سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے میں کہ:
آج کل یہ عرف ہوچکا ہے کہ امانت کے پیسوں کو لوگ اپنے استعمال میں لے آتے ہیں یا بینک میں رکھوا دیتے ہیں، پھر جب امانت رکھوانے والا امانت کا مطالبہ کرتا ہے تو اس کو اپنے ذاتی پیسے دے دیتے ہیں۔ اس عرف کی بناء پر امانت کے پیسے ذاتی استعمال میں لانا درست ہے ؟ بینوا توجروا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جی ہاں اگر کسی جگہ امانت کے پیسوں کو ذاتی استعمال میں لانے کااس طرح عرف ہو چکا ہوکہ امانت رکھنے والے اور رکھوانے والےدونوں کو اس عرف کا علم ہوتو ایسی صورت میں امانت کے پیسوں کو ذاتی استعمال میں لانا ، یا بینک میں رکھوانا یا قرض دینا جائز ہوگا۔ اس طرح کرنے کے بعد ان پیسوں کی حیثیت امانت کے بجائے قرض کی ہوجائے گی،لہذا اس کی ادائیگی بہرحال لازم ہوگی۔
البتہ اگر کوئی صراحۃً استعمال کرنے یا آگےقرض دینے سے منع کردے تو پھر ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا۔
حوالہ جات
مجلة الأحكام العدلية (1 / 146):(المادة 772) الإذن دلالة كالإذن صراحة. بيد أنه عند وجود النهي صراحة لا اعتبار بالإذن دلالة.
مجلة الأحكام العدلية (1 / 148):(المادة 779) : فعل ما لا يرضاه صاحب الوديعة في حق الوديعة تعد۔