021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گزشتہ وقت کا نفقہ لینا
62073نان نفقہ کے مسائلنان نفقہ کے متفرق مسائل

سوال

میرے شوہر (مولانا عبداللہ ) کی شہادت آج سے تقریباً سات سال پہلے 2011ء میں ہوئی۔انتقال کے وقت میرے علاوہ میری بیٹی (فاطمہ) اور ان کے والدین (میرے ساس ،سسر)اور ان کے چھ بھائی (میرے دیور)موجود تھے۔انتقال کے وقت ان پر کچھ قرضے تھے،جن میں سے کچھ انتقال کے بعد ان کےترکہ میں سے ادا کیے گئے،اور کچھ تاحال ادا نہیں کیے گئے۔ان کی ملکیت میں ایک پلاٹ بھی تھا ،جو تاحال اسی حالت میں ہے۔ مذکورہ پس منظر کے بعد آپ سےجواب مطلوب ہےکہ: 2011 سے تاحال میری بیٹی کے اخراجات کس پر لازم ہیں ؟ کیا میں ان سے وہ اخراجات وصول کرسکتی ہوں جو میں نے اپنی بیٹی پر کیے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

وہ اخراجات جو آپ نے اپنی بیٹی پر کیے ہے وہ آپ وصول نہیں کر سکتی کیونکہ بیٹی کا نفقہ ضرورت کی وجہ سے رشتہ داروں پر لازم ہوا ہے اور وقت گزرنے سے اب اس کوگزشتہ زمانے نفقہ کی ضرورت نہیں رہی۔ اور آپ نے دادا کی اجازت کے بغیر اس پر اخراجات کیے ہیں اور اصول یہی ہے کہ دوسرےشخص کی طرف سے مالی ذمہ داری بغیر اس کی اجازت کے ادا کرنے سےرجوع کا حق نہیں ملتا۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 594) ثم اعلم أن المراد بالنفقة نفقة الزوجة، بخلاف نفقة القريب فإنها لا تصير دينا ولو بعد القضاء والرضا، حتى لو مضت مدة بعدهما تسقط كما يأتي وسيأتي أن الزيلعي استثنى نفقة الصغير ويأتي تمام الكلام عليه عند قول المصنف قضى بنفقة غير الزوجة إلخ (قوله إلا بالقضاء) بأن يفرضها القاضي عليه أصنافا أو دراهم أو دنانير نهر بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 28) بخلاف نفقة الأقارب إذا مضت المدة ولم تؤخذ أنها تسقط؛ لأنها لا تصير دينا رأسا؛ لأن وجوبها لكفاية وقد حصلت الكفاية فيما مضى فلا يبقى الواجب كما لو استغنى بماله الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 633) قوله غير الزوجة) يشمل الأصول والفروع والمحارم والمماليك (قوله زاد الزيلعي والصغير) يعني استثناه أيضا فلا تسقط نفقته المقتضى بها بمضي المدة كالزوجة، بخلاف سائر الأقارب.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب