021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرض حسنہ پر سروس چارجز وصول کرنا
64298سود اور جوے کے مسائلسود اورجوا کے متفرق احکام

سوال

ملک بھر میں کئی نجی ادارے قرضِ حسنہ سکیم کے تحت کام کررہے ہیں جس میں ان کے بقول وہ صارف سے وہی رقم واپس وصول کرتے ہیں جو وہ صارف کو کسی بھی صورت میں ( کیش، نقد یا رکشہ وغیرہ خرید کر ) دیتے ہیں۔ اس قرضے کے حصول میں وہ صارف سے کچھ رقم بطور پروسیسنگ فیس یا سروس چارجز کی مد میں وصول کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر قسط لیٹ ہوجائے تو قسط کے ساتھ کچھ جرمانہ بھی وصول کیا جاتاہے۔ جب کہ بعض ادارے قرض کی قسط کے ساتھ کچھ رقم بطور عطیہ یا ہدیہ بھی وصول کرتے ہیں۔ سوال: آیا کہ ان اداروں کی مذکورہ فیس یا سروس چارجز وصول کرنا شرعا جائز ہے یا نہیں؟ اس طرح سروس چارجز وصول کرنے سے معاملہ قرض سود کے ضمن میں تو نہیں چلا جاتا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ فیس یا سروس چارجز وصول کرنا شرعا جائز ہے۔یہ سود نہیں ہے۔ کیونکہ سود اور ربا کی تعریف ہے "الفضل الخالی عن العوض المشروط فی المعاوضہ" یعنی ایسی زیادتی جس کا عوض نہ ہو اور عقد معاوضہ میں اس زیادتی کی شرط لگائی گئی ہو۔ یہ تعریف اس زیادتی پر صادق نہیں آتی۔ اس لیے کہ یہاں جو فیس وصول کی جاتی ہے، وہ ادارہ اپنے اخراجات کے عوض کے طور پر وصول کرتاہے۔ ادارہ کو قرض دینے میں کچھ انتظامی اخراجات کرنے پڑتے ہیں جیسے حساب کتاب وغیرہ کے اخراجات ۔ تو یہ فیس ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے لی جاتی ہے ۔ لہذا یہ بلاعوض نہیں ہے، اس لیے سودبھی نہیں ہے۔البتہ یہ ضروری ہے کہ یہ فیس قرضہ دینے پر آنے والے اخراجات سے زیادہ نہ ہو۔ اگر یہ فیس، انتظامی اخراجات سے زیادہ ہو تو یہ سود کے زمرے میں داخل ہوکر ناجائز ہوگی۔

حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (12 / 109): الربا: هو الفضل الخالي عن العوض المشروط في البيع۔ المعاییر الشرعیۃ الرقم ۱۹ ٩/١ يجوز للمؤسســة المقرضة أن تأخذ على خدمــات القروض ما يعادل مصروفاتهــا الفعلية المباشــرة، ولا يجوز لها أخذ زيــادة عليها، وكل زيادة علــى المصروفات الفعلية محرمة.

حارث حبیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

07/صفر1440

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب