سوال: میں نے ایک فلیٹ قسطوں پر اپنے نام بک کروایا ہے۔ پانچ لاکھ ایڈوانس دیا ہے اور بیس ہزار کی قسط ہے۔فلیٹ ابھی تک بائع کے قبضے میں ہے۔ میرے ایک عزیز اس فلیٹ کو مجھ سے خریدنا چاہ رہے ہیں۔ کیا میں اس فلیٹ کو قسطوں کی ادائیگی سے پہلے انہیں نفع پر فروخت کرسکتا ہوں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
فلیٹ کے بک کروانے کی تین صورتیں ہیں:
1- ابھی فلیٹ بنا ہی نہ ہو جیسا کہ آج کل عموماً ہوتا ہے کہ لوگوں سے پہلے ہی پیسے وصول کر لیے جاتے ہیں، پھر فلیٹ بنائے جاتے ہیں، اس کو شرعی اصطلاح میں استصناع کہا جاتا ہے (یعنی چیز بنوانے کا عقد کرنا)، اس صورت میں فلیٹ بن جانے کے بعد اس پر قبضہ کرنے کے بعد اس کو آگے فروخت کرنا جائز ہے اس سے پہلے نہیں۔
2- فلیٹ اس طرح بک کروایا جائے کہ صرف خریدنے کا وعدہ ہو خریدوفروخت کا معاملہ نہ ہو، اس صورت میں خریدار نے جو رقم فروخت کنندہ کو دی ہے وہ بیعانہ کے طور پر دی ہو، تو ایسی صورت میں چونکہ فروخت کنندہ اور خریدار کے بیچ عقد نہیں ہوا، صرف بیع کا وعدہ ہو ا ہے اس لئےاس قسم کےفلیٹ کو آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے ۔
3- فلیٹ اس طرح بک کرایا جائے کہ بک کراتے وقت یا بعد میں ایسے وقت بیع کا معاملہ کیا جائے کہ فلیٹ موجود تو ہو، لیکن ابھی فروخت کنندہ ہی کے قبضہ میں ہو ،اس صورت میں اگر فلیٹ متعین ہو، تو مکمل قسطیں ادا کرنےسے پہلےبھی اس کو آگے فروخت کرنا جائز ہے ،لہٰذا اگر آپ نے اس صورت کے مطابق معاملہ کیا ہے تو اس فلیٹ کو نفع کیساتھ آگے فروخت کرسکتے ہیں۔
لیکن اگر ابھی تک فلیٹ متعین نہیں ،تو اسے نفع کے ساتھ آگے بیچنا جائز نہیں۔
حوالہ جات
ولو لم يقر بالاستحقاق ولكن وعد له دفع الثمن لا يجبر عليه فمجرد الوعد لا يلزم شيئاً، وإذا رجع المشتري على بائعه وصالحه البائع على شيء قليل كان للبائع أن يرجع على بائعه بجميع الثمن.
(المحيط البرهاني:9/ 62)
وفيه عن العمادية لو رآه سجل الاستحقاق فأقر بالاستحقاق وقبل السجل ووعد أن يدفع ثمنه يجبر عليه، ولو لم يقر بالاستحقاق ولكنه وعد أن يدفع ثمنه لا يجبر عليه وبمجرد الوعد لا يلزم بشيء انتهى. (مجمع الضمانات: 227)
ولو استغل الدار أو الأرض من غير نقص دخل فيها جاز له أن يبيعها مرابحة من غير بيان ولو اشترى نسيئة لم يبعه مرابحة حتى يبين وهذا في الأجل المشروط فإن لم يكن مشروطا إلا أنه متعارف مرسوم فيما بين التجار مثل البياع يبيع الشيء ولا يطالبه بالثمن جملة بل يأخذه منه منجما في كل شهر أو كل عشرة أيام فأكثر المشايخ على أنه ليس عليه أن يبين ثم في الأجل المشروط إذا باعه من غير بيان وعلم به المشتري فپله الخيار إن شاء رضي به أو أمسكه وإن شاء رده كذا في المحيط فإن استهلك المشتري المبيع أو هلك فعلم بالأجل لزم البيع كذا في النهر الفائق۔ (الفتاوى الهندية:3/ 163)
قلت: ووجه كون الموضع مجهولا أنه لم يبين أنه من مقدم الدار، أو من مؤخرها، وجوانبها تتفاوت قيمة فكان المعقود عليه مجهولا جهالة مفضية إلى النزاع، فيفسد كبيع بيت من بيوت الدار كذا في الكافي عزمية. (حاشية ابن عابدين:4/ 545)
ثم في الصحيح أن الاستصناع يجوز بيعا وقال الحاكم الشهيد: إنه وعد وليس ببيع وإنما ينعقد بيعا إذا أتى به مفروغا بالتعاطي (تبيين الحقائق: 4/ 123)
واللہ سبحانہ و تعالی اعلم