021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں ہبہ کردہ مکان میراث میں تقسیم ہوگا؟
67095میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

زندگی میں مکان کسی ایک بیٹے کے نام کرنے سے آیا یہ مکان بعد از موت میراث میں تقسیم ہوگا یا جس کے نام کردیااسی کا ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں بلامعاوضہ مکان بیٹے کے نام کرنے کے بجائے اگر مکان اس کو کچھ معمولی قیمت کے بدلے فروخت کیا جائے تو یہ صورت عمل کے حوالے سے زیادہ آسان ہے،نیز اس صورت میں بعد میں والد اپنی صوابدید سے رقم معاف بھی کرسکتا ہے،تاہم اگر بلامعاوضہ یہ مکان بیٹے کے نام کرنا ہوتو یہ واضح رہے کہ اپنی زندگی میں اولاد میں سے کسی کو مکان دینا ہدیہ ہے،اور ہدیہ  میں محض کاغذات نام پر کرا دینے سے ملکیت نہیں آتی، بلکہ اس کےلیے باقاعدہ مکان حوالہ کرنا  بھی ضروری ہے، اس طور پر  کہ اس مکان سےاپنے تصرفات ختم کرکے ، اس کے تمام حقوق اور سارے متعلقہ امور سے دستبردار ہوکربیٹے کے حوالے کردے،جس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ والد اپنا ذاتی سامان وہاں سے نکا ل کر ایک دفعہ مکمل طور پر بیٹے کو قبضہ دیدے ،بعد میں وہ سامان واپس بھی لاسکتے ہیں،اگر سامان کی منتقلی مشکل ہوتو پھر والد وہ سامان بیٹے کو فروخت کردے ،اگرچہ کم قیمت مقرر کی جائے ،بعد میں وہ پیسے معاف بھی کیے جاسکتے ہیں،مکان ہدیہ کرنے اور قبضہ مکمل ہونے کے بعد بیٹا والد کو وہ سامان استعمال کرنے کی اجازت دیدے،تیسری صورت یہ بھی ممکن ہے کہ والد مکان ہدیہ کرنے سے پہلے اپنا ذاتی سامان بیٹے کو عاریۃ دیدےکہ بیٹا اس میں ہر طرح سے تصرف کرسکتاہواور پھر مکان ہدیہ کرلے، اگران طریقوں میں سے کسی پر عمل ہوتو مکان بیٹے کی ملکیت میں آجائے گا،اور پھر والد کے فوت ہونے کے بعد میراث میں تقسیم نہیں ہوگا،اگر اس کے مطابق عمل نہیں ہواتو فقط کاغذات میں نام کروانے سے بیٹے کی ملکیت نہیں آئے گی،اور پھر والد کے فوت ہونے کے بعد وہ مکان میراث کا حصہ ہوگا ،جو تمام ورثہ کے درمیان وراثت کے طور پرشریعت کے مقرر کردہ حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

حوالہ جات
وفي الدرالمختار(6/259):
 (وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والاصل أن
الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلا لا، فلو وهب جرابا فيه طعام الواهب أو دارا فيها متاعه، أو دابة عليها سرجه وسلمها كذلك لا تصح وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط لأن كلا منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به لأن شغله بغير ملك واهبه لا يمنع تمامها كرهن وصدقة لأن القبض شرط تمامها
فقہ البیوع(1/400):
"ویمکن أن یخرّج علی ذلک ما یقع کثیراًمن أنّ الأب یہب داراً لإبنہ ، وھو ساکن معہ فیہا بمتاعہ.فلو أذن الأب إبنہ بقبض متاعہ ودیعۃً ، وسّجل الدار باسم ابنہ بعد الہبۃ ، وصرّح بأنّ کونہ یسکن الدار بعد ذلک موقوف علی إذن الإبن علی سبیل العاریہ، وقبِل ذلک الإبن ، ینبغی أن یعتبر قبضاً کافیاً لتمام الہبۃ، واللہ سبحانہ اعلم."
 فقہ البیوع1/406:
"فالذی یظھر انہ لا ینبغی ان یعتبر التسجیل قبضاً ناقلاً للضمان فی الفقہ الاسلامی، الا اذا صاحبتہ التخلیۃ بالمعنی الذی ذکرناہ فیما سبق

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

29/محرم1441ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے