021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
موٹر سائیکل کی خریدوفروخت کی ایک صورت کا حکم
62422خرید و فروخت کے احکامسلم اور آرڈر پر بنوانے کے مسائل

سوال

ایک موٹر سائیکل کمپنی نے شہر کے مختلف علاقوں میں دکانیں کھولی ہیں،جہاں موٹر سائیکل مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پر ادھارفروخت کرتی ہے۔البتہ انوائس(رسید) مارکیٹ ریٹ کی بناتی ہے۔ جب کوئی موٹر سائیکل خریدنے جاتا ہے تو دکان والا اس سے نقد پیسہ لے لیتا ہے اور کہتا ہے کہ چالیس دن بعد موٹر سائیکل ملے گی۔ کیا ان دکان والوں سے کم قیمت پر ادھار موٹر سائیکل خریدنا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ادھار بیع سے اگر آپ کی مراد نقد رقم کے عوض ادھار مبیع یعنی موٹر سائیکل کی خریداری ہے تو یہ سلم ہے،جس کی خاص شرائط ہیں۔ اگر وہ سب شرائط پوری ہوں تو یہ معاملہ درست ہوگا۔ البتہ موٹر سائیکل کم قیمت پر بیچ کر انوائس(رسید) زیادہ قیمت کی بنانا،دھوکہ ہے، جو جائز نہیں۔ کمپنی کو چاہیے کہ وہ اصل قیمت فروخت کی انوائس بنائے، جب تک کمپنی ایسا نہیں کرتی اس وقت تک کمپنی سے معاملہ نہیں کرنا چاہیے۔ایسی کمپنیوں سے معاملہ کرنے سے پہلےاچھی طرح تحقیق کر لینی چاہیے کہ کمپنی رجسٹرڈ ہے کہ نہیں، دھوکہ اور فراڈ تو نہیں ہے، تاکہ ممکنہ نقصان سے بچا جاسکے۔
حوالہ جات
صحيح مسلم (1 / 99): عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من حمل علينا السلاح فليس منا، ومن غشنا فليس منا» الهداية في شرح بداية المبتدي (3 / 77): "وإن استصنع شيئا من ذلك بغير أجل جاز استحسانا" للإجماع الثابت بالتعامل. وفي القياس لا يجوز لأنه بيع المعدوم، والصحيح أنه يجوز بيعا لا عدة، والمعدوم قد يعتبر موجودا حكما، والمعقود عليه العين دون العمل، حتى لو جاء به مفروغا لا من صنعته أو من صنعته قبل العقد فأخذه جاز، ولا يتعين إلا بالاختيار، حتى لو باعه الصانع قبل أن يراه المستصنع جاز، وهذا كله هو الصحيح.۔۔۔۔ وإنما قال بغير أجل لأنه لو ضرب الأجل فيما فيه تعامل يصير سلما عند أبي حنيفة خلافا لهما، ولو ضربه فيما لا تعامل فيه يصير سلما بالاتفاق. المحيط البرهاني في الفقه النعماني (7 / 140): وسئل أبو القاسم عمن يبيع ويشتري في الطريق قال: إن كان الطريق واسعاً ولا يكون في قعوده ضرر للناس فلا بأس، وعن أبي عبد الله القلانسي أنه كان لا يرى بالشراء منه بأساً وإن كان بالناس ضرر في قعوده، والصحيح هو الأول؛ لأنه إذا علم أنه لا يشتري منه لا يبيع على الطريق فكان هذا إعانة له على المعصية وقد قال الله تعالى: {ولا تعاونوا على الاثم والعدوان}
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب