021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ٹرسٹ کی جانب سےغریبوں کو افزائش نسل کے لیے جانور دینے کا حکم
68292جائز و ناجائزامور کا بیانجانوروں کے مسائل

سوال

 ایک ٹرسٹ ہے جو مستحق خاندانوںمیں بکریاں اوربھیڑیں  افزائش نسل کے لیے تقسیم کرتا ہے، جس کا مقصدمستحق افراد کی مالی معاونت  کرنا ،انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا اور انہیں اس قابل بنانا  تاکہ وہ دوسروں سے مانگنے کی بجائے ،دوسروں کو دینے کے قابل بنیں۔ ٹرسٹ نے  پیکج  ہولڈر کی مالی حیثیت  کو مد نظر رکھتے ہوئے  اپنے پیکیجز کی درج ذیل درجہ بندی کی ہے:

(1) سٹینڈرڈ  پیکج: اس میں پیکج ہولڈر کو 2 بکریاں اور 1 بکرا دیا جاتا ہے ۔

(2) سیلور پیکج :اس میں  پیکج  ہولڈر  کو 5 بکریاں اور1 بکرا دیا جاتا ہے ۔

(3) گولڈن پیکج: اس میں پیکج  ہولڈر  کو 10 بکریاں اور1 بکرا دیا جاتا ہے۔

اس کے لیے ٹرسٹ نے پیکج ہولڈر کے لیے  درج ذیل شرائط رکھی ہیں:

     (1) پیکج   ہولڈر جس پیکج کا بھی انتخاب کر رہا ہو،  اس کو سنبھالنے کا اہل ہونا چاہیے۔

(2) پیکج ہولڈر 5 سال تک اثاثوں کی  دیکھ بھال اور اس کے اخراجات برداشت کرنے کا اہل ہو۔

(3) سالانہ جتنی بھی پیداوار ہو گی، اس کا 40فیصد ٹرسٹ واپس لینے کا مجاز ہو گا جس کا 20فیصد انتظامی ٹیم کی تنخواہیں ،جبکہ باقی20فیصد کسی اور مستحق  خاندان کو پیکج کے طور پر انہی شرائط کے ساتھ دیا جائے گا۔

     (4) ٹرسٹ 40فیصد صرف چھوٹے بچے لے جائے گا ،بڑے اثاثے  بدستور پیکج ہولڈر کے پاس رہیں گے۔

     (5) بکریوں سے حاصل شدہ دودھ  پیکج ہولڈر کا ہو گا،اس میں ٹرسٹ کا کوئی حصہ  نہیں ہو گا ۔

     (6) ٹرسٹ کے اندازے  کے مطابق  بھی بچوں کی پیداوار ہو سکتی ہے اور کم اور زیادہ بھی، اندازے سے زائد بچوں  کی پیداوار کی صورت میں زائد بچے پیکج  ہولڈر کی ذاتی ملکیت ہوں گے۔

    (7) ٹرسٹ کی طرف سے سالانہ اندازے کے مطابق  نقصان(پیدا ہونے والے بچوں کی اموات کی ممکنہ تعداد ) کا جو شیڈول جاری کیا گیا ہے،اس اندازے سے زائد نقصان کی صورت میں پیکج ہولڈر پر نقصان نہیں ڈالا جاتا ،اور اگر  اندازے  کے مطابق نقصان  بلکل نہیں ہوتا یا کم ہوتا ہے تو وہ اثاثے بھی کسان کی ذاتی ملکیت  میں دے دیے جاتے ہیں۔

 

      ٹرسٹ کی جانب سے پیکج ہولڈر کو دی جانے والی سہولیات:

    (1) ڈاکٹر کا بروقت آن کال چیک اپ۔

    (2) میڈیسن کی مفت دستیابی۔

    (3) پالنے کا مکمل طریقہ و حفاظتی تدابیر سے آگاہی۔

    (4) اثاثوں (بڑے جانور) میں سے اگر کوئی طبعی یا حادثاتی موت مر جائے ،اس کا متبادل ایسٹ پیکج ہولڈر کو دینا ،لیکن اگر پیکج ہولڈر کی لاپرواہی سے مر گیا تو بعض سے تاوان لیا جاتا ہے اور بعض سے نہیں۔ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ہی  ٹرسٹ فیصلہ کرتاہے ۔

    (5) بکریوں سے حاصل شدہ دودھ 100فیصد پیکج ہولڈر کو دیا جاتا ہے۔

    (6) ٹرسٹ کے ایسٹیمیٹ سے زائد سالانہ پیداوار کی صورت میں زائد ایسٹس پیکج ہولڈر کی ذاتی ملکیت میں شمار کرنا۔

    (7) سالانہ نقصان (پیدا ہونے والے بچوں کی اموات کی ممکنہ تعداد ) کے اندازے سے  کم یا بلکل نہ ہونے پر تمام ایسٹس پیکج ہولڈر کی ذاتی ملکیت میں شمار کرنا۔

    (8) 30 سے زائد بکریاں ہو جانے کی صورت میں زائد بکریاں پیکج ہولڈر سے ٹرسٹ خود  خرید لیتا ہے۔

    (9) 5سال معاہدہ کے اختتام  پر  ٹرسٹ کا شئیر دینے کے بعد تمام ایسٹس فارمر  کی ذاتی ملکیت میں جاتے ہیں، چاہے تو پیکج ہولڈر ٹرسٹ کو سیل کرے، چاہے اوپن مارکیٹ میں۔

    (نوٹ) سوالنامہ میں دی گئی معلوماٹ گولڈن پیکج کے حوالے سے ہیں۔

    اب سوال یہ ہے کہ شرعی اعتبار سے ان شرائط کے ساتھ یہ معاملہ کرنا درست ہے؟ اگر کوئی نقص ہو تو رہنمائی کریں کہ کس شق میں رد و بدل سے جواز کی صورت بن سکتی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یہ جانوروں کو بٹائی پر دینے کا مسئلہ ہے،البتہ عام طور پر جو لوگ آپس میں بٹائی پر جانور دیتے ہیں ،اس میں اورٹرسٹ کےطریقہ میں فرق یہ ہے کہ ٹرسٹ نفع اچھا دیتا ہے یعنی 60٪ کسان کو اور 40٪ خود لیتا ہے اور ساتھہی ساتھ معاہدے کے اختتام پر ٹرسٹ اصل جانور بھیتبرعاکسان کو دے دیتا ہے۔

درج بالا تمام تفصیل کے بغور مطالعہ کے بعدصورت مسئولہ کا حکم یہ ہے کہ شرائط میں شرط نمبر 3،4،5،6،7 کےمطابقجانورکا اس طور پر دینا ،حنفیہ کے اصول کے مطابق درست نہیں۔لہٰذا احناف کے مذہب کے مطابق اس کی متبادل صورت پر عمل کر لیا جائے، وہ یہ ہے کہ ٹرسٹ اس جانور کی ایک متعین قیمت لگا کر متعلقہ شخص کو جانور کا نصف حصہ فروخت کر دے،اس کے بعد اس نصف حصہ کی قیمت اس سے لے لے یا اس کو معاف کر دے تو اس طرح کرنے سےیہ دوسرا شخص اس جانور کے آدھے حصے کا مالک بن جائے گا اور اس جانور سے حاصل ہونے والے منافع (دودھ اور بچے وغیرہ) میں بھی آدھے حصے کا شریک ہو گا۔اس کے بعد وہ شخص اس جانور کیپرورش کر دے،چارے وغیرہ پر جو خرچہ آئے گا وہ بھی ملکیتی حصوں کے مطابق آدھا آدھا تقسیم ہوگا،البتہ اگر دوسرے شخص کو جانور کے نصف حصے کی رقم معاف کی گئی ہو اور وہ اس احسان کے بدلے جانور کے چارے وغیرہ کے اخراجات کا آدھا حصہ بیچنے والے سے وصول نہ کرے تو بھی کوئی حرج نہیں،دودھ بھی مرضی سے ایک دوسرے کو دے سکتے ہیں۔اسی طرح دیکھ بھال کرنے والا،دیکھ بھال کرنے کی آدھی اجرت اپنے شریک سے لینا چاہے،تو لے سکتا ہے اور چھوڑ بھی سکتا ہے۔نیز یہ سب کچھ غیر مشروط،بطور احسان ایک دوسرے پر ہو گا۔ ایسی صورت میں جب بھی ٹرسٹ اور پیکج ہولڈر اس شرکت کو ختم کریں گے تواثاثے اور پیداوار ٹرسٹ اور پیکج ہولڈر کے درمیان نصفنصف تقسیم ہوں گے،اور دونوں فریق جب چاہیں شرکت سے نکل بھی سکتے ہیں اور اپنا نصف حصہ بیچ بھی سکتے ہیں۔

البتہ اگر اس متبادل صورت پر عمل کرنے میں شدید مشکل ہو تو بعض حنابلہ کے نزدیک بٹائی کا یہ معاملہ جائز ہے،اور چونکہ غربت، پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ ہے ، گاؤں دیہاتوں میں غیر ملکی این جی اوز آکر غریب لوگوں کی غربت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو مختلف پیکج دیتے ہیں اور اپناایجنڈا بھی چلاتے ہیں، جس سے لوگوں کے ایمان تک داؤ پر لگ جاتے ہیں ،اور ساتھ ہی ساتھ آج کل دیہاتی علاقوں میں جانوروں کو بٹائی پر دینا ابتلائے عام بھی ہے،لہذا ان تمام وجوہات کی بنا پرتوسعاً مذہب حنابلہ پر عمل کیا جا سکتا ہے۔بہتر ہے  مکمل صورت مقامی علماء کے سامنے یا مجلس فقہی میں پیش کرکے اس  قول پر عمل کی اجازت لے لی جائے ۔

اوراگر ٹرسٹ کے لیے ممکن ہو توساتھ ہی ساتھ غریبوں کی مدد اور ان کواپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے، یہ بھی کرسکتے ہیںکہ لوگوں کو افزائش نسل کے لیے نہیں بلکہ قربانی اور گوشت وغیرہ کےمقاصد کے لیے کم عمر جانور سستے دیدے پھر جب وہ پل بڑھ کر بڑے ہوجائیںتو وقف قربانی کے لیے خود خریدلے یا آگے بیچنے دےجیسا کہ ترکی میں حکومت ایسا کرتی ہے کہ کسانوں کو چھوٹے جانور رعایتی قیمتوں پر دے دیتی ہے اور پھر جانور کے جوانہونے پر وہ واپس خود خریدلیتے ہیں یا کسان آگے بھی بیچ سکتا ہے۔ اس سےکسانوں کی بھرپور مدد ہوجاتی ہےاور یہ طریقہ بھی غریب لوگوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ المرغینانیرحمہ اللہ:(الإجارة: عقد على المنافع بعوض) لأن الإجارة في اللغة بيع المنافع، والقياس يأبى جوازه؛ لأن المعقود عليه المنفعة وهي معدومة، وإضافة التمليك إلى ما سيوجد لا يصح إلا أنا جوزناه لحاجة الناس إليه، وقد شهدت بصحتها الآثار وهو قوله عليه الصلاة والسلام: "أعطوا الأجير أجره قبل أن يجف عرقه" وقوله عليه الصلاة والسلام: "من استأجر أجيرا فليعلمه أجره" وتنعقد ساعة فساعة على حسب حدوث المنفعة، والدار أقيمت مقام المنفعة في حق إضافة العقد إليها ليرتبط الإيجاب بالقبول، ثم عمله يظهر في حق المنفعة ملكا واستحقاقا حال وجود المنفعة. (ولا تصح حتى تكون المنافع معلومة، والأجرة معلوم) لما روينا، ولأن الجهالة في المعقود عليه وبدله تفضي إلى المنازعة كجهالة الثمن والمثمن في البيع.                         
  1.                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                               
و فی الفتاوی الھندیۃ:دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة وعلى صاحب البقرة للرجل أجر قيامه وقيمة علفه إن علفها من علف هو ملكه لا ما سرحها في المرعى ويرد كل اللبن إن كان قائما، وإن أتلف فالمثل إلى صاحبها لأن اللبن مثلي، وإن اتخذ من اللبن مصلا فهو للمتخذ ويضمن مثل اللبن لانقطاع حق المالك بالصنعة والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما وكذا لو دفع الدجاج على أن يكون البيض بينهما أو بزر الفيلق على أن يكون الإبريسم بينهما لا يجوز والحادث كله لصاحب الدجاج والبزر.(الفتاوی الھندیۃ:4/446)
وقال العلامۃ عبد اللہ بن محمود الموصلی:الشركة نوعان: شركة ملك، وشركة عقد، فشركة الملك نوعان: جبرية، واختيارية والاختيارية؛ أن يشتريا عينا، أو يتهبا، أو يوصى لهما فيقبلان، أو يستوليا على مال، أو يخلطا مالهما، وفي جميع ذلك كل واحد منهما أجنبي في نصيب الآخر، لا يتصرف فيه إلا بإذنه ؛لعدم إذنه له فيه، ويجوز بيع نصيبه من شريكه في جميع الوجوه.
(الاختیار لتعلیل المختار:3/12)
وقال العلامۃ الشامی رحمہ اللہ:لو تبرع لرجل بشيء ثم الرجل عوض عليه بشيء آخر بلا شرط فهو تبرع من الجانبين مع المبادلة لكن من جانب الثاني، وهذا يوجد كثيرا بين الزوجين يبعث إليها متاعا وتبعث له أيضا وهو في الحقيقة هبة، حتى لو ادعى الزوج العارية رجع ولها أيضا الرجوع؛ لأنها قصدت التعويض عن هبة، فلما لم توجد الهبة بدعوى العارية لم يوجد التعويض عنها فلها الرجوع كما سيأتي في الهبة، وكذا لو وهبه شيئا على أن يعوضه عنه شيئا معيبا فهو هبة ابتداء مع وجود المبادلة المشروطة فافهم.(رد المحتار علی الدر المختار:4/504)
قال الشیخ الاسلاممحمد تقی العثمانیحفظہ اللہ:فینبغی للمفتی أن یسھل علی الناس الأخذ بما ھو أرفق فیما تعم بہ البلوی ،سواءکان فی مذھبہ أو غیر مذھبہ فی مذاھب الأربعۃ وقد عمل بذلک الشیخ التھانوی قدس اللہ سرہ فی کثیر من المسائل فی إمداد الفتاوی،فأفتی بمذھب الحنابلۃ فی جوازالمضاربۃ فی منافع الدابۃ.(أصول الإفتاء وآدابہ:245)
  • مداد الفتاوی:3/343)
قال العلامۃ أبو محمد موفق الدین  رحمہ اللہ: وإن دفع رجل دابته إلى آخر ليعمل عليها، وما يرزق الله بينهما نصفين أو أثلاثا أو كيفما شرطا، صح، نص عليه في رواية الأثرم ومحمد بن أبي حرب وأحمد بن سعيد. ونقل عن الأوزاعي ما يدل على هذا. وكره ذلك الحسن، والنخعي وقال الشافعي، وأبو ثور، وابن المنذر وأصحاب الرأي: لا يصح، والربح كله لرب الدابة؛ لأن الحمل الذي يستحق به العوض منها. وللعامل أجر مثله؛ لأن هذا ليس من أقسام الشركة، إلا أن تكون المضاربة، ولا تصح المضاربة بالعروض، ولأن المضاربة تكون بالتجارة في الأعيان وهذه لا يجوز بيعها ولا إخراجها عن ملك مالكها. وقال القاضي: يتخرج أن لا يصح، بناء على أن المضاربة بالعروض لا تصح، فعلى هذا إن كان أجر الدابة بعينها فالأجر لمالكها، وإن تقبل حمل شيء فحمله، أو حمل عليها شيئا مباحا فباعه، فالأجرة والثمن له، وعليه أجرة مثلها لمالكها. ولنا، أنها عين تنمى بالعمل عليها فصح العقد عليها ببعض نمائها، كالدراهم والدنانير، وكالشجر في المساقاة، والأرض في المزارعة. وقولهم: إنه ليس من أقسام الشركة، ولا هو مضاربة. قلنا: نعم، لكنه يشبه المساقاة والمزارعة، فإنه دفع لعين المال إلى من يعمل عليها ببعض نمائها مع بقاء عينها.(المغنی لابن قدامۃ:5/116)

محمد عثمان یوسف

دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

  26جمادی الاولی 1441ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عثمان یوسف

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / شہبازعلی صاحب