میرے سسر صاحب نے ساس کی وفات کے بعد دوسری شادی کر لی۔شادی کے وقت سسر صاحب نے دوسری بیوی کے نام(1)سات تولہ سونا ،2)اپنی زمین کا ½ حصہ جو گاؤں میں موجود ہے،3) کراچی کا ایک مکان، جس کی مالیت چھ لاکھ تک ہے، اسٹامپ پیپر پر لکھ کر نئی بیوی کے نام کر دی یعنی مہر میں لکھ دی۔ابھی پہلی بیوی سے بھی 5 بیٹیاں اور دو بیٹے موجود ہیں جبکہ نئی بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہے۔اب سسر صاحب کو احساس ہوا کہ مذکورہ زمین اور مکان میں تو سب بچوں کا حق تھا،میں نے نئی بیوی کو زیادہ مہر لکھوایا ہے۔جناب ایسی صورت میں شرعی تقسیم کیسے ہوگی جبکہ سسر صاحب کی دودکانیں اور سات فلیٹ اور بھی ہیں۔ یہ کل دو کمروں والے آٹھ فلیٹ ہو گئے ہیں۔
جناب ذرا شرعی لحاظ سے وضاحت فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
آپ کے سسر نے دوسری بیوی کے ساتھ مہر کی جو مقدار طے کی ہے یہ دوسری بیوی کا حق ہےاور اسے دینا لازمی ہے،اس میں باقی ورثاء کا کوئی حق نہیں ہے۔البتہ اگر بیوی اپنی مرضی سے اپنے مہر میں سے کچھ چھوڑنا چاہے تو کر سکتی ہے۔
مہر کے علاوہ آپ کے سسر کے پاس جو باقی جائیداد ہے وہ ورثاء میں تقسیم ہوگی۔مزید یہ کہ میراث کی تقسیم وفات کے بعد ہوتی ہے،اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کر نا چاہے تو اس تقسیم پر شرعاً میراث کے بجائےہبہ(گفٹ) کے احکامات لاگو ہوتے ہیں۔جس میں شریعت کا ضابطہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی اولاد کو اپنی زندگی میں کچھ مال دینا چاہے تو اس پر ضروری ہے کہ اولاد کے درمیان انصاف والامعاملہ کرے ۔ کسی کو دینا اورکسی کو بالکل محروم کرنا ناجائز ہے،اسی طرح بلا کسی معقول وجہ کے کسی کو دوسرے سے کم دینا بھی صحیح نہیں ۔البتہ اگر کوئی معقول وجہ ہو ،مثلاً کوئی تنگ دست ہو ،یا اس کے اہل وعیال زیادہ ہوں،یا وہ ضرورت مند ہو تو اس کو دوسروں سے زیادہ دیا جاسکتا ہے۔
حوالہ جات
الهداية (1/ 199)
" ومن سمى مهرا عشرة فما زاد فعليه المسمى إن دخل بها أو مات عنها " لأنه بالدخول يتحقق تسليم المبدل وبه يتأكد البدل وبالموت ينتهي النكاح نهايته والشيء بانتهائه يتقرر ويتأكد فيتقرر بجميع مواجبه "
رد المحتار (3/ 102)
(قوله ويجب الأكثر) أي بالغا ما بلغ فالتقدير بالعشرة لمنع النقصان (قوله ويتأكد) أي الواجب من العشرة لو الأكثر وأفاد أن المهر وجب بنفس العقد لكن مع احتمال سقوطه بردتها أو تقبيلها ابنه أو تنصفه بطلاقها قبل الدخول، وإنما يتأكد لزوم تمامه بالوطء ونحوه
رد المحتار (6/ 758)
وأركانه: ثلاثة وارث ومورث وموروث. وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه،
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (6/ 262)
وسئل أيضاً عن رجل له ثلاثة بنين كبار وكان دفع لواحدٍ منهم في صحته مالاً ليتصرف فيه، ففعل وكبر ذلك الابن اختص به هذا الابن ويكون ميراثاً عنه بينهم؟ قال: إن أعطاه هبة فالكل له، وإن دفع إليه ليعمل فيه الأب فهو ميراث.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 709)
دفع لابنه مالا ليتصرف فيه ففعل وكثر ذلك فمات الأب إن أعطاه هبة فالكل له، وإلا فميراث وتمامه في جواهر الفتاوى. .
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 127)
ينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في النحلى لقوله سبحانه وتعالى {إن الله يأمر بالعدل والإحسان} [النحل: 90] .