021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اسلام میں طہارت اور صفائی کی اہمیت
67783پاکی کے مسائلنجاستوں اور ان سے پاکی کا بیان

سوال

قرآن وحدیث کی روشنی میں صفائی کی اہمیت بیان کریں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اسلام دينِ فطرت ہے،  اس کے تمام احکام انسان کی فطرت اور طبیعت کے عین مطابق ہیں، انہیں میں سے   طہارت اور نظافت  یعنی پاکیزگی اور صفائی کا حکم بھی ہے، طہارت کا مطلب اپنے جسم اور کپڑوں کو ناپاک چیزوں سے بچانا اور نظافت کا مطلب اپنے جسم اور کپڑوں  وغیرہ کو ایسی پاک چیزوں سے بھی  بچانا ہے جن سے جسم اور کپڑوں میں میل  اور بدبو  پیدا ہو ، جو معاشرے کے دیگر افراد  کے لیے تکلیف اور نفرت  کا باعث ہو۔

نیزطبی نقطہٴ نظر سے بھی صفائی اور ستھرائی انسانی معاشرے میں بہت اہمیت کی حامل ہے، کیونکہ ایک خوشگوار اور صحت مند معاشرہ صحت مند افراد پر موقوف ہوتا ہے اور صحت اور تندرستی کی بقاء درحقیقت صفائی پر موقوف ہے، کیونکہ اگر انسانی جسم کو جراثیم سے پاک غذا اور ہوا (آکسیجن)  مہیا  ہو تو وہ ایک صحت مند فرد ہوتا ہے، لیکن اگر غذا یا ہوا صاف ستھری نہ ہو تو کبھی بھی خوشگوار اور صحت مند معاشرہ وجود میں نہیں آسکتا، بلکہ صفائی نہ ہونے سے مختلف قسم کے جراثیم پیدا ہوتے ہیں، جن سے معاشرے میں طرح طرح کی بیماریاں جنم لیتی ہیں، جو بعض اوقات متعدی ہونے کی وجہ سے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں، جس سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے، ان بیماریوں کے حوالے سے عالمی سطح پر مختلف ادارے اپنی رپورٹس  (جن کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں) شائع کرتے رہتے ہیں۔

 جبکہ اسلام ایسے معاشرے کو قطعاً پسند نہیں کرتا جو صفائی اور ستھرائی نہ ہونے کے باعث بیماریوں میں گِر چکا ہو، اس لیے قرآن وحدیث میں  طہارت اور نظافت دونوں کی بہت زیادہ  تاکید اور ترغیب دی گئی ہے، چنانچہ  ان  سے متعلق قرآن وسنت کی تعلیمات کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں:

 

 

 

۱۔ قرآن کی روشنی میں:

الف: طہارت  کا حکم:

شرعی نقطہٴ نظر سے طہارت دو قسم کی ہوتی ہے: ایک حکمی اور معنوی طہارت جو وضو اور غسل سے حاصل ہوتی ہے، دوسری طہارت حقیقیہ ہے جو ظاہری گندگی یعنی پیشاب اور پاخانہ وغیرہ سے اپنے جسم اور کپڑوں کو پاک کرنے سے حاصل ہوتی ہے، اسلام میں دونوں قسم کی طہارت کا حکم دیا گیا ہے چنانچہ پہلی قسم کی طہارت (حکمیہ) کے لیے اللہ تعالیٰ نے نماز ادا کرنے سے قبل ایمان والوں کو عام حالت میں وضو اور خاص حالت(جنابت) میں وضو کے ساتھ غسل کا  بھی حکم دیا ، چنانچہ قرآنِ مقدس میں ارشاد ہے:

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا} [المائدة: 6]

ترجمہ: " اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے چہرے، اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں بھی ٹخنوں تک دھو لیا کرو اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہوتو سارے جسم کو غسل کے ذریعہ اچھی طرح پاک کرو۔"(آسان ترجمۂ قرآن: المائدۃ:۶)

اس آیت مبارکہ کے اگلے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے پاکیزگی اور صفائی کی اہمیت کو مزید اجاگرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم حالتِ مرض یا سفر میں ہو اور پانی کا استعمال محال ہو تو ایسی صورت میں تیمم کر لیا کرو، اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص مجبوری کے پیشِ نظر پانی کے استعمال پر قادر نہ ہو یا  اس کے  پاس پانی موجود نہ ہو تو بھی ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، بلکہ ایسی صورت  میں مٹی کے استعمال کو ہی وضو اور غسل کے قائم مقام قرار دے دیا گیا۔

دوسری قسم کی طہارت یعنی طہارت حقیقیہ کا حکم اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت میں دیا:

{وَثِيَابَكَ فَطَهِّر} [المدثر: 4] "  اور( اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) آپ اپنے کپڑوں کو پاک رکھیے۔"

 

 

 

                                                                                                                                                                                                                        

ب:  نظافت  کی ترغیب:

قرآنِ مقدس میں اللہ تعالی نے نظافت یعنی نظافت اختیار کرنے والے لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

{لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُومَ فِيهِ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ } [التوبة: 108]

ترجمہ: " تحقیق وہ مسجد جس کی بنیاد تقوی پرر کھی گئی ہے وہ اس بات کی زیادہ حق دار ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں، اس میں ایسے لوگ(نماز پڑھتے) ہیں جو پاک صاف ہونے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پاک صاف لوگوں کو پسند کرتا ہے۔" (آسان ترجمۂ قرآن: التوبۃ:  ۱۰۸)

یہ آیتِ مبارکہ مسجدِ قبا میں نماز پڑھنے والوں کے بارے میں نازل ہوئی، اس مسجد  اور اہلِ مسجد کی فضیلت یہ بیان کی گئی کہ اس  مسجدمیں نماز پڑھنے والے پاکی اور صفائی کا زیادہ خیال رکھتے ہیں، مفسرینِ کرام رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ یہ لوگ قضائے حاجت سے فارغ ہونے کے بعد  پہلے ڈھیلے استعمال کرتے اور پھر پانی سے استنجا  کرتے تھے، اس لیے الله تعالیٰ ان کی تعریف  بیان فرمائی۔

ج: طہارت ونظافت دونوں کا حکم:

 اللہ تعالیٰ نے رشتۂ نکاح کی وجہ سے بیوی کے ساتھ صحبت کرنے کو حلال اور جائز قرار دیا، لیکن  طہارت اور نظافت کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کو پاکی کی حالت کے ساتھ مقید اور مشروط فرمایا اور حالتِ حیض میں مردوں کو بیویوں سے دور رہنے کا حکم دیا گیا، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

{وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ } [البقرة: 222]

ترجمہ: "اور لوگ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ وہ گندگی ہے، لہذا حیض کی حالت میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں اس وقت تک ان سے قربت یعنی جماع نہ کرو، ہاں جب وہ پاک ہو جائیں تو ان کے پاس ایسے طریقے سے جاؤ جس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا، بے شک اللہ تعالی ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی طرف کثرت سے رجوع کریں اور ان سے محبت کرتا ہے جو خوب پاک صاف رہیں۔ " (آسان ترجمۂ قرآن: البقرۃ: ۲۲۲)

 اس کے علاوہ اور بھی آیات ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کے ہاں صفائی اور پاکیزگی کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔    

2۔ احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں:

الف:طہارت کی فضیلت:

 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ايك حديث ميں پاكيزگی کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے، چنانچہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں یہ حدیث نقل کی ہے:

مسند أحمد (37/ 543) ط: مؤسسۃ الرسالة، بیروت:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الطهور شطر الإيمان"

ترجمہ:" رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے۔"

اس حدیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اور شیخ شعیب ارنؤوط رحمہ اللہ نے مسندِ احمد کی تخریج میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔اس حدیث میں صفائی کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے، علامہ طیبی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ یہ حدیث اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اہم اصول اور دین کا ایک اہم قاعدہ ہے، شطر کا معنی نصف ہے، یعنی پاکیزگی نصف ایمان ہے، [1] علامہ نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کا مطلب یہ بیان کیا  ہے کہ ایک قول کے مطابق طہارت ایمان کے اجر کا نصف ہے،[2]اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے ایک اہم حصہ یعنی عبادات میں بہت سے مقامات پر طہارت کو بطور شرط قرار دیا گیا ہے اور طہارت کے بغیر اس عبادت کو شریعت کی نظر میں غیرمعتبر اور کالعدم تصور کیا گیا ہے، جیسے تلاوتِ قرآن اور مسجد میں داخل ہونے کے لیے طہارتِ کبری (جنابت سے پاک ہونا) کو شرط قرار دیا گیا۔ جبکہ نماز اور قرآن کو چھونے کے لیے طہارتِ صغری اور کبری یعنی وضو اور غسل دونوں کو لازم قرار دیا گیا۔

نیز علمائے کرام رحمہم اللہ نے  طہارت کی چار اقسام بیان کی  ہیں:

پہلا مرتبہ ظاہری طہارت کا ہے، جس کا پیچھے ذکر ہوا، جیسے جسم اور کپڑوں کو ظاہری گندگیوں یعنی پیشاب، پاخانہ، گوبر اور خون وغیرہ سے پاک رکھنا ۔

 دوسرا مرتبہ اپنے اعضاء کو صغیرہ اور کبیرہ گناہوں  سے  دور رکھنے کا ہے، جیسے جھوٹ، غیبت، چغل خوری، زنا کاری اور چوری وغیرہ۔

تیسرا مرتبہ اپنے دل کو  روحانی بیماریوں جیسے حسد، بغض، دنیا کی بہت زیادہ  محبت اور کبر وغیرہ سے صاف کرنے کا ہے۔

چوتھا مرتبہ اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کے سوا ہر قسم کی محبت اور تعلق سے خالی کرنے کا ہے، البتہ جو محبت اور تعلق اللہ ہی کی رضا کے لیے ہو، وہ اس سے مانع نہیں، جیسے  استاذ اور طالب علم کا تعلق، شیخ اور مرید کا تعلق وغیرہ۔

شريعتِ مطہرہ میں طہارت کے ان تمام مراتب کے حصول کا حکم دیا گیا  ہے اور کامل انسان اسی وقت بنتا ہے جب ان تمام مراتب کو حاصل کر لیتا ہے،  انسان اللہ تعالیٰ کی بندگی کا صحیح حق بھی  اسی وقت ادا کر سکتا ہے،  جب وہ ظاہری اور باطنی اعتبار سے ہر قسم کی گندگیوں سے اپنے آپ کو  پاک کر لے اور اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کی محبت کے لیے ہی خاص کر لے۔

ب: نظافت کا حکم:

 ١۔ ایک حدیث میں حضور اکرم ﷺ نے پانچ چيزوں كو انسان کی فطرت میں سے قرار دیا، ان میں سے ہر چیز کا تعلق صفائی سے ہے:

             صحيح ابن حبان (12/ 293) مؤسسة الرسالة، بيروت:

عن أبي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «الفطرة خمس: تقليم الأظافر، وقص الشارب، والاستحداد، والختان، ونتف الإبط»

ترجمہ: "حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں: ناخن کاٹنا، مونچھیں کاٹنا، زیرناف بال صاف کرنا، ختنہ کرنا اور بغلوں سے بال نوچنا۔"

علامہ خطابی رحمہ اللہ نے فرمایا اس حدیث میں فطرت سے مراد سنت ہے، یعنی مذکورہ پانچ کام انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے اور بعض روایات میں فطرت کی جگہ سنت کے الفاظ آئے ہیں۔[3]  نیز محدثین اور فقہائے کرام رحمہم اللہ نے ان پانچ چیزوں کی اہمیت کے پیشِ نظران میں سے ہر ایک کے بارے میں مفصل احکام بیان فرمائے ہیں، جن کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔

۲۔ ایک روایت میں مسواک کی فضیلت بیان کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد  فرمایا

سنن الدارمی (ص: 228) ت: الغمری، دار البشائر ،بيروت:                

عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: السواك مطهرة للفم، مرضاة للرب۔

ترجمہ"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسواک منہ کی پاکیزگی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ ہے۔"

۳۔ ایک  اور روایت میں مسواک کی اہمیت ان الفاظ میں بیان فرمائی گئی:

صحيح البخاري (9/ 85) دار طوق النجاة:

عن عبد الرحمن، سمعت أبا هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «لولا أن أشق على أمتي لأمرتهم بالسواك»

ترجمہ: "  حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا خوف نہ ہوتا تو میں ان کو (ہر نماز کے ساتھ) مسواک کرنے کا حکم دیتا۔"

ج: طہارت اور نظافت دونوں کا حکم:

١۔ایک روایت میں حضور اکرم ﷺ نے جمعہ کے دن غسل کرنے کی خاص تاکید اور فضیلت بیان فرمائی ہے، چنانچہ بخاری شریف کی ایک حدیث میں ارشاد ہے:

           صحيح البخاري (2/ 4) دار طوق النجاة:

 قال طاوس: قلت لابن عباس: ذكروا أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «اغتسلوا يوم الجمعة واغسلوا رءوسكم، وإن لم تكونوا جنبا وأصيبوا من الطيب» قال ابن عباس: أما الغسل فنعم، وأما الطيب فلا أدري۔

ترجمہ: " امام طاؤوس رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا: جمعہ کے دن غسل کرو اور اپنے سروں کو دھوو، اگرچہ تم جنابت کی حالت میں نہ ہو اور خوشبو بھی لگاؤ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: غسل کے بارے میں حضور اکرمﷺ کا یہی فرمان ہے، باقی خوشبو کے بارے میں مجھے علم نہیں۔"

۲۔ ایک روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن غسل کرنے، اپنے آپ کو صاف کرنے، تیل اور خوشبو لگا کر جمعہ کی نماز ادا کرنے والے شخص کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

سنن الدارمي (ص: 385) ت: الغمری، دار البشائر ،بيروت:

 عن سلمان الفارسي صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم, أن نبي الله صلى الله عليه وسلم قال: من اغتسل يوم الجمعة فتطهر بما استطاع من طهر، ثم ادهن من دهنه، أو مس من طيب بيته، ثم راح فلم يفرق بين اثنين, وصلى ما كتب له، فإذا خرج الإمام أنصت، غفر له ما بينه وبين الجمعة الأخرى۔

ترجمہ: " حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس  شخص نے جمعہ کے دن  غسل کیا اور اپنی کوشش کے مطابق اپنے آپ کو پاک صاف کیا، پھر کوئی تیل استعمال کیا یا اپنے گھر میں موجود کوئی خوشبو لگائی، پھر جمعہ کی نماز کے لیے نکلا اور دو آدمیوں کے درمیان گھس کر نہ بیٹھا، اورجب امام (خطبہ کے لیے) نکلا تو خاموش رہا اور فرض نماز ادا کی تو اللہ پاک ایسے شخص کے اس جمعہ سے اگلے جمعہ تمام(صغیرہ) گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔"

۳۔ سات دنوں میں سے کسی ایک دن غسل کرنے کو شریعت میں ضروری قرار دیا گیا ہے، چنانچہ بخاری شریف کی حدیث ہے:

صحيح مسلم (2/ 582) دار إحياء التراث العربي – بيروت:

عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «حق لله على كل مسلم أن يغتسل في كل سبعة أيام، يغسل رأسه وجسده»

ترجمہ: " حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضوراکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر مسلمان پر ہر سات دن میں (ایک مرتبہ) اس طرح غسل کرنا اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ وہ اس میں اپنے سر اور اپنے پورے جسم کو دھوئے۔"

پیچھے ذکرکردہ آیات اور احادیثِ مبارکہ سے   اندازہ لگایا جا سکتا  ہے کہ اسلام میں طہارت اور صفائی کی کس قدر اہمیت ہے، لہذا ہر شخص کو طہارت اور نظافت کا خیال رکھنا چاہیے۔

اسلام میں ماحول كو صاف ستھرا ركھنے كا حكم:

           جس طرح اسلام ایک فرد کو پاکیزگی اور صفائی کی تعلیم دیتا ہے اسی طرح اسلام اپنے ماحول اور معاشرے کو بھی صاف ستھرا رکھنے کی نہ صرف ترغیب ، بلکہ اس کا حکم دیتا  ہے، چنانچہ ماحول کو صاف ستھرا رکھنے سےمتعلق  چند  احادیث ملاحظہ فرمائیں:

١۔ ايك روايت ميں حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا:

سنن ابن ماجه (1/ 124) دار إحياء الكتب العربية، بیروت:

عن جابر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه «نهى عن أن يبال في الماء الراكد»

ترجمہ: " حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا۔"

پانی سے انسان اور جانور دونوں قسم کی مخلوق فائدہ اٹھاتی ہے، اس لیے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کھڑے پانی میں کوئی ایسی نجس یا گندی چیز نہ ڈالی جائے جس سے وہ پانی استعمال کے قابل نہ رہے، اور اس کی وجہ سے دوسرے انسانوں کو تکلیف اٹھانی پڑے۔

۲۔   دوسری حدیث میں ماحول کو آلودگی سے بچانے کے لیے تین جگہوں پر پیشاب کرنے سے منع فرمایا گیا:

سنن أبي داود ت الأرنؤوط (1/ 21) دار الرسالة العالمية، بیروت:

عن معاذ بن جبل، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "اتقوا الملاعن الثلاثة: البراز في الموارد، وقارعة الطريق، والظل۔

ترجمہ: "حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ  عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لعنت  کا باعث بننے والی تین چیزوں سے بچو: انسانوں کی آمدو رفت کی جگہ پر، راستے کے درمیان میں اور سائے میں  پیشاب  پاخانہ کرنے سے۔"

 اسی حدیث کے پیشِ نظر فقہائے کرام رحمہم اللہ نے ہر ایسی جگہ پر پیشاب کرنے سے منع فرمایا جہاں پر پیشاب کرنے سے عام انسانوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑے۔

۳۔ راستے کو گندگی  اور تکلیف دہ چیز سے بچانے کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

          صحيح البخاري (3/ 133) دار طوق النجاة:

 عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم: «إماطة الأذى عن الطريق صدقة»

ترجمہ: " حضرت ابو ہریرة رضی اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا صدقہ ہے۔"

مذکورہ حدیث میں تکلیف دہ چیز میں ہر وہ چیز شامل ہے جس سے لوگوں کو ظاہری طور پر جسمانی تکلیف پہنچے، جیسے اینٹ اور پتھر وغیرہ یا لوگ ذہنی طور پر اس چیز سے نفرت کریں، جیسے بدبودار چیز راستے  پر پھینکنا وغیرہ۔

۴۔ ایک  حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے پیاز کھا کر آنے والے شخص کو مسجد میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا:

مسند أحمد ط الرسالة (23/ 259) مؤسسة الرسالة، بيروت:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من أكل من هذه الشجرة المنتنة فلا يقربن مسجدنا، فإن الملائكة تتأذى مما يتأذى منه الإنس۔"

ترجمہ: " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص  یہ بدبودار درخت یعنی پیاز کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے، کیونکہ ملائکہ کو ہر اس چیز سے تکلیف ہوتی ہے جس سے انسانوں کو تکلیف ہوتی ہے۔"

 مذکورہ بالا حدیث میں صرف مسجد ہی کی ممانعت نہیں، بلکہ ہر ایسی جگہ جہاں لوگوں کا کچھ مجمع موجود ہو  وہاں بھی اس طرح کی چیز کھا کر جانا منع ہے۔اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آئی  کہ  اگر كوئی فرد نظافت کاخیال نہ رکھتے ہوئے دوسرے لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بن رہا ہو تو اس کولوگوں کے اجتماعات میں شرکت سے روکا جا سکتا ہے، اگرچہ وہ نماز ادا کرنے کے لیے جماعت میں شرکت ہی کیوں نہ ہو، جسے اکثر فقہائے کرام رحمہم اللہ نے واجب قرار دیا ہے۔

حاصلِ بحث:

معاشرے میں رہتے ہوئے ہرانسان اور خاص طورپر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے تین چیزوں میں خاص طور پر پاكيزگی، صفائی اور ستھرائی کا خیال رکھے:

الف: سب سے پہلے انسان اپنی ذات اور اپنے کپڑوں وغیرہ کو صاف رکھے، جس میں درج ذیل چیزوں کا اہتمام کرے:

  1. وضو کرتے وقت مسواک اور ہو سکے تو دن میں ایک آدھ بار ٹوتھ پیسٹ بھی استعمال کیا جائے،  نیز روزانہ یا کم از کم دو تین دن کے بعد غسل کیا جائے۔
  2.  ہر ہفتے یا کم از کم چالیس دن گزرنے سے پہلے پہلے جسم پر موجود زائد بالوں کی صفائی  کی جائے، ڈاڑھی اور سر کے بالوں کو بھی وقتا فوقتاً درست رکھنے کا اہتمام کیا جائے اور تیل لگانے کی بھی عادت ڈالی جائے۔
  3. سنت پر عمل کرتے ہوئے ہفتہ یا پندرہ دن کے بعد ناخن کاٹنے کا  خاص اہتمام کیا جائے، کیونکہ ناخن بڑھنے پر ان میں مٹی اور میل جم جاتی ہے، جس سے بیماریاں پھیلتی ہیں۔
  4.  صاف ستھرے کپڑے پہننے چاہیئں، خصوصاً جب کسی مجلس میں شرکت یا نماز کے لیے جانا ہو تو صاف دھلے ہوئے کپڑے اور خوشبو کا خاص طور پر اہتمام کرنا چاہیے، تاکہ اس کی وجہ سے کسی دوسرے شخص کو تکلیف نہ ہو۔

ب:اپنے گھراور گھر کےاردگرد كے ماحول كو صاف ستھرا ركھا جائے، اس سلسلے میں درج ذیل باتوں کا اہتمام کرنا چاہیے:

  1. سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے گھر کے سامنے نہ پھینکیں جائیں، بلکہ ڈسٹ بین میں ڈال کر کچرا کنڈی  تک  پہچانے کی عادت ڈالی جائے۔
  2. گھر کی صفائی اور  گھر کے سامنے کے حصہ کی صفائی کا بھی روزانہ یا کم از کم ہر دوسرے دن اہتمام کیا جائے، جس کے لیے بہتر یہ ہے کہ خود یہ کام کریں، تاکہ پورے معاشرے کا مزاج بنے، خود نہ کرسکتے ہوں تو  خاکروب کو اجرت پر اس کام کے لیے مقرر کر لیا جائے۔
  3. اگر جانور مثلا: مرغیاں اور بکریاں وغیرہ پالنے کی عادت ہو تو بہتر یہ ہے کہ ان کو گھراور سوسائٹی میں رکھنے کی بجائے، آبادی سے باہر کسی جگہ رکھنے کا اہتمام کیا جائے، کیونکہ آبادی میں خصوصاً شہری علاقوں میں جانوروں کے گوبر اور پیشاب وغیرہ کی وجہ سے بدبو پھیلتی ہے، جس سے آبادی کا ماحول اور فضا خراب ہوتی ہے اورشہروں میں آبادی کی کثرت کی وجہ سے بیماریاں پھیلنے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔

ج: اپنے  شہر اور وطن کے مجموعی  ماحول اور معاشرے کو بھی صاف رکھنے کی کوشش کی جائے، خصوصاً حکومتی اور سرکاری جگہوں میں صفائی اور ستھرائی کا اہتمام کرنا بھی از حد ضروری ہے، کیونکہ یہ ہم سب کا وطن ہے، اس کی صفائی ستھرائی کا اہتمام کرنا اور اس کو کوڑا کرکٹ و گندگی سے بچانا ہر شخص کی ذمہ داری ہے، لہذا ہر شخص کو چاہیے اپنے وطن کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کرے اور اس سلسلے میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھے:

  1. اپنے دفتر ميں صفائی کا اہتمام رکھیں، ردی کاغذات اور پھلوں کو چھلکوں وغیرہ کو نیچے نہ پھینکا جائے، بلکہ دونوں کے لیے علیحدہ علیحدہ ڈسٹ بین رکھی جائیں، ایک میں ردی کاغذ اور دوسری میں چھلکے وغیرہ ڈالنے چاہئیں۔
  2. دفترکے کچن اور اس میں موجود برتنوں کو روزانہ دھونے کا اہتمام کرنا چاہیے، ان دھلے برتنوں سے جراثیم اور بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
  3. واش روم کی صفائی کا خاص طور پر خیال رکھا جائے۔  
  4. دفتر کی کوئی بھی چیز استعمال کرنے کے بعد اس کو اپنی جگہ پر ترتیب سے رکھا جائے۔
  5. کبھی کبھار استعمال میں آنے والی اور غیر ضروری اشیاء کے لیے علیحدہ اسٹور بنایا جائے اور ان چیزوں کو اسٹور میں رکھا جائے اور ضرورت کے وقت استعمال کرکے دوبارہ وہیں رکھنے کا اہتمام کیا جائے۔
  6. ایسی چیزیں جو استعمال کے قابل نہ ہوں ان کے بارے میں متعلقہ افسران کو اطلاع کریں، تاکہ ایسی اشیاء کو بیچ کر ضرورت کے مطابق  نئی چیزیں خریدی جائیں  یا اگر ضرورت نہ ہو تو حاصل شدہ رقم حکومتی خزانہ میں جمع کروائی جا سکے۔
  7. سڑکوں، پارکوں اور سیروتفریح کی دیگر جگہوں پر بھی ادھر ادھر کچرا وغیرہ نہ پھینکا جائے، بلکہ کوڑا دان میں پھینکنے کا اہتمام کیا جائے۔
  8. اپنی ذاتی گاڑی ہو یا دفترکی، اس کی مرمت (Repairing) كا بہرصورت اہتمام کریں، گاڑیوں کے دھواں چھوڑنے کی وجہ سے  ماحول میں سب سے زیادہ آلودگی پیدا ہوتی ہے، لہذا اگر گاڑی دھواں چھوڑنے لگے تو  اس کی مرمت کروانے کا  فوری اہتمام کرنا چاہیے۔

 


[1] شرح المشكاة للطيبي (3/ 739) مكتبة نزار مصطفى الباز،  الرياض:

 وقال: هذا حديث عظيم، وأصل من أصول الإسلام، مشتمل علي مهمات قواعد الدين. وأصل الشطر النصف، قيل: معنى ((شطر الإيمان)) أن الأجر في الوضوء ينتهي إلي نصف أجر الإيمان۔

[2] شرح النووي على مسلم (3/ 100) دار إحياء التراث العربي – بيروت:

واختلف في معنى قوله صلى الله عليه وسلم الطهور شطر الإيمان فقيل معناه أن الأجر فيه ينتهي تضعيفه إلى نصف أجر الإيمان۔

[3] فتح المنعم شرح صحيح مسلم (2/ 167) ط: دار الشروق:

قال الخطابي: ذهب العلماء إلى أن المراد بالفطرة هنا السنة، وكذا قال غيره، قالوا: والمعنى أنها من سنن الأنبياء، ويؤيده ما جاء في بعض الروايات "من السنة قص الشارب ونتف الإبط وتقليم الأظافر".

حوالہ جات
٫٫٫

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

16/ربیع الثانی 1441ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب