021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اجتماعی عطیات کے استعمال کاحکم
67900وکیل بنانے کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

ہم دو تین دوستوں نے "شعبہ تعمیر معاشرہ"کے نام سے ماہانہ کچھ رقم جمع کرنا شروع کر رکھی ہےجس ميں ہماری نیتیں درج ذیل ہیں اور طریقہ کاربھی ۔ان میں جو نیت یا مصرف اور طریقہ کار ناجائز ہے ،اس کی نشاندہی بھی فرمادیں اور صحیح طریقہ بھی ارشاد فرمادیں تاکہ ہم صحیح سمت میں چلتے رہیں؟

         ہماری نیتیں اورعزائم:

  1. ہم اہل السنۃ والجماعت (دیوبند)کے عقائد ونظریات اورشرعی مسائل کی اشاعت اور تبلیغ میں علمی کام میں تعاون کریں گےمثلا:کوئی پمفلٹ یا کتاب چھپوا کر تقسیم کر دیں گے،خصوصاہمارے وہ علمائے کرام جنہوں نے کوئی علمی کتاب تصنیف کر رکھی ہے،چھپوانے کے لیے رقم نہیں ہے تو ہم تعاون کر دیں گے تاکہ علمائے کرام کی علمی خدمت لوگوں کے سامنے آئے اور علمائے کرام کو مزید کام کرنے میں آسانی ہو۔
  2. کسی مدرسے کے طالب علم کو،دار الافتاء کی لائبریری کو،کسی غریب عالم ومفتی کو بقدرِحیثیت ان کی ضرورت کی فقط کتابیں خرید کر دیں گے،کچھ علماء وطلباء سے رقم بالکل نہیں لیں گے،کسی سے اتنی ہی رقم جو کتاب کے خریدنے میں لگی ہے دو یا تین قسطوں میں لے لیں گےاور تعمیر معاشرہ میں ڈال دیں گے،کسی سے آدھی رقم لیں گے۔
  3. کتب احادیث وفقہ اور دیگر وہ کتابیں جن پہ کام نہیں یاکم ہوا اور اس کی اشاعت ضروری ہے، ان کو ترجیحی بنیادوں پہ مکمل کروانے یعنی چھپوانے میں مالی تعاون کریں گے۔
  4. عوام میں رسومات وبدعات اور اعلانیہ گناہوں کی تردید میں پمفلٹ چھپوا کر تقسیم کریں گے،کسی مدرسہ میں قرآنِ پاک یا نورانی قاعدے خرید کر طلبہ کو دیں گےیا دار الافتاء کی لائبریریوں میں ان سے پوچھ کر ضرورت کی کتب خرید کر وقف کریں گے۔
  5. ہم ضرورت کے مطابق دلائل ومسائل والی نظریاتی کتب اس نیت سے خرید کر رکھ لیتے ہیں کہ جب بھی کوئی باطل فتنہ ہمارے قرب وجوار میں کسی کے عقائد و اعمال کو خراب کرنے کی کوشش کرے تو اس ساتھی کو بر وقت اہل السنۃوالجماعۃ کے دلائل و مسائل کتاب کی صورت میں دیے جائیں اور یہ طریقہ بہت اچھا نتیجہ دے رہا ہے،تقریبا چھ یا سات دوست غیر مقلدین کے فتنے سے متاثر ہو گئے تھے،بروقت کتب وغیرہ دی ہیں تو واپس آگئے الحمدللہ۔اسی طرح انشورنس،ٹائینزکمپنی کے ایجنٹ بھی کبھی ساتھیوں کے مال پہ بہت عجیب طریقے سے ڈاکہ ڈالتے ہیں،تو ہم ان چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پیشگی چند کتب خرید کر رکھ لیتے ہیں،یہ طریقہ شرعاً کیسا ہے؟
  6.  ہم نے یہ بھی نیت کی ہے کہ اس رقم کو صرف علمی کتب،پمفلٹ وغیرہ کی اشاعت پہ ہی لگائیں گے ،اس کے علاوہ کسی کو جیب خرچ کے لیے یا ویسے مالی تعاون نہیں کریں گے،کیا یہ درست ہے؟اور کیا ہم شرعاًمالی تعاون کر بھی سکتے ہیں ،اسی شعبہ سے یا نہیں؟
  7. کسی عالم،مفتی،دارالافتاء وغیرہ کو کتابیں بذریعہ ڈاک یا بس کے بھیجنی ہوں تو ڈاک خرچ یا بس کا کرایہ ہم شعبہ تعمیر معاشرہ سے لے سکتے ہیں؟
  8. شعبہ تعمیر معاشرہ کی رقم سے مثلااگر ہم کوئی کتاب /100روپے کی خریدتے ہیں،تو یہ کتاب ہم کسی تاجر کو،عوام کو/120روپے کی فروخت کر کے مکمل رقم اسی شعبہ میں ڈال دیں،تو کیا یہ طریقہ شرعاًجائز ہے؟اسی طرح ادھارپر دینا کیسا ہے؟
  9. شعبہ تعمیر معاشرہ کی رقم کسی کو نقد دی جائے یا کتابیں خریدکردی جائیں اور کہا جائے کہ آدھا نفع تعمیر معاشرہ میں جمع کرادینا،آدھا خود رکھ لینا،شرعاکیسا ہے؟
  10. .ہمارے ایک عالم دین مفتی صاحب نے ایک کتاب تحریر فرمائی کافی سال لگا کر،چھپوانے کی انتظار میں عرصہ گذر گیا،ہم نے ان کو دس ہزار روپے اس شرط پر دیےکہ یہ فقط کتاب کی اشاعت پر لگائیں گےاور آپ دس ہزار کی یہ کتابیں ہمیں دے دینا ایسا ہی ہوا،ہم نے کتابیں لے کے نفع پہ فروخت کرکے کل رقم تعمیر معاشرہ میں ڈال دی، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

11.جو کام ہم اس شعبہ کےتحت مزید کر سکتے ہیں،ان کی بھی نشاندہی فرمائیں اور جو کام غلط کر رہے ہیں ،اس کی نشاندہی کر کے درست سمت میں رہنمائی فرمادیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سائل سےتفصیلات طلب کرنے پریہ معلوم ہوا:

  • اس شعبہ میں جو مال جمع ہوتا ہے، وہ عطیات یعنی نفلی صدقات اورخیرات وغیرہ کا ہوتاہے۔
  • جو بھی عطیہ دیتا ہے ،وہ شعبہ کے ارکان کو کلی اختیاردیتا ہے کہ آپ جہاں مناسب سمجھیں، اس  کو خرچ کر دیں ۔

درج بالا تفصیلات کے مطابق جمع شدہ عطیات وخیرات کوامانت و دیانت کے ساتھ  مندرجہ بالا مقاصد میں خرچ کر سکتے ہیں۔

اپنے مقاصد اور طریقہ کارکی تفصیل تحریری صورت میں محفوظ رکھیں اور معاونین کو پوری تفصیل سے آگاہ رکھیں،پھر انہی اصولوں کے مطابق خرچ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

حوالہ جات
قال العلامةالكاساني رحمه اللہ: وإن كانت الوكالة خاصة فليس له أن يوكل غيره بالقبض؛ لأن الوكيل يتصرف بتفويض الموكل ،فيملك قدر ما فوض إليه.(بدائع الصنائع:6/25) قال ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی:وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل ،وقد أمره بالدفع إلى فلان ، فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ،ليس للوصي الدفع إلى غيره.(الدر المختار:2/269) قال ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی:لایجوز التصرف فی مال غیرہ بلا إذنه ولا ولايته. (الدرمع الرد:9/291) قال العلامۃ الجزیری رحمہ اللہ تعالی:ویجوز التوکیل فی سائر العقود،سوی ماذکر کا لبیع ، والشراءوالإجارة ،والنكاح،والطلاق،والھبة والصدقة........،ومنھا:التصدق:فإذا وكله أن يتصدق من ماله بكذا،فإنه ينبغي أن يضيف الصدقة إلي مؤكله،وإلا كانت من ماله.(كتاب الفقه:3/153(
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / فیصل احمد صاحب