محمد رشید نے ایک مال خریدا ہے۔ جس کے پاس رقم کم ہے۔ دال مونگ ہمارے سامنے ہے، جس کی قیمت 1800000روپے ہے۔ اس کی قیمت 18 لاکھ ،میں" محمد حامد" ادا کروں گا۔ جس کو فروخت کرنے کے بعد محمد رشید مجھے محمد حامد کو ایک فیصد کمیشن دے گا۔ اس کا جواب فرمادیں۔ اگر جائز نہیں ہے تو جائز کرنے کی کوئی صورت فرمادیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
یہ صورت جائز نہیں ہے۔ کیونکہ یہ قرض کا معاملہ ہے،اس پر نفع لینا جائز نہیں۔ اس میں آپ محمد حامد، محمد رشید کے ذمہ واجب الاداء رقم 1800000 روپے دے کر، اس پر ایک فیصد نفع لے رہے ہیں جوکہ حدیث " کل قرض جر نفعا فھو ربا " کے تحت ناجائز ہے۔
اس کی جائز صورت یہ ہے کہ آپ خود یا محمد رشید کو وکیل بناکر پہلے خود اپنے لیے منڈی سے یہ مال خریدیں اور قیمت کی ادائیگی کردیں اور اس مال پر اپنا قبضہ بھی کرلیں پھرقبضہ کرنے کے بعد یہ مال محمد رشید کو کچھ نفع رکھ کر فروخت کردیں۔اس طرح آپ کو نفع بھی مل جائے گا اور محمد رشید کو مال بھی مل جائے گا۔البتہ اس میں یہ دھیان رکھا جائے کہ یہاں دو معاملے ہوں گے۔ ایک منڈی سے غلہ خریدنے کا معاملہ اور دوسرا محمد رشید کو بیچنے کا معاملہ۔ یہ دونوں معاملے بالکل الگ الگ ہونے چاہئیں۔ایک معاملے میں دوسرے کی شرط نہ لگی ہو کہ میں یہ خرید رہا ہوں اس شرط پر کہ تم اس کو مجھ سے خریدو گے۔ہاں پہلا معاملہ کرنے سے پہلے دوسری خریداری کا وعدہ کیا جاسکتاہے۔
اگر یہ مال خرید لیا گیا ہے اورابھی تک قیمت ادا نہیں کی(جیسا کہ سوال سے ظاہر ہے) تو محمد رشید کے پاس جتنی رقم کم ہے، اتنی رقم آپ محمد رشید کو دے کر اس مال میں شرکت قائم کرلیں۔ اس طرح محمد رشید کے پاس مال کی پوری قیمت جمع ہوجائے گی۔ محمد رشید یہ رقم بیچنے والے کو دے دے۔ پھر جب یہ مال فروخت ہوگا تو جتنا نفع ہوگا، اس میں سے آپ کی شرکت کے بقدر آپ کو نفع ملے گا۔مثال کے طور پر اگر آپ نے آدھی رقم دے کر شرکت قائم کی تھی تو آدھا نفع آپ کو ملے گا۔
حوالہ جات
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (13 / 73):
ثم حرم الربا بعد ذلك وحرم كل قرض جر منفعة.
بدائع الصنائع (5 / 220):
المرابحة بيع بالثمن الأول مع زيادة ربح۔
مجلة الأحكام العدلية (1 / 206):
(المادة 1073) تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم.