021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
انکریمنٹ لینا
62128اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

جناب عالی عرض ہے کہ میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوا ہو۔آج سے 20،25 سال پہلے مجھے نوکری بارہویں جماعت پر ملی تھی۔بعد میں حکومت کے اعلان پر کہ جو مزید تعلیم حاصل کرے گا اس کو انکریمنٹ ملے گا،تو میں نے "بی اے"کیا اور "ایم اے" کےفارم جمع کروادیے۔ہم دو دوست تھے،گرمیوں کی چھٹیاں ہو گئی اور میں گاؤں چلا گیا وہ یہی رہا،اچانک امتحان شروع ہو گئے۔اس نے پہلا پرچہ میرا کسی اور لڑکے سے دلوایا اور بعد میں مجھے کسی طریقے سے خبر دلوادی کہ امتحان شروع ہو چکے ہیں۔میں جب آیا تو بقایا نو عدد پرچہ جات دس میں سے میں نے خود دیے۔ایک یا دو پرچے آوٹ بھی ہوئے۔بہر حال میرا سوال یہ ہے کہ میرے اس پرچے کہ نمبر اگر نکال دیئے جائیں اور میرے اپنے نو پرچوں کے نمبر مساوی 10 پرچوں پر تقسیم کیے جائیں تو نو پرچوں میں ٪45 اور ایک پرچے میں ٪33 بنتے ہیں ،جبکہ حکومت کی شرط کے مطابق ٪45 نمبرلینا چاہیےتھے مگر ٪33 والا پاس ضرور ہےمیرے سوال کا مطکب یہ ہے کہ آیا یہ انکریمنٹ میرے لیے جائز ہے یا نہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر آپ میں اس ایک پیپر کے پاس کرنے کی صلاحیت ہو جو آپ کی جگہ آپ کے ساتھی نے دیا ہے تب تو آپ کے لیے یہ انکریمنٹ لینا جائز ہے اور اگر آپ میں اس پیپر کے پاس کرنے کی صلاحیت نہ ہو تب آپ کے لیے انکریمنٹ لینا جائز نہیں ہے۔ باقی رہا امتحان میں اپنی جگہ کسی اور کو بٹھانا تو اس کا گناہ آپ کو ہو گا کیونکہ یہ دھوکہ بازی کے زمرے میں آتا ہے جو کہ ناجائز ہے ایک مسلمان کو اس سے بچنا چاہیے۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 201( أما الصحيحة: فلها أحكام، بعضها أصلي وبعضها من التوابع أما الحكم الأصلي فالكلام فيه في ثلاثة مواضع: في بيان أصل الحكم، وفي بيان وقت ثبوته، وفي بيان كيفية ثبوته. أما الأول: فهو ثبوت الملك في المنفعة للمستأجر، وثبوت الملك في الأجرة المسماة للآجر؛ لأنها عقد معاوضة إذ هي بيع المنفعة، والبيع عقد معاوضة، فيقتضي ثبوت الملك في العوضين. صحيح مسلم للنيسابوري (1/ 69) 294 - حدثنا قتيبة بن سعيد حدثنا يعقوب - وهو ابن عبد الرحمن القارى ح وحدثنا أبو الأحوص محمد بن حيان حدثنا ابن أبى حازم كلاهما عن سهيل بن أبى صالح عن أبيه عن أبى هريرة أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال « من حمل علينا السلاح فليس منا ومن غشنا فليس منا ». مجلة الأحكام العدلية (ص: 81( (المادة 421) : الإجارة باعتبار المعقود عليه على نوعين: النوع الأول: عقد الإجارة الوارد على منافع الأعيان ويقال للشيء المؤجر عين المأجور وعين المستأجر أيضا وهذا النوع ينقسم إلى ثلاثة أقسام: القسم الأول: إجارة العقار كإيجار الدور والأراضي. القسم الثاني: إجارة العروض كإيجار الملابس والأواني. القسم الثالث إجارة الدواب. النوع الثاني: عقد الإجارة الوارد على العمل وهنا يقال للمأجور أجير كاستئجار الخدمة والعملة واستئجار أرباب الحرف والصنائع هو من هذا القبيل. حيث إن إعطاء السلعة للخياط مثلا ليخيط ثوبا يصير إجارة على العمل كما أن تقطيع الثوب على أن السلعة من عند الخياط استصناع.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب