021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ڈی،ایس،پی فنڈ کا حکم
67255سود اور جوے کے مسائلمختلف بینکوں اور جدید مالیاتی اداروں کے سود سے متعلق مسائل کا بیان

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں

ہر سرکاری ملازم کی تنخواہ سے ہر ماہ حکومت تنخواہ کا کچھ حصہ وضع کرتی ہے،سال کے بعد اس رقم پر معین شرح کے مطابق کچھ خاص رقم کا اضافہ لگتا ہے،اختتامِ ملازمت(ریٹائرمنٹ)پر حکومت یہ ساری جمعہ شدہ رقم بمع معین اضافی رقم کے ملازم کو اداکردیتی ہے،قبل از اختتام ملازمت بھی جب چاہے ملازم مذکورہ جمع شدہ رقم نکلوا سکتاہے،نیز جب بھی حکومت چاہے، اس شرح میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے ، یہ رقم ڈی ایس پی فنڈیا پراویڈنٹ فنڈ کہلاتی ہے،یاد رہے سال کے اختتام پر حکومت کی طرف سے وضع شدہ رقم کو گھٹا بھی سکتے ہیں ،بڑھا بھی سکتے ہیں،محض تشبہ بالربا کی بناء پر حکم دینے کے بجائے مذکورہ معاملہ کی حقیقی صورت پر حکم تحریر فرمائیں۔جزاکم اللہ خیرا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سرکاری ملازمین کی تنخواہ سےرقم کاٹ کر سال کے بعد یا ملازمت ختم ہونے کے بعد اضافی رقم دیناسود نہیں ،بلکہ  یہ بھی ملازمین کی تنخواہ  کا حصہ ہے،اس طرح کہ تنخواہ کا کچھ حصہ ملازمین کو ہر ماہ ادا کرنے کے بجائے روک لیا جاتاہے اور ریٹائرڈ ہونے تک مؤخر کیاجاتا ہے اور اس تاخیر کی بناء پراجرت بڑھا کر دی جاتی ہے،لہذااس کا لینا اور استعمال میں لانا جائز ہے۔البتہ اپنے اختیار سے اگر رقم کٹوائی جائے تو اس پر جو اضافی رقم حکومت کی طرف سے دی جاتی ہے،گو وہ  بھی سود نہیں،لیکن کچھ معمولی سی مشابہت سود کے ساتھ پائی جاتی ہے،اس لیے اس سے اجتناب بہتر ہے۔اس صورت میں حقیقی صورت میں ہی سود کے ساتھ کچھ مشابہت پائی جاتی ہے،اس لیے اس کی بناء پر حکم لگے گا،اس سے صرف نظر کر کے کیسے حکم لگایاجاسکتا ہے؟

 مذکورہ بالا حکم اس صورت میں ہے جب کٹوتی والی رقم اس ملازم کی تحویل میں نہ آئی ہو۔

اگر یہ رقم ملازم کی تحویل میں آکر پھر کسی شخص یا ادارے وغیرہ کے ذریعہ کاروبار میں لگائی   گئی ہویا ملازمین کے بنائے ہوئے کسی ٹرسٹ یا ادارے  نے قبضہ کرکے کاروبار میں لگائی ہوتو پھر کاروبار کی نوعیت کے اعتبار سے اس کا حکم ہوگا،اگر کسی جائز کاروباریا مستند غیر سودی بینک میں رکھ کروہ نفع حاصل کیا گیا ہوتو پھر اسے وصول کرنا جائز ہےاور کسی ناجائز کاروبار یا کسی سودی بینک سے حاصل کیا گیا ہوتو اس صورت میں ملازم کے لیے یہ اضافی رقم وصول کرنا جائز نہیں،فقط اپنی اصل رقم وصول کرسکتا ہے۔

حوالہ جات
وفي البحر(7/511):
( قوله بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن ) يعني لا يملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة والمراد أنه لا يستحقها المؤجر إلا بذلك۔

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

10/صفر1441ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے