03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میت کمیٹی کا حکم
62590 وقف کے مسائلوقف کے متفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ میت کمیٹی جائز ہے یا ناجائز؟ ہماری اس کمیٹی کے جائز ہونے کے لیے کوئی شرط ہے جس سے اس کے باقی رہنے کی گنجائش نکل سکے؟ اگر کوئی گنجائش نہیں تو کوئی متبادل طریقہ ہے جس سے ہم ایک دوسرے کی خدمت کرسکیں اور ثواب بھی ملے؟ اگر کمیٹی کے جائز ہونے کی کوئی گنجائش نہیں تو اس صورت میں اکثر ممبران کمیٹی ختم کرنے کو تیار نہیں۔ اس صورت میں کمیٹی انتظامیہ کے لیے کیا حکم ہے؟ وہ کیا کریں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

میت کمیٹی کی مروجہ صورت میں عموماً درج ذیل مفاسد پائے جاتے ہیں: 1.کمیٹی کو دئیے گئے چندے کی رقم شرعاً چندہ دینے والے ہی کی ملکیت ہوتی ہے اور کمیٹی چھوڑ دینے کی صورت میں بھی اسی کی ملکیت میں ہی رہتی ہے؛ لہٰذا کمیٹی چھوڑ دینے کی صورت میں اس کی جمع شدہ رقم اسے واپس ملنی چاہیے، جبکہ عموماً مروجہ کمیٹیوں میں اس کی جمع شدہ رقم اسے واپس نہیں دی جاتی۔ 2.جب رقم چندہ دہندہ کی ملکیت سے نہیں نکلتی تو اس پر شرعاً میراث اور زکوٰۃ وغیرہ کے احکام بھی لاگو ہوتے ہیں، جبکہ ان امور کی انجام دہی کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔ 3. میت کے گھر میں عموماً کھانے کی نشست لگائی جاتی ہے، حالانکہ میت کے گھر میں دعوتی انداز میں کھانے کا انتظام کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ مذکورہ امور سے اجتناب کرتے ہوئے اگر یہ بات طے کردی جائے کہ کمیٹی کو دیئے گئے چندے کی حیثیت صدقۂ نافلہ کی ہوگی اور اس کو مخصوص مقاصد کے لیے کمیٹی کے شرکاء پر خرچ کیا جائے گا، نیز انتظامیہ کی حیثیت وکیل کی سی ہوگی جس کا کام شرکاء کے لیے صدقہ پر قبضہ کرنا ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ میت کے گھر میں کھانے کا انتظام صرف ابتدائی دنوں میں صرف میت کے اہلِ خانہ اور دور سے آئے ہوئے مہمانوں کے لیے ہو نہ کہ اہلِ محلہ کے لیے؛ ایسی صورت میں کمیٹی قائم کرکے اس کے لیے چندہ وصول کرنا درست ہوگا اور چندہ دہندہ کے لیے اس رقم میں میراث اور زکوٰۃ وغیرہ کے احکام بھی لاگو نہیں ہوں گے۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 240) مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت: وقال أيضا: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

فیصل احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب