021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدالتی خلع (تنسیخ نکاح)کاشرعی حکم
71136طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

حضرت مفتی صاحب !گزارش ہے کہ میرے والدین نے میری شادی میرے چچا کے بیتے سے کی ،مشومئی قسمت میرا شوہر بداخلاق، شکی مزاج ثابت ہوا ۔مجھے اکثر مارتا پیٹتا لڑائی جھگڑا  (کرتا رہتاتھا)۔میں روٹھکر میکے چلی جاتی،کئی باراتناشدید  مارتےکہ جسم پر نشان پڑ جاتے ،درمیان  میں رشتہ دار پڑتے،صلح ہوجاتی تومیرے والدین مجھے (شوہرکے)گھر بھیجتے ،میر اشوہر کہتا کہ بس ایسے ہی رشتہ دار آپکو لائے ہیں میں نے ان کو نہیں بھیجا،پھر وہی حالات ہوتے،لڑائی کٹائی اور جان سے مار دینے کی دھمکیاں بھی دیتا،جب میں نے والد صاحب کو حالات سےآگاہ کیا تو انہوں نے سمجھانے کی کوشش اور اصلاح احوال کامطالبہ کیا لیکن حالات مزید بگڑ گئے،والدین کے مشورہ سے جب محسوس ہو ا کہ اس شخص سے نباہ کی کوئی صورت باقی نہ رہی البتہ خطرہ بڑھتاہوا محسوس ہوا ،تو میں نے تنسیخ نکاح کا دعوی اور نان ونفقہ اوراخراجات کا مطالبہ کیا جو موصوف ادا نہیں کرتا تھا ۔

جج صاحب نے فریقین کو طلب کیا ،انہوں نے  بیانات سننے کے بعدبھی مصالحت کاکہااور کوشش بھی کی،انہوں نے احاطہ عدالت میں ٹائم بھی دیا اور کہا کہ آپکو  عدالت وقت دیتی ہےکہ ایک دوسرے کو قائل کریں ،مگر مصالحت کی یہ کوشش بھی ناکام ہوئی ۔جناب عالی !اس سے قبل برادرانہ طور پر بھی کوشش کی گئی کہ طلاق ہوجائےمگر موصوف نے کہا کہ نہ طلاق دونگا اور نہ نباہ کرونگابلکہ میں ذلیل کرونگا۔ان حالات کےپیش نظر، کیا میرا عدالت جانا درست تھا ؟اور ہمارے بیانات اور ہمارے وکلاء کے بحث ومباحثہ کے بعد عدالت نے میرے حق میں تنسیخ نکاح کی ڈگری  یعنی شادی کی گرہ کو ختم کیا،کیا شرعاً یہ تنسیخ نکاح درست ہے ؟ میری راہنمائی فرمائی جائے شکریہ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اسلام میں جس طرح مرد کوطلاق دینےکاحق حاصل ہے اسی طرح عورت کوبھی مرد کے ظلم وستم سے بچنے کے لیےطلاق لینے کاحق حاصل ہے اس کو اصطلاح میں خلع کہا جاتا ہے ،لیکن اس میں باجماع امت  مرد وعورت دونوں کی رضامندی ضروری ہے،اگرجانبین میں سے کوئی بھی خلع پر راضی نہ ہوتو شرعا اس کا اعتبار نہ ہوگالہذاعورت اسی شوہر کےنکاح میں ہی رہے گی۔

البتہ اگر شوہرخلع پرآمادہ  نہ ہواور وہ عورت پرظلم و زیادتی کرتا ہو،بیوی کو نان ونفقہ نہ دیتا ہو،لڑائی جھگڑا اور مارپیٹ کرتاہوتو ایسی صورت میں مذکورہ خاتون تنسیخ نکاح  کے لیے عدالت سے رجوع کرسکتی ہے،لیکن عدالت کے لیےتحقیق و تفتیش کےبعد معتبر گواہوں  کے ذریعہ شوہرکےظلم وزیادتی اور نان ونفقہ کی عدم ادائیگی کوثابت کرنا ضروری ہوگا۔تمام ثبوت کی فراہمی کے بعدجب شوہر کاظلم ثابت ہوجائےمثلاً یہ کہ باوجود وسعت کےبیوی کو نان ونفقہ نہیں دیتا ہو، تو پھر عدالت تنسیخ نکاح کا فیصلہ کرسکتی ہے، ایسی صورت میں شوہر کی رضامندی کے بغیر بھی تنسیخ نکاح کا فیصلہ  شرعامعتبر ہوگا۔

 صورت مسئولہ میں عدالت نے شوہر کے ظلم وزیادتی ، نان ونفقہ اور اخراجات کی عدم ادائیگی کو ثابت کیے بغیرمحض جانبین کے درمیان نباہ کوناممکن کہہ کرتنسیخ نکاح کا فیصلہ دیاہےحالانکہ عورت نے نان ونفقہ کی عدم ادائیگی کاکوئی ثبوت پیش نہیں کیا تھا، اس لیے یہ فسخ نکاح شرعا معتبر نہیں ہے،لہذا  بیوی اسی شوہر کے نکاح میں ہے الا  یہ کہ شوہراس فیصلےپر قولاً یافعلاً رضامندی کااظہار کردے تو نکاح فسخ ہوجائےگا۔

حوالہ جات
(القرآن الکریم پارہ دوم،البقرة: 229]
{وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 441)
 وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول۔  
(الفتاوی العالمکیریۃ :۱/۴۸۸ الباب الثامن فی الخلع )
اذا تشاق الزوجان وخافا ان لایقیما حدوداللہ ،فلاباس بان تفدی نفسھا منہ بمال  یخلعھا بہ۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 145)
وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول بخلاف النوع الأول فإنه إذا قال: خالعتك ولم يذكر العوض ونوى الطلاق فإنه يقع الطلاق عليها، سواء قبلت أو لم تقبل۔
الحیلۃالناجزۃ حکم زوجہ متعنت فی النفقہ(ص:۱۸۸ مکتبۃ البشری)

وقاراحمد

  دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۸جمادی الاول ۱۴۴۲

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

وقاراحمد بن اجبر خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب