021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غیر قانونی شادی ہال کا حکم
61870غصب اورضمان”Liability” کے مسائل متفرّق مسائل

سوال

زید زمین پرغیر قانونی قبضہ کرکے شادی ہال بناتا ہے اورپھر شادی بیاہ ودیگرتقریبات وغیرہ کے لیے رینٹ پر دیتا ہے۔ کیا زید کے لیے اس کی آمدنی حلال ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سرکاری زمین یا کسی دوسرے کی زمین پر ناجائزقبضہ کرنا درست نہیں ہے۔ یہ زمین اصل مالک کو واپس کرنا ضروری ہے۔ جن لوگوں کواس کا علم ہو ان کےلیے ایسی زمین پر بنائے گئے شادی ہال کو کرائے پر لینا جائز نہیں۔ ایسی غیرقانونی مقبوضہ زمین کے کرایہ کے طور پرحاصل شدہ آمدنی کا استعمال جائز نہیں۔ اس کو اصل مالک تک پہنچانا ضروری ہے، اگر اصل مالک معلوم نہ ہو تو اس کا صدقہ کرنا ضروری ہے۔البتہ اس پر بنائی گئی عمارت اور فرنیچرو برتن وغیرہ کا کرایہ حلال ہے۔لہذا شادی ہال کی آمدنی میں جتنی مقدار عمارت،فرنیچراورڈیکوریشن کے سامان وغیرہ کے کرایہ کی ہے وہ حلال ہے، آمدنی کا بقیہ حصہ جو زمین کا کرایہ ہے اس کا صدقہ کرنا ضروری ہے۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية (5 / 142): في المنتقى قال أبو يوسف - رحمه الله تعالى - إذا غصب رجل أرضا وبناها حوانيت وحماما ومسجدا فلا بأس بالصلاة في ذلك المسجد فأما الحمام فلا يدخل ولا يستأجر الحوانيت بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7 / 160): وأما بدل المنفعة وهو الأجرة بأن آجر الغاصب المغصوب يملكه الغاصب عندنا، ويتصدق به خلافا للشافعي رحمه الله - بناء على أن المنافع ليست بأموال متقومة بأنفسها عندنا، حتى لا تضمن بالغصب والإتلاف وإنما يتقوم بالعقد وإنه وجد من الغاصب۔ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4 / 206): ولو أجرها المستأجر بأكثر من الأجرة الأولى فإن كانت الثانية من خلاف جنس الأولى طابت له الزيادة، وإن كانت من جنس الأولى لا تطيب له حتى يزيد في الدار زيادة من بناء أو حفر أو تطيين أو تجصيص.۔۔۔ فإن كان هناك زيادة كان الربح في مقابلة الزيادة، فيخرج من أن يكون ربحا۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب