہیں،جب بات کرے تو جھوٹ بولے،جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرےاور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔ایک اور روایت میں ہے :دھوکہ دینے والا اور خیانت کرنے والا جہنم میں ہیں۔ مذکورہ تمہید کے بعد صورتِ واقعہ کے بارے میں شریعت کا فیصلہ یہ ہے کہ: 1. اگر کمیٹی اسی شخص کی نکلی تھی جو رقم لے کر فرار ہوا ہے،تو یہ رقم دوسرے شرکاء کی طرف سے اس پر قرض ہے ،لہذااس پر لازم ہے کہ اپنےقرض کی ادائیگی کی جلدازجلد کوشش کرے۔ اگر کمیٹی اس کی نہیں نکلی تھی ،توکمیٹی کی رقم لے کر بھاگنے والایہ شخص "خائن(خیانت کرنے والا)"ہے،مذکورہ حدیث کی وعید میں داخل ہے۔اس پر لازم ہے کہ لوگوں کی تمام رقوم جتنی جلدی ممکن ہو ،ان کو واپس کرے۔ 2. جب تک ان کے والد حیات ہیں ،اور صحت کی حالت میں ہیں ،تب تک والد کی جائیداد میں بھائیوں کا کوئی حق نہیں،لہذا فی الحال والد کی جائیداد مشترکہ جائیداد نہیں،جس کو بنیاد بنا کر ایک بھائی کےرقم لے کر بھاگ جانے پر دوسرےبھائی سے،یاوالد سےوصول کرنا جائز نہیں۔ 3. اگر رقم دوسرے بھائی سے زبردستی یا کسی بھی طریقے سے وصول کی گئی تو یہ غصب شمار ہوگا ،اور مذکورہ حدیث کی وعید میں داخل ہوگا۔یہ رقم ان پر حرام ہوگی ۔رقم لینے والوں پر لازم ہوگا کہ وہ جلد ازجلد رقم اس کو واپس کریں۔ 4. اپنے رقم کی وصولی کے لیے اس خائن شخص کا انتظار کریں ۔جب اس کا سراغ مل جائے،توشرعی و قانونی طریقے سے اس سے اپنی رقم واپس لی جائے۔واضح رہے اپنے حق کی وصولی کے لیے تشدد کا راستہ ہرگز اختیار نہ کیا جائے۔یہ شرعی وقانونی طریقہ نہیں ہے۔
حوالہ جات
عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "آية المنافق ثلاث: إذا حدث كذب. وإذا وعد أخلف. وإذا ائتمن خان".وفی روایۃ:" المكر والخديعة والخيانة في النار " . المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج للنووي (18/ 217) لا يحل لامرئ أن يأخذ مال أخيه بغير حقه وذلك لما حرم الله مال المسلم على المسلم۔ جامع الأحاديث لجلال الدين السيوطي (17/ 61) وقال النبي ﷺ - لا يؤخذ الرجل بجريرة أبيه ولا بجريرة أخيه وقال لأبي رمثة وابنه أنه لا يجني عليك ولا تجني عليه والعقول أيضا تمنع أخذ الإنسان بذنب غيره۔ (أحكام القرآن للجصاص3/ 194) وكذلك أموالهم لا يجني أحد على أحد في مال إلا حيث خص رسول الله بأن جناية الخطإ من الحر على الآدميين على عاقلته ۔فأما ما سواها فأموالهم ممنوعة من أن تؤخذ بجناية غيرهم۔ (أحكام القرآن للشافعي 1/ 318) كل نفس يوم القيامة لا تحمل إلا وزرها الذي اقترفته، فلا تؤخذ نفس بذنب نفس أخرى، كما تأخذ جبابرة الدنيا الظلمة الجار بجريمة الجار، والقريب بالقريب، فذلك ظلم محض. (البحر المديد في تفسير القرآن المجيد 7/ 82) لأن حق الورثة إنما يثبت بطريق الخلافة وحكم الخلف لا يثبت مع وجود الأصل والقياس في المال أيضا أن لا يثبت فيه تعلق حق الورثة إلا بعد موت المورث البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 361) تعلق حق الورثة بماله في مرض الموت۔ تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (6/ 199)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب