021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پیٹی کیش کا حکم
61801امانتا اور عاریة کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

آج کل کمپنیوں میں یہ ہوتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے خرچوں کے لیے کمپنی کے مالکان، دفتر یا ڈپارٹمنٹ کے مینجر کو کچھ پیسے دیتے ہیں،جس کو پیٹی کیش کہا جاتا ہے۔اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فوری ضرورت کے چھوٹے خرچوں کو ان سے پورا کیا جائے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ کسی ملازم کو پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اس پیٹی کیش میں سے قرض لے لیتا ہے پھر بعد میں واپس کردیتا ہے ۔ پوچھنا یہ ہے کہ اس پیٹی خرچ سے ذاتی خرچہ کے لیے قرض لینا جائز ہےیا نہیں؟ بینوا توجروا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

عام طور پر پیٹی کیش کے بارے میں کمپنی کے مالکان کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ملازمین اس کو قرض کے طورپر اپنی ضروریات میں استعمال کرتےہیں، مالکان کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا کہ بعینہ ان ہی پیسوں سے کمپنی کے اخراجات پورے کیے جائیں، بلکہ غرض یہ ہوتی ہے کہ کمپنی کے چھوٹے خرچے پورے ہوجائیں خواہ بعینہ ان ہی پیسوں سے ہوں خواہ ان کے مثل دوسرے پیسوں سے ۔چونکہ اس کا عرف بھی ہوچلاہےکہ پیٹی کیش کی رقم کو بطور قرض ذاتی استعمال میں لایا جاتا ہے، اس لیے اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے ۔تاہم شدید ضرورت کے بغیر اس سے بچنا ضروری ہے۔ البتہ اگر مالک، پیٹی کیش کو ذاتی استعمال میں لانے کی صراحۃً ممانعت کردے تو پھر اس کو ذاتی استعمال میں لانا یا اس سے قرض لینا جائز نہیں۔
حوالہ جات
مجلة الأحكام العدلية (1 / 146): (المادة 772) الإذن دلالة كالإذن صراحة. بيد أنه عند وجود النهي صراحة لا اعتبار بالإذن دلالة. مجلة الأحكام العدلية (1 / 148): (المادة 779) : فعل ما لا يرضاه صاحب الوديعة في حق الوديعة تعد
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب