میت کمیٹی جائز ہے یا ناجائز؟ ہماری اس کمیٹی کے جائز ہونے کے لیے کوئی شرط ہے جس سے اس کے باقی رہنے کی گنجائش نکل سکے؟
ہمارے اکثر ممبران کہتے ہیں کہ ہم اس کو خدمت کی نیت سے چلاتے ہیں، اس کو عبادت نہیں سمجھتے۔ اس نیت سے کمیٹی جائز ہوجاتی ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
میت کمیٹی کی مروجہ صورت میں عموماً درج ذیل مفاسد پائے جاتے ہیں:
1. کمیٹی کو دئیے گئے چندے کی رقم شرعاً چندہ دینے والے ہی کی ملکیت ہوتی ہے اور کمیٹی چھوڑ دینے کی صورت میں بھی اسی کی ملکیت میں ہی رہتی ہے؛ لہٰذا کمیٹی چھوڑ دینے کی صورت میں اس کی جمع شدہ رقم اسے واپس ملنی چاہیے، جبکہ عموماً مروجہ کمیٹیوں میں اس کی جمع شدہ رقم اسے واپس نہیں دی جاتی۔
2. جب رقم چندہ دہندہ کی ملکیت سے نہیں نکلتی تو اس پر شرعاً میراث اور زکوٰۃ وغیرہ کے احکام بھی لاگو ہوتے ہیں، جبکہ ان امور کی انجام دہی کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔
3. میت کے گھر میں عموماً کھانے کی نشست لگائی جاتی ہے، حالانکہ میت کے گھر میں دعوتی انداز میں کھانے کا انتظام کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
چنانچہ مذکورہ امور سے اجتناب کرتے ہوئے اگر یہ بات طے کردی جائے کہ کمیٹی کو دیئے گئے چندے کی حیثیت صدقۂ نافلہ کی ہوگی اور اس کو مخصوص مقاصد کے لیے کمیٹی کے شرکاء پر خرچ کیا جائے گا، نیز انتظامیہ کی حیثیت وکیل کی سی ہوگی جس کا کام شرکاء کے لیے صدقہ پر قبضہ کرنا ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ میت کے گھر میں کھانے کا انتظام صرف ابتدائی دنوں میں صرف میت کے اہلِ خانہ اور دور سے آئے ہوئے مہمانوں کے لیے ہو نہ کہ اہلِ محلہ کے لیے؛
ایسی صورت میں کمیٹی قائم کرکے اس کے لیے چندہ وصول کرنا درست ہوگا اور چندہ دہندہ کے لیے اس رقم میں میراث اور زکوٰۃ وغیرہ کے احکام بھی لاگو نہیں ہوں گے۔
اوپر کمیٹی کی جائز صورت ذکر کردی گئی
ہے۔
نیز خدمت بھی عبادت (ثواب کا کام) ہے، اگر اس کو بھی عبادت سمجھ کر کیا جائے تو ان شاء اللہ ثواب ملے گا۔
حوالہ جات
صحيح البخاري (1/ 6)
عمر بن الخطاب رضي الله عنه على المنبر قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو إلى امرأة ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه۔