021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
معاملہ میں اضافی شرط لگانا(دودھ فروشوں کادکانداروں سے ’’بندی ‘‘کے نام پر کچھ رقم بطورقرض لینے کامطالبہ کرنا)
61096خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

میں رشیداحمد(فرضی نام) اورنگی ٹاؤن میں دودھ کی دکان چلا رہا ہوں۔آج کل جس باڑے والے سے دودھ لینے کا ایگریمنٹ کریں ،وہ یہ شرط لگاتا ہے کہ کچھ رقم میرے پاس رکھواؤ،تب دودھ کا معاہدہ ہوگا۔جب تک دودھ کا معاہدہ چلتا رہتا ہے،یہ رقم اس کے پاس بطور قرض رکھی ہوتی ہے،جسے وہ اپنے استعمال میں لاتا ہے۔اور دودھ کی جو قیمت ہوتی ہے وہ الگ سے ان کو دیتے ہیں،اس رقم کا دودھ کی قیمت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔جب دونوں کا معاملہ ختم ہوتا ہے ،تب وہ رقم باڑے والا دودھ فروش کو واپس کردیتا ہے۔ یہ جو معاہدہ کرنے سے پہلے باڑے والے رقم کی ایک خاص مقدار رکھتے ہیں ،اس کو ان کی اصطلاح میں "بندی" کہتے ہیں۔یہ بندی آج کل کراچی ،اندرون سندھ اور پنجاب کے تمام باڑے والوں کے ہاں چل پڑا ہےکہ وہ ہر دودھ فروش سے کچھ رقم بطور بندی کے لیتے ہیں۔اس رقم لینے سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ باڑے والا دودھ دینے کا پابند ہوجائے،جبکہ دودھ فروش دودھ لینےکا پابند ہوجائے۔ حال ہی میں،میں نے گڈاپ کے ایک باڑے والے سے دودھ کا ایگریمنٹ کیا ہے،جس میں ،میں نے پانچ لاکھ روپے "بندی"کے طور پر دے دیے ہیں،جبکہ سات لاکھ روپےدسمبر میں دوں گا۔اس کے بعد جنوری سے میں ان سے دودھ لینا شروع کروں گا۔یہ معاہدہ ایک سال کے لیے ہے۔ایک سال بعد فریقین کو اختیار ہوگا کہ معاملہ ختم کریں یامزید کسی مدت تک کے لیے اس کو جاری رکھیں۔ختم کرنے پر وہ مجھے میری رقم واپس کردیں گے،اگر جاری رکھیں تو رقم بدستور ان کے پاس بندی کے طور پر رکھی رہے گی۔ مذکورہ معاملہ شریعت کی نظر میں جائز ہے یا نہیں؟اگر جائز نہیں تو ہم کیا صورت اختیار کریں ،کیونکہ اگر رقم ان کو نہ دیں تو اس کے بغیر وہ دودھ کا معاملہ نہیں کرتے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ کاروبار نہ کرو ،بلکہ گھر بیٹھ جاؤ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

خرید وفروخت کے معاملے میں اگر کوئی ایسی شرط لگائی جائے ،جس کا معاملے سے کوئی تعلق نہ ہو ،بلکہ معاملہ اس شرط کے بغیر بھی پورا ہو سکتا ہو،اور شرط لگانے کامقصد بائع(seller)،یا خریدار یا کسی اور کو فائدہ پہنچانا مقصود ہو،ایسی شرط کے بارے میں شریعت کا ضابطہ یہ ہے کہ اگر لوگوں میں خرید وفروخت کا معاملہ کرتے وقت ایسی شرط لگانے کا عام رواج چل پڑا ہو تو معاملے میں ایسی شرط لگانے سے معاملے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا،بلکہ خرید وفروخت کا معاملہ جائز ہوگا۔ اگر لوگوں میں خرید وفروخت کا معاملہ کرتے وقت ایسی شرط لگانے کا عام رواج نہ ہو تو ایسی شرط لگانے سے معاملہ فاسد (Invalid) ہوجاتا ہے،اگر کوئی اس قسم کا معاملہ کرلے تو فریقین پر شرعاً ضروری ہوتا ہے کہ وہ جلد ازجلد اس معاملے کو ختم کریں،اور آئندہ اس قسم کے معاملہ سے توبہ کریں۔ صورت مسئولہ میں اگر دودھ کے بیوپاریوں میں دودھ کی خریدوفروخت کے ایگریمنٹ کے وقت "بندی" کے نام پر رقم بطور قرض لینےکا عام رواج واقعی چل پڑا ہے اور اس کے بغیر دودھ کا کاروبار ممکن نہیں ،تو ایسی صورت میں معاملہ کرتے وقت اس قسم کی شرط سے معاملہ ناجائز نہیں ہوگا ،بلکہ معاملہ درست ہوگا۔
حوالہ جات
عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن سلف وبيع وشرطين في بيع وربح ما لم يضمن۔ سنن النسائي (7/ 340) عن عبد اللہ قال : "ما رأى المسلمون حسنا فهو عند اللہ حسن و ما رآه المسلمون سيئا فهو عند اللہ سيىء۔" المستدرك على الصحيحين للحاكم مع تعليقات الذهبي في التلخيص (4/ 152، بترقيم الشاملة آليا) وكذا(البیع فاسد) إذا كان الشرط فيه منفعة للبائع مثل أن يشتري دارا بشرط أن يسكنها البائع شهرا أو أرضا بشرط أن يزرعها البائع سنة، أو دابة بشرط أن يركبها، أو ثوبا بشرط أن يلبسه شهرا، أو بشرط أن يقرضه المشتري دراهم۔ الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 203) وأمة على أن يعتق المشتري أو يدبر أو يكاتب أو يستولد) أي لا يجوز بيع أمته على أن يفعل بها المشتري شيئا من هذه الأشياء «لنهيه - عليه السلام - عن بيع وشرط» والأصل فيه أن كل شرط لا يقتضيه العقد وهو غير ملائم له ولم يرد الشرع بجوازه ولم يجز التعامل فيه وفيه منفعة لأهل الاستحقاق مفسد لما روينا فإن شرط فيه ما يقتضيه العقد كشرط الملك للمشتري أو شرط فيه الملائم للعقد كالرهن والكفالة جاز؛ لأنهما للتوثقة والتأكيد لجانب الاستيفاء والمطالبة؛ لأن استيفاء الثمن مقتضى العقد ومؤكده ملائم له إذا كان معلوما بأن كان الرهن والكفالة معينين أو شرطا فيه ما ورد الشرع بجوازه كالخيار والأجل أو شرط فيه ما جرى التعامل بين الناس كشراء النعل على أن يحذوها للبائع أو يشركها أو شرط فيه ما لا منفعة فيه لأهل الاستحقاق وأهل الاستحقاق هو البائع والمشتري والمبيع الآدمي والأجنبي لا يفسد البيع لورود الشرع به أو التعامل أو لكونه ملائما. تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (4/ 57) واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب