021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کے ایک حصہ کو کرایہ پر دینے کا حکم
62154وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

سوال: ہمارے علاقے میں ایک وسیع مسجد ہے، جس کے اخراجات لوگوں کے چندہ سے پورے کیے جاتے ہیں۔مسجد کی کمیٹی چاہتی ہے کہ مسجد کے صحن کو ۔۔۔جو کافی کشادہ ہے ۔۔۔۔ کرایہ پر دے دیا جائے تاکہ مسجد لوگوں کے چندہ سے مستغنی ہوجائے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسجد کے کسی حصہ کو کرایہ پر دینا جائز نہیں۔ مسجد کا صحن چونکہ مسجد کا ہی حصہ ہوتا ہے، اس لیے اسے بھی کسی صورت کرایہ پر نہیں دیا جاسکتا۔مسجد کے اخراجات پورا کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ اختیار کیا جائے۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 358): لو بنى فوقه بيتا للإمام لا يضر لأنه من المصالح، أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع ولو قال عنيت ذلك لم يصدق تتارخانية، فإذا كان هذا في الواقف فكيف بغيره فيجب هدمه ولو على جدار المسجد، ولا يجوز أخذ الأجرة منه ولا أن يجعل شيئا منه مستغلا ولا سكنى بزازية۔۔۔ (قوله: ولا أن يجعل إلخ) هذا ابتداء عبارة البزازية، والمراد بالمستغل أن يؤجر منه شيء لأجل عمارته وبالسكنى محلها وعبارة البزازية على ما في البحر، ولا مسكنا وقد رد في الفتح ما بحثه في الخلاصة من أنه لو احتاج المسجد إلى نفقة تؤجر قطعة منه بقدر ما ينفق عليه، بأنه غير صحيح. قلت: وبهذا علم أيضا حرمة إحداث الخلوات في المساجد كالتي في رواق المسجد الأموي، ولا سيما ما يترتب على ذلك من تقذير المسجد بسبب الطبخ والغسل ونحوه ورأيت تأليفا مستقلا في المنع من ذلك.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب