021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غزوۂ ہند کے بارے میں احادیث کی تحقیق اور غزوہ ہند کا مصداق
68270حدیث سے متعلق مسائل کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

آج کل بہت سے لوگ غزوۂ ہند کے بارے میں تذکرہ کرتے ہیں اور اس کی فضیلت بیان کی جاتی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا غزوۂ ہند کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے؟ اگر ثابت ہے تو اس کا مصداق کیا ہے؟ اور یہ غزوہ کب واقع ہو گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ غزوہٴ ہند سے متعلق مختلف الفاظ کے ساتھ مختلف روایات مروی ہیں ، جن کا حکم جاننے کے لیے تفصیل کی ضرورت ہے، اس لیے پوری بحث ذکر کرنے کے بعد غزوہٴ ہند سے متعلقہ روایات اور اس کے مصداق کا اجمالی حکم آخر میں ذکر کیا گیا ہے، لہذا پہلے اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

غزوۂ ہند کے بارے میں اپنی تتبع اور تلاش  کی حد تک ذخیرۂ احادیث میں مختلف طرق سے مروی تین  قسم کی احادیث   کا ذکر ملا ہے:

نمبر۱: حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی روایت:

سب سے پہلی روایت حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس کو امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی سنن  (السنن الصغری) میں درج ذیل سند کے ساتھ ذکر کیا ہے:

أخبرني محمد بن عبد الله بن عبد الرحيم، قال: حدثنا أسد بن موسى، قال: حدثنا بقية، قال: حدثني أبو بكر الزبيدي، عن أخيه محمد بن الوليد، عن لقمان بن عامر، عن عبد الأعلى بن عدي البهراني، عن ثوبان مولى رسول الله، صلى الله عليه وسلم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " عصابتان من أمتي أحرزهما الله من النار: عصابة تغزو الهند، وعصابة تكون مع عيسى ابن مريم عليهما السلام "[1]

ترجمہ:رسول اللہ ﷺ کے غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ میری امت کی دو جماعتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے جہنم سے آزاد کر دیا ہے: ایک وہ جماعت جو غزوہ ہند میں شریک ہوگی اور دوسری وہ جماعت جو عیسی بن مریم علیہا السلام کے ساتھ ہو گی۔

      سنن نسائی کے علاوہ  محدثین کرام رحمہم اللہ نے مختلف اسناد کے ساتھ درج ذیل کتب میں بھی اس حدیث کو  ذکر کیا ہے، جن میں سے بعض كتب مصادرِ اوّلیہ اور بعض مصادرِ ثانویہ ميں سے ہيں:

مصادرِ اولیہ:

  1. مسند احمد  بتحقيق شعيب الأرنؤوط (37/ 81، رقم الحدیث:22396 ) مؤسسۃ الرسالہ، بيروت۔

  2. المعجم الاوسط (7/ 23، رقم الحدیث: 6741 ) تحقیق:  طارق بن عوض الله بن محمد،عبد المحسن بن ابراہيم الحسينی ،دار الحرمين ،  القاہرہ۔

  3. مسند الشاميين (3/90، رقم الحدیث: 1851،  مؤسسۃ الرسالۃ – بيروت۔

  4. السنن الكبرى للبيہقی (9/ 297، رقم الاحدیث: 18600)ت:  محمد عبد القادر عطا، دار الكتب العلميہ، بيروت۔

  5. جزء أبي عروبہ الحرانی بروايۃ الأنطاكی (المتوفى: 318ھ) (ص: 58، رقم الحديث58) ت:عبدالرحيم محمد احمد القشقری، الناشر: مكتبۃالرشد ، الرياض۔

مصادرِ  ثانویہ:

  1. التاريخ الكبير للبخاری (6/ 72رقم الترجمۃ: 1747) دائرة المعارف العثمانيۃ، حيدر آباد۔

  2. الکامل لابن العدی  (المتوفى: 365ھ) (2/ 408)  دار الكتب العلميۃ، بيروت۔

  3.  تاريخ دمشق لابن عساکر (المتوفى: 571ھ) (52/ 248) دار الفكر للطباعۃ، بیروت۔

  4.  تہذیب الکمال لجمال الدین المزی (المتوفى: 742ھ) (33/ 152)مؤسسۃ الرسالۃ- بيروت۔

  5.  التکمیل فی الجرح والتعدیل لابن کثیر(المتوفى: 774ھ) (3/ 96) مركز النعمان ، الیمن۔

مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:

مذکورہ بالا روایت  کے بارے میں تتبع و تلاش کے باوجود ائمہ متقدمین رحمہم اللہ سے کوئی صریح حکم کہیں نہیں ملا،  اس لیے ذيل ميں مذکورہ روایت کی سند کے ہر راوی  سےمتعلق ائمہ جرح وتعدیل رحمہم اللہ کے اقوال نقل کیے جاتے ہیں:

  1. اس سند کے سب سے پہلے راوی محمد بن عبد الله بن عبد الرحيم ہیں، ان کو  امام ابن یونس رحمہ اللہ   نے اپنی کتاب ’’ التاریخ‘‘ میں ثقہ قرار دیا ہے، علامہ مزی رحمہ اللہ نے بھی ان كو تہذیب الکمال میں امام نسائی  رحمہ اللہ  کے حوالے سے "ثقہ "نقل کیا ہے، ان  کی وفات دو سو انچاس (249ھ) میں ہوئی:

تاریخ ابن یونس للعلامۃ أبی سعيد عبد الرحمن بن احمد بن يونس الصدفی (المتوفى: 347ھ) (1/ 452، رقم الترجمہ: 1229، دار الكتب العلميۃ، بيروت:

محمد بن عبد الله بن عبد الرحيم بن سعية بن أبى زرعة المصرى»: يكنى أبا عبد الله. يروى عن أسد بن موسى، وابن أبى مريم، وعبد الله بن عبد الحكم. روى عنه أبو داود، والنسائى  . كان ثقة ، حدّث بكتاب «المغازى» ، عن عبد الملك ابن هشام. توفى يوم الأربعاء ليومين بقيا من جمادى الآخرة سنة تسع وأربعين ومائتين  . وإنما عرف ب «البرقىّ» ؛ لأنه كان يتّجر، وإخوته إلى برقة ، وهو من أهل مصر ۔

تهذيب الكمال في أسماء الرجال (25/ 503، رقم الترجمۃ: 5358(مؤسسة الرسالة – بيروت:

 د س: محمد بن عبد الله بن عبد الرحيم بن سعية ابن أبي زرعة المصري ، أبو عبد الله بن البرقي، مولى بني زهرة أخو: أحمد بن البرقي وقد ينسب إلى جده.

قال أبو سعيد بن يونس: وإنما عرف بالبرقي لأنه كان يتجر وأخوه: إلى برقة، وهو من أهل مصر. روى عن: إدريس بن يحيى الخولاني، وأسد بن موسى (س) ، وخالد بن عبد الرحمن الخراساني (سي) ، وخالد بن نزار الأيلي، وسعيد بن الحكم بن أبي مريم (د) ، وسعيد بن كثير بن عفير، وعبد الله بن الزبير الحميدي (س) ۔۔۔۔۔۔۔روى عنه: أبو داود، والنسائي، وإبراهيم بن يوسف بن خالد الهسنجاني، والحسن بن علي بن شبيب المعمري، والحسن بن الفرج الغزي، وابنه عبد الله بن محمد ابن البرقي، وعلي بن إبراهيم بن الهيثم، وعمر بن محمد بن بجير، وأبو حاتم محمد ابن إدريس الرازي، ومحمد بن المعافى بن أبي حنظلة الصيداوي. قال النسائي  : لا بأس به. وقال أبو سعيد بن يونس: كان ثقة،

حدث بكتاب "المغازي "عن عبد الملك بن هشام، توفي يوم الأربعاء ليومين بقيا من جمادى الآخرة سنة تسع وأربعين ومئتين۔

ان کے علاوہ حافظ  ذہبی رحمہ اللہ نے الكاشف (2/ 188، رقم الترجمۃ: 4961، دار القبلۃ للثقافۃ الإسلاميۃ، جدة)  اور حافظ ابن حجررحمہ الله نے تہذيب التہذيب (9/ 263، رقم الترجمۃ: 439، مطبعہ دائرة المعارف النظاميہ، الہند) میں بھی امام ابن یونس رحمہ اللہ کے حوالے سے ان کو ثقہ قرار دیا ہے۔

  1. سند کے دوسرے راوی اسد بن موسی ہیں، ان کو علامہ جمال الدین مزی رحمہ اللہ نے ’’تہذیب الکمال‘‘ میں امام نسائی رحمہ اللہ کے حوالے سے "ثقہ" نقل کیا ہے، نیز امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کو ’’مشہور الحدیث‘‘ قرار دیا ہے، ان کی وفات دوسوبارہ ہجری(212ھ) میں ہوئی:

تهذيب الكمال في أسماء الرجال (2/ 513،رقم الترجمۃ: 400)  د. بشار عواد معروف الناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت:

خت د س: أسد بن موسى بن إبراهيم بن الوليد بن عبد الملك بن مروان بن الحكم القرشي الأموي المصري۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قال البخاري : مشهور الحديث، يقال له: أسد السنة. وقال النسائي: ثقة. ولو لم يصنف كان خيرا له.۔۔۔۔۔ وقال أبو سعيد بن يونس:

ولد بمصر، ويقال: بالبصرة سنة ثنتين وثلاثين ومئة، وتوفي في المحرم سنة اثنتي عشرة ومئتين۔

ان کے علاوہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’ تہذيب التہذيب (1/ 260، رقم الترجمۃ: 494،  مطبعۃ  دائرة المعارف النظاميۃ، الہند) میں امام عجلی اور امام بزار رحمہما اللہ کے حوالے سے ان کو" ثقہ" قرار دیا ہے، نیزعلامہ ذہبی رحمہ اللہ نے الکاشف (1/241، رقم الترجمۃ: 334، دار القبلۃ للثقافۃ  الإسلاميۃ ، جدة) میں بھی ان کو ثقہ لکھا ہے:

  1. تیسرے راوی ابو محمد بقيہ بن وليد کلاعی  ہیں، ان کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال مختلف ہیں، امام محمد بن سعدرحمه الله نے کہا اگر یہ ثقات سے روایت بیان کریں تو یہ ثقہ اور اگر ضعاف سے روایت لیں تو یہ ضعیف شمار ہوں گے، امام احمد بن عبدالله عجلی رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر یہ معروف محدثین سے روایت کریں تو "ثقہ" اور اگر یہ مجہول افراد سے حدیث روایت کریں تو "فلیس بشیئ" کے الفاظ نقل فرمائے، علامہ ذہبی رحمہ اللہ  نے جمہور ائمہ کرام کے حوالے سے ثقات سے لی گئی روایات کے سلسلہ میں

ان کو ثقہ قرار دیا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی روایت اپنی ’’صحیح‘‘ میں استشہادا اور "الادب المفرد" میں اصالتاً اور امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی "صحیح" میں متابعتاً لی ہے، نیز دیگر ائمہ کرام رحمہم اللہ نے بھی ان کی روایت کو استدلال اور استشہاد کےطور پر پیش کیا ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کو صدوق کہہ کر لکھا ہے کہ یہ ضعاف سے روایات لے کر آگے بیان کرنے میں تدلیس سے کام لیتے ہیں، اسی لیے علامہ شعیب ارنؤوط اور علامہ بشار عوّاد رحمہما اللہ نے’’ تحریر تقریب التہذیب‘‘میں ان پر ضعف کا حکم لگایاہے۔ البتہ امام نسائی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اگر یہ حدثنا یا اخبرنا کے الفاظ سے روایت بیان کریں تو یہ "ثقہ" ہوں گے اور ان کی روایت مقبول ہو گی، ورنہ نہیں۔ائمہ کرام رحمہم اللہ کی عبارات سے یہی قول راجح اور فیصلہ کن معلوم ہوتا ہے، لہذا اس راوی کی روایت صیغۂ تحدیث یا اخبار کے ساتھ آئے تو احکام اور فضائل دونوں میں قبول ہے اور اگر اس کے بغیر(صيغہٴ عن كے ساتھ) ہو تو  احکام کے باب میں قبول نہیں، البتہ احکام میں توابع و شواہد کے طور پر اور فضائل و اخبار ميں عمل کے لیے قبول ہے۔

اور چونکہ مذکورہ روایت صیغہ ٔ تحدیث کے ذریعہ بیان کی گئی ہے، اس ليے راوی کے محدّث ہونے کی وجہ سے اس روایت میں ضعف نہیں آئے گا اور یہ روایت احکام اور فضائل دونوں میں قبول ہو گی۔ اس راوی کی وفات ایک سو ستانوے ہجری (197ھ) میں ہوئی:

الكاشف  للحافظ شمس الدين  الذهبی (1/ 273، رقم الترجمة: 619،  دار القبلة للثقافة الإسلامية، جدة:

بقية بن الوليد أبو يحمد الكلاعي الميتمي الحافظ عن بحير ومحمد بن زياد الالهاني وأمم وعنه بن جريج وشعبة وهما من شيوخه وكثير بن عبيد وأحمد بن الفرج الحجازي وثقه الجمهور فيما سمعه من الثقات وقال النسائي: إذا قال حدثنا وأخبرنا فهو ثقة مات  في 197 ھ۔

تقريب التهذيب  لابن حجر(ص: 126، رقم الترجمۃ: 734، دار الرشيد - سوريا:

بقية ابن الوليد ابن صائد ابن كعب الكلاعي أبو يحمد بضم التحتانية وسكون المهملة وكسر الميم [الميتمي] صدوق كثير التدليس عن الضعفاء من الثامنة مات سنةمائة وسبع وتسعين وله سبع وثمانون سنۃ۔

لسان الميزان (7/ 185، رقم الترجمۃ: 2443 ) مؤسسة الأعلمي، بيروت :

" بقية " بن الوليد أبو يحمد الحمصي اخرج له مسلم حديثا واحدا.

تهذيب الكمال في أسماء الرجال (4/ 198) مؤسسة الرسالة - بيروت:

وقال النسائي: إذا قال: حدثنا وأخبرنا"، فهو ثقة. وإذا قال: عن فلان"فلا يؤخذ عنه، لأنه لا يدرى عمن أخذه.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔استشهد به البخاري في "الصحيح"وروى له في "الأدب"، وروى له مسلم في "المتابعات"، واحتج به الباقون.

تهذيب الكمال في أسماء الرجال (4/ 197) مؤسسة الرسالة - بيروت:

وقال محمد بن سعد: كان ثقة في روايته عن الثقات، ضعيفا في روايته عن غير الثقات. وقال أحمد بن عبد الله العجلي: ثقة فيما روى عن المعروفين، وما روى عن المجهولين فليس بشيء. وقال أبو زرعة: بقية عجب إذا روى عن الثقات، فهو ثقة - وذكر قول ابن المبارك الذي تقدم - ثم قال: وقد أصاب ابن المبارك في ذلك، ثم قال: هذا في الثقات، فأما في المجهولين فيحدث عن قوم لا يعرفون ولا يضبطون.

تحریر تقریب التہذیب للبشار عواد وشعیب الارنؤوط: (ج:1ص:179)          دارالرسالۃ، بیروت:

بل ضعيف؛ لإنه يدلس تدليس التسوية، وصورته إن يروي حديثا عن شيخ ثقة، وذلك الثقة يروي عن ضعيف غير ثقة عن ثقة، ويإتي المدلس الذي سمع الحديث من الثقة الأول فيسقط الضعيف من السند ويروي الحديث عن شيخه الثقة عن الثقة الثاني بلفظ محتمل، ويستوي الإسناد كله ثقات، وهو شر أنواع التدليس، قادح في عدالة فاعله  وقد صح عن بقية أنه كان يفعله، قال الذهبي في الميزان وقال ابن القطان: بقية يدلس عن الضعفاء ويستبيح ذلك، وهذا إن صح مفسد لعدالته، قلت (القائل هو الذهبي) نعم والله صح عنه هذا أنه يفلعه۔روى له مسلم حديثا واحدا في المتابعات۔

4) سند كے چوتھے راوی ابوبکر بن ولید بن عامر زبیدی شامی ہیں، ان کو حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے ’’مجہول الحال‘‘ قرار دیا ہے، اس کے علاوہ ان کے بارے میں ائمہ کرام رحمہم اللہ کی عبارات میں جرح و تعدیل کا کوئی قول نہیں ملا، نیز کتبِ صحاح میں بھی اس کی روایات مذکور نہیں۔

تقريب التهذيب (ص: 625، رقم الترجمۃ: 7995)  دار الرشيد - سوريا:

أبو بكر ابن الوليد ابن عامر الزبيدي بضم الزاي مشهور بكنيته واسمه صمصوم بمهملتين الأولى مفتوحة والثانية مضمومة بينهما ميم ساكنة مجهول الحال من السابعة وهو أخو محمد المشهور س۔

تهذيب الكمال في أسماء الرجال (33/ 151 رقم الترجمہ: 7261) مؤسسة الرسالة - بيروت:

     : أَبُو بكر بن الوليد بن عامر الزبيدي الشامي، أخو مُحَمَّد بْن الوليد الزبيدي. قال الحاكم أَبُو أَحْمَد، وأَبُو عَبْد اللَّهِ بْن مندة: اسمه صمصوم. رَوَى عَن: مُحَمَّد بْن مسلم بْن شهاب الزُّهْرِيّ، وأخيه محمد بن الوليد الزبيدي (س) . رَوَى عَنه: بقية بْن الوليد (س)  روى له النَّسَائي، وقد وقع لنا حديثه بعلو.

  1. اس سند كے پانچويں راوی محمد بن الوليد زبیدی ہیں، ان کی بہت  سے ائمہ کرام رحمہم اللہ نے توثیق کی ہے، چنانچہ حافظ جمال الدین مزی رحمہ اللہ نے علامہ عجلی، امام علی بن مدینی، امام ابو زرعہ رازی، امام ابنِ حبان اورامام نسائی رحمہم اللہ وغیرہ کے حوالے سے ان کو "ثقہ" نقل کیا  ہے، یہ امام زہری رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سے ہیں اور دس سال تک ان کی صحبت میں رہے ہیں، ان کی وفات ایک سو سینتالیس ہجری(147ھ) میں ہوئی:

تهذيب الكمال في أسماء الرجال (26/ 589، رقم الترجمة: 5673، مؤسسة الرسالة – بيروت:

خ م د س ق: محمد بن الوليد بن عامر الزبيدي ۔۔۔۔۔۔وقال العجلي  ، وعلي بن المديني ، وأبو زرعة الرازي  ، والنسائي: ثقة. زاد علي: ثبت. وقال بقيةبن الوليد، عن الزبيدي: أقمت مع الزهري عشرسنين بالرصافة. وقال محمد بن سعد : كان أعلم أهل الشام بالفتوى، والحديث، وكان ثقة إن شاء الله۔۔۔۔۔۔۔۔وذكره ابن حبان في كتاب "الثقات" ، وقال: مات سنةست أو سبع وأربعين ومئة، وهو ابن سبعين سنة، وكان من الحفاظ المتقنين.

ان کے علاوہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے’’ الکاشف‘‘(2/ 228، رقم الترجمۃ: 5199، دار القبلۃ  للثقافۃ الإسلاميۃ ، جدة) میں اور حافظِ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے تہذیب التہذیب(9/ 502، رقم الترجمۃ: 828، مطبعۃ دائرة المعارف النظاميۃ، الہند)  اور تقریب التہذیب (ص: 511، رقم الترجمۃ: 6372، دار الرشيد - سوريا) میں بھی ان کو ثقہ نقل کیا ہے۔

6) چھٹے راوی لقمان بن عامر وصابی ہیں، ان كو امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ الثقات‘‘ میں نقل کیا ہے، علامہ عجلی رحمہ اللہ نے بھی ان کو ثقہ قرار دیا ہے، امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ سے ان کے بارے میں’’یُکتب حديثه‘‘ کے الفاظ نقل کیے گئے ہیں۔ نیز ان کی احادیث کو کتبِ صحاح میں بھی نقل کیا گیا ہے۔ ان کی وفات ایک سو گیارہ یا ایک سو بیس ہجری  (111يا 120ھ)  میں ہوئی:

تاريخ الإسلام للحافظ الذھبی ت: بشار (3/ 304، رقم الترجمۃ: 232 ،دار الغرب الإسلامي :

لقمان بن عامر الوصابي، أبو عامر الحمصي، ويقال فيه: الأوصابي [الوفاة: 111 - 120 ھ] روى عن: أبي هريرة، وعتبة بن عبد، وأبي أمامة، وعبد الله بن بسر، وكثير بن مرة، وجماعة۔روى عنه: عقيل بن مدرك، ومحمد بن الوليد الزبيدي، وعيسى بن أبي رزين، وفرج بن فضالة، وجماعة. قال أبو حاتم: يكتب حديثه.

تهذيب التهذيب (8/ 455، رقم الترجمۃ: 829) مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند:

"د س فق - لقمان" بن عامر الوصابي أبو عامر الحمصي روى عن أبي الدرداء وأبي هريرة وأبي أمامة وأبي عتبة وعتبة بن عبد وعبد الأعلى بن عدي البهراني وأوسط البجلي

وعامر بن حشيب وجماعة وعنه محمد بن الوليد الزبيدي وعيسى بن أبي رزين الثمالي وشرقي بن قطامي والفرج بن فضالة وعقيل بن مدرك وغيرهم قال أبو حاتم: يكتب حديثه قلت وذكره بن حبان في الثقات۔

الثقات للعجلي (2/ 230، رقم الحدیث: 1564) مكتبة الدار - المدينة المنورة:

لقمان بن عامر شامي تابعي ثقة۔

الأحاديث المختارة = المستخرج من الأحاديث المختارة مما لم يخرجه البخاري ومسلم في صحيحيهما (1/ 158):

عن عمر ابن عبد الواحد عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر وعن علي بن الحسين الدرهمي عن أمية بن خالد عن شعبة وعن أبي داود الحراني عن محمد بن سليمان عن عيسى بن أبي رزين اليماني الحمصي عن لقمان بن عامر عن أوسط وعن إسحاق بن إبراهيم عن ابن مهدي عن معاوية بن صالح عن سليم بن عامر بنحوه ورواه أبو حاتم بن حبان عن عبد الله بن محمد الأزدي عن إسحاق بن إبراهيم ورواه أبو عبد الله الحاكم في المستدرك عن محمد بن يعقوب الأصم عن الربيع بن سليمان عن بشر بن بكر عن جابر عن سليم (إسناده صحيح)۔

7) اس روایت کی سند کے ساتویں راوی عبد الاعلى بن عدی بہرانی ہیں، ان کوامام ابنِ حبان، حافظ جمال الدین مزی اور حافظ ذہبی رحمہم اللہ نے "ثقہ" نقل کیا ہے، یہ تابعی ہیں اور انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین  سے بھی روایات لی ہیں، ان کی وفات ایک سو چار ہجری (104ھ) میں ہوئی:

تهذيب الكمال في أسماء الرجال (16/ 363، رقم الترجمۃ: 3688) مؤسسة الرسالة - بيروت :

مد س ق: عبد الاعلى بن عدي البهراني ، الحمصي، القاضي، أخو عبد الرحمن بن عدي.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قال أبو عبيد الآجري، عن أبي داود: شيوخ حريز كلهم ثقات. وذكره ابن حبان في كتاب "الثقات" قال يزيد بن عبد ربه: مات سنة أربع ومئة. روى له أبو داود في "المراسيل"، والنسائي، وابن ماجه.

الكاشف (1/ 611، رقم الترجمۃ: 3079) في معرفة من له رواية في الكتب الستة:

عبد الاعلى بن عدي البهراني القاضي عن ثوبان وعتبة بن عبد وعنه صفوان بن عمرو وحريز ثقة مات فی سنۃ 104 .

الثقات لابن حبان (5/ 129، رقم الترجمۃ: 4190) وزارة المعارف للحكومة العالية، الهندية:

عبد الأعلى بن عدى البهراني قاضي حمص يروي عن ثوبان روى عنه لقمان بن عامر وأهل الشام مات سنة أربع ومائة۔

8) اس سند كے آخری راوی حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ ہیں جو مشہور صحابی رسول ﷺ ہیں اور وہ اس روایت کو حضوراکرمﷺ سے نقل کرتے ہیں۔

حاصلِ عبارات:

پیچھے ذکرکردہ ائمہ جرح وتعدیل رحمہم اللہ  عبارات سے معلوم ہوا کہ اس روایت کی سند کے ایک راوی  کے علاوہ بقیہ سب رواۃ ثقہ ہیں اور وہ راوی ابوبکر بن ولید بن عامر زبیدی ہیں، ائمہ جرح وتعدیل کی کتب میں ان کی توثیق کہیں نہیں ملی،  اسی لیے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کو تقریب التہذیب میں ’’مجہول الحال‘‘ قرار دیا ہے اور ائمہ جرح وتعدیل کے ہاں یہ کمزور درجے کی جرح ہے اور ایسے راوی کی روایت ضعیف  بدرجہ خفیف شمار ہوتی ہے،  جو کہ احکام کے باب میں اصالتاً نہیں لی جاتی، البتہ فضائل میں  عمل کے لیے اور احکام میں توابع و شواہد کے طور پر قبول ہوتی ہے اور مذکورہ روایت کا تعلق فضائل کے باب سے ہے، اس لیے یہ روایت فضائل میں مخصوص شرائط كے ساتھ مقبول ہو گی، نیز اس روایت کا متابع بھی موجود ہے، جس کی تفصیل یہ ہے:

حضرتِ ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث کا متابع:

حضرتِ ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث کے متابعات بھی موجود ہیں، ایک متابع کو امام ابو بكر بن ابی عاصم  اپنی کتاب ’’الجہاد‘‘ میں درج ذیل سند کے ساتھ ذکر کیا ہے:

الجهاد لابن أبي عاصم (2/ 665، رقم الترجمۃ: 288)  أبو بكر بن أبي عاصم وهو أحمد بن عمرو بن الضحاك بن مخلد الشيباني (المتوفى: 287ھ) مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة:

حدثنا هشام بن عمار، قال: حدثنا الجراح بن مليح البهراني، قال: حدثنا محمد بن الوليد الزبيدي، عن لقمان بن عامر، عن عبد الأعلى البهراني، عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «عصابتان من أمتي أحرزهما الله من النار، عصابة تغزو الهند، وعصابة تكون مع عيسى ابن مريم صلى الله على محمد وعلى عيسى»

نیز اسی طریق کے ساتھ یہ روایت  امام طبرانی رحمہ اللہ نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے  اپنی ’’السنن‘‘ میں نقل کی ہے۔

اس سند میں  بقیہ راوی گزشتہ سند والے ہی ہیں، البتہ اس میں محمد بن ولید سے روایت لینے والے جراح بن ملیح بہرانی ہیں ، جن کو امام نسائی رحمہ اللہ نے "لیس بہ باس"، امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے"صالح

 الحدیث" کہا اور امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقات میں نقل کیا ہے اور حافظ جمال الدین  مزی اور حافظ ابن حجررحمہما اللہ نے ابن عدی رحمہ اللہ کے حوالے سے ان کی احادیث کا’’صالحہ "اور "جیاد"(عمدہ) ہونا نقل کیا ہے:

تهذيب الكمال في أسماء الرجال (4/ 520، رقم الترجمۃ: 911) مؤسسة الرسالة – بيروت:

س ق: الجراح بن مليح البهراني  ، أبو عبد الرحمن الشامي، الحمصي.۔۔۔۔۔۔۔۔ وقال أبو حاتم: صالح الحديث. وقال النسائي: ليس به بأس. وذكره أبو حاتم بن حبان في كتاب "الثقات".وقال أبو أحمد بن عدي: له أحاديث سوى ما ذكرت عن الزبيدي، وغيره، وقول يحيى بن معين"لا أعرفه"، كان يحيى إذا لم يكن له علم ومعرفة بأخباره ورواياته يقول: لا أعرفه، والجراح ابن مليح مشهور في أهل الشام، وهو لا بأس به، وبرواياته، وله أحاديث صالحة جياد۔

تهذيب التهذيب (2/ 68،رقم الترجمہ:  109 ،مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند:

"س ق - الجراح" بن مليح البهراني أبو عبد الرحمن الحمصي روى عن إبراهيم بن طهمان وإبراهيم بن ذي حماية والحجاج بن أرطاة وشعبة وحاتم بن حريث وأرطاة بن المنذر وبكر بن زرعة الخولاني وغيرهم وعنه الحسن بن خمير والهيثم بن خارجة وسليمان بن عبد الرحمن وهشام بن عمارة وعدة قال أبو حاتم صالح الحديث وقال النسائي ليس به بأس۔

وذكره بن حبان في الثقات وقال عثمان الدارمي عن بن معين لا أعرفه قال ابن عدي كان يحيى إذا لم يكن له علم بأخبار الشخص ورواياته يقول لا أعرفه والجراح مشهور في أهل الشام وهو لا بأس به وبرواياته وله أحاديث صالحة جياد ونسخ وقد روى أحاديث مستقيمة وهو في نفسه صالح قلت وفي تاريخ العباس بن محمد الدوري رواية أبي سعيد بن الأعرابي عنه قال بن معين الجراح بن مليح شامي ليس به بأس.

 جراح بن ملیح   سے نقل کرنے والے  ہشام بن عمار رحمہ اللہ ہیں، جن  کو   علامہ مزی اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے یحی بن معین رحمہ اللہ کے حوالے سے "ثقہ" نقل کیا ہے، نيز ان سے امام بخاري رحمہ اللہ نے بھی روایات لی ہیں، ان کی وفات دوسو پینتالیس ہجری (245ھ) میں ہوئی:

تهذيب الكمال في أسماء الرجال (30/ 247، رقم الترجمۃ: 6586 ): مؤسسة الرسالة – بيروت:

خ 4: هشام بن عمار بن نصير بن ميسرة بن أبان السلمي ۔۔۔۔۔۔۔۔وقال معاوية بن صالح وإبراهيم بن الجنيد  ، عن يحيى بن معين: ثقة. وقال أبو حاتم  ، عن يحيى بن معين: كيٓس كيٓس. وقال العجلي : ثقة.

لسان الميزان (7/ 419، رقم الترجمۃ: 5104) مؤسسة الأعلمي للمطبوعات بيروت:

" هشام " بن عمار بن نصير السلمي أبو الوليد الدمشقي الحافظ الخطيب صدوق مقري عن مالك والجراح بن مليح ويحيى بن حمزة وخلق وعنه البخاري وأبو داود والنسائي وابن ماجة ويحيى بن معين ووثقه وكذا وثقه العجلي.

الكاشف (2/ 337، رقم الترجمۃ: 5973)  دار القبلة للثقافة الإسلامية،جدة:

 هشام بن عمار أبو الوليد السلمي الدمشقي المقرئ الحافظ خطيب دمشق وعالمها عن مالك ويحيى بن حمزة وعنه البخاري وأبو داود والنسائي وابن ماجة ومحمد بن خريم والباغندي عاش اثنتين وتسعين سنة مات 245 ھ۔

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی روایت کا حکم:

پیچھے ذکر کی گئی روایت (جس کو ابوبکر بن ابی عاصم نے نقل کیا ہے) کے چونکہ سب راوی ثقہ ہیں،([2]) اس لیے حضرت ثوبان رضی اللہ کی یہ روایت سند کے اعتبار سے صحیح یا کم از کم" حسن لذاتہ "درجے کی ہے،  چنانچہ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے اس روایت کو امام نسائی رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح قرار ديا ہے،[3] جبکہ علامہ مناوی رحمہ اللہ نے اس پر" حسن" کا حکم لگایا ہے، بہر حال یہ روایت صحیح ہو یا حسن، اس سے غزوۂ ہند کی فضیلت پر استدلال کرنا درست ہے۔

التصريح بما تواتر في نزول المسيح (ص: 139) مكتبة المطبوعات الإسلامية بحلب:

عن ثوبان رضي الله عنه، مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن النبي صلى الله عليه وسلم: « ((عصابتان من أمتي أحرزهما الله تعالى من النار، عصابة تغزو الهند، وعصابة تكون مع عيسى ابن مريم عليه السلام)) » . أخرجه النسائي في ((السنن)) من الجهاد، وأحمد في ((مسنده)) والضياء في ((المختارة)) كما عزاه إليه في ((كنز العمال)) ، وعزاه في ((مجمع الزوائد)) إلى الطبراني في((الأوسط)) . وهذا الحديث صحيح على شرط النسائي.

التيسير بشرح الجامع الصغير (2/ 132) مكتبة الإمام الشافعي - الرياض:

(عصابتان) تثنية عصابة وهي الجماعة (من أمتي أحرزهما الله من النار) أي من عذابها (عصابة تغزو الهند وعصابة تكون مع عيسى بن مريم) يقاتل بها الدجال (حم ن والضياء عن ثوبان) بإسناد حسن۔

مسند أحمد ط الرسالة (37/ 81) مؤسسة الرسالة، بیروت:

قال شعيب الأرنؤوط: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف من أجل بقية -وهو ابن الوليد- لكنه قد توبع، وباقي رجاله موثقون غير أبي بكر بن الوليد الزبيدي، فهو مجهول الحال، لكن تابعه عبد الله بن سالم -وهو الأشعري الحمصي، وهو ثقة-. أبو النضر: هو هاشم بن القاسم الليثي مولاهم.

نمبر۲: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی روایت

غزوۂ ہند سے متعلق دوسری  روایت حضرت ابوہریرہؓ کی ہے، جو مختلف الفاظ کے ساتھ تین طرق  سے مروی ہے، پہلے طریق  کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں  یوں ذکر کیا ہے:

مسند أحمد ت: شاكر (6/ 532) دار الحديث – القاهرة:

حدثنا هشيم عن سيار عن جبر بن عبيدة عن أبي هريرة، قال: وَعَدَنا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - في غزوة الهند، فإن استشهدت كنت من خير الشهداء، وإن رجعت فأنا أبو هريرة المحرر.

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ '' رسول اللہﷺ نے ہم سے غزوہ ہند(میں شرکت) کے بارے میں وعدہ لیا ہے، لہذا اگر میں اس لشکر کو پا لوں اور میں (اس میں شریک ہوکر) شہید ہوگیا تو میں بہترین شہداء میں سے ہوں گا اور  اگر (غازی بن کر) واپس لوٹ آیا تو میں (جہنم سے) آزاد ابوہریرہ ہوں گا۔

مذکورہ روایت کو امام احمد رحمہ اللہ کے علاوہ امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی سنن  (6/ 42، رقم الحدیث: 3173، مكتب المطبوعات الإسلاميۃ – حلب) میں ، امام بزار رحمہ اللہ نے اپنی ’’مسند‘‘ (15/ 302، رقم الحدیث: 8819، مكتبۃ العلوم والحكم - المدينۃ المنورة) میں اور امام ابو بکر بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی ’’دلائل النبوة ‘‘ (6/ 336، رقم الحدیث: 18599، دار الكتب العلمیۃ، بيروت) میں ذکر کیا ہے۔

واضح رہے مذکورہ روایت کے بعض طرق (جس کا ذکر آگے آرہا ہے) میں آگ سے آزاد ہونے کی تصریح ہے، اس لیے ترجمہ میں جہنم سے آزادی کی تصریح کی گئی ہے۔

مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:

مذکورہ روایت کی سند میں حضور اکرمﷺ تک کل چار راوی ہیں، ان کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل رحمہم اللہ کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:

1) اس سند كے سب سے  پہلے  راوی ابو معاویہ ہشیم بن بشیر بن قاسم دینار سلمی ہیں، ان کو   امام احمد بن عبداللہ عجلی (المتوفی:261ھ) نے ’’الثقات‘‘ میں اور امام ابو عبد اللہ محمد بن سعد (المتوفی: 230ھ) نے  ’’الطبقات‘‘ میں ثقہ قرار دیا ہے اور يہ بھی لکھا ہے کہ ان کو حفاظِ حديث میں سے شمار کیا جاتا تھا، اسی طرح حافظ جمال الدین مزی رحمہ اللہ نے ’’تہذیب الکمال‘‘ میں اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’الکاشف‘‘ میں ان کو "ثقہ" نقل کیا  ہے،[4] نیز ان سے کتب ستہ کے مصنفین رحمہم اللہ نے روایات لی ہیں، البتہ ان کی طرف تدلیس کی نسبت کی گئی ہے، اسی لیے محمد بن سعد رحمہ اللہ  نے لکھا ہے کہ اگر یہ صیغۂ اخبار کے ذریعہ روایت بیان کریں تو ان کی روایت حجت ہےاور اگر صیغۂ  اخبار یا تحدیث کے بغیر روایت بیان کریں تو ان کی روایت  بنفسہ اصالتاً حجت نہیں ہے اور یہ روایت صغہٴ اخبار وتحدیث کے ساتھ نہیں، بلکہ ’’عن‘‘ کے ساتھ مروی ہے، اس لیے اس روایت میں ضعفِ خفیف ہے، البتہ اس روایت کا تعلق فضائل کے باب سے ہے اور فضائل میں ایسی روایت شرائط کے ساتھ مقبول ہوتی ہے، لہذا ان کی یہ روایت غزوہٴ ہند کی فضیلت کے سلسلہ میں مقبول ہو گی، ان کی وفات ایک سو تراسی ہجری(183ھ) میں ہوئی۔

الطبقات الكبرى   لابن سعد 7/ 227، رقم الترجمۃ: 3422) دار الكتب العلمية، بيروت:

هشيم بن بشير. ويكنى أبا معاوية. مولى لبني سليم. وكان ثقة كثير الحديث ثبتًا يدلس كثيرًا. فما قال في حديثه أخبرنا فهو حجة وما لم يقل فيه أخبرنا فليس بشيء.

الثقات للعجلي (ص: 459، رقم الترجمۃ: 1745) دار الباز:

هشيم بن بشير: يكنى أبا معاوية: "واسطي", ثقة, وكان يدلس، وكان يعد من حفاظ الحديث۔

2)  دوسرے راوی ابو الحکم سیار واسطی ہیں، ان کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اور امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقہ قرار دیا ہے، ان سے بھی کتب ستہ کے مصنفین رحمہم اللہ نے احادیث لی ہیں، ان کی وفات ایک سو بائیس ہجری (122ھ) میں ہوئی۔[5]

الثقات لابن حبان (6/ 421، رقم الترجمۃ: 8387) دائرة المعارف العثمانية بحيدر آباد الدكن الهند:

سيار بن أبي سيار أبو الحكم الواسطي العنزي أخو مساور الوراق لأمه واسم أبي سيار وردان يروي عن طارق بن شهاب والشعبي روى عنه عبيد الله بن عمر العمري وبشير بن سلمان وهشيم العراقيون۔

العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية ابنه عبد الله (1/ 415، رقم الترجمۃ: 890) دار الخاني , الرياض:

 سألته عن سيار أبي الحكم فقال: ثقة۔

3) تیسرے راوی جبربن عَبید ہ ہے، ان  کی توثیق اور تضعیف کے  سلسلے میں ائمہ کرام رحمہم اللہ کی عبارات سے دو طرح کی آراء معلوم ہوتی ہیں:

پہلی رائے:بعض ائمہ کرام رحمہم اللہ کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ راوی مقبول ہے، جس کی وجوہ درج ذیل ہیں:

  1. امام ابنِ حبان رحمہ اللہ نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے۔[6]

2)  دیگر کبار ائمہ کرام جیسے امام بخاری اور امام ابو حاتم رازی  رحمہما اللہ نے اس راوی کا ذکرکرکے اس پر کوئی جرح نہیں کی، جبکہ عام طور پر ائمہ جرح وتعدیل مجروح رواۃ کی نشاندہی ضرور کرتے ہیں۔

      3) حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے ’’تقریب التہذیب ‘‘ میں ان کو "مقبول" لکھا ہے۔

دوسری رائے:  دوسری رائے کے مطابق یہ راوی ضعیف معلوم ہوتا ہے، جس کی وجوہ  درج ذیل  ہیں:

  1. حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کو میزان الاعتدال  میں’’لا یعرف‘‘ اور دیوان الضعفاء میں’’مجہول‘‘ کہا ہے اور اس بات کی بھی تصریح کی ہے کہ جبر بن عبیدہ سےمروی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت منکر ہے۔[7]

  2. حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے بھی تہذیب التہذیب اور لسان المیزان میں اس راوی کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ کا قول ’’ لایعرف‘‘ ذکر کرنے پر اکتفاء کیا ہے اور اپنی ذاتی رائے ذکر نہیں کی۔

اقوال کے درمیان مناقشہ:

ائمہ کرام رحمہم اللہ کے اقوال سے راجح یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس راوی ميں كسی حد تك ضعف ہے، جیسا کہ علامہ ذہبی کی ’’میزان الاعتدال، دیوان الضعفاء‘‘ اور حافظِ ابن حجر کی ’’تہذیب التہذیب‘‘ اور’’لسان المیزان‘‘ میں اس کے بارے میں’’لایعرف‘‘ کے الفاظ ذکر کیے گئے ہیں، جو کہ ضعف کا ایک خفیف درجہ ہے۔[8]

جہاں تک امام ابنِ حبان رحمہ اللہ کی عبارت کا تعلق ہے توعلامہ ذہبی رحمہ اللہ کی تصریح کے مطابق وہ مجاہیل کی توثیق کے معاملے میں تساہل سے کام لیتے ہیں[9] اور حافظِ ابنِ حجر رحمہ اللہ کا’’تقریب التہذیب‘‘ میں’’مقبول‘‘ کہنا کمزور درجے کی تعدیل ہے اور ائمہ کرام رحمہم اللہ کی تصریح کے مطابقایسے راوی کی روایت احکام کے باب میں قبول نہیں ہوتی ، البتہ فضائلواخبار میں شرائط کے ساتھ اور احکام میں اعتبار کے لیے قبول ہوتی ہے، لہذا بہرصورت (یہ راوی مقبول ہو یا ضعیف) اس روایت پر اسنادی اعتبار سے ضعفِ خفیف کا حکم لگے گا، جیسا کہ علامہ شعیب ارنؤوط رحمہ اللہ نے اسی راوی کی وجہ سے اس روایت پر ضعف کا  حکم لگایا ہے:

مسند أحمد ط الرسالة (12/ 29) مؤسسة الرسالة، بيروت:

قال شعيب الأرنؤوط: إسناده ضعيف، جبر بن عبيدة لم يرو عنه غير سيار أبي الحكم، ولم يوثقه غير ابن حبان، وذكره الذهبي في "الميزان" 1/388، وقال: عن أبي هريرة بخبر منكر لا يعرف من هذا، وحديثه: وعدنا بغزوة الهند۔

لیکن شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ نے اس روایت کی سند پر صحت کا حکم لگایا ہے، ان کا کہنا یہ ہے کہ جبربن عبیدہ کی روایت کو امام بخاری اور ان سے پہلے دیگر ائمہ کرام رحمہ اللہ نے منکر نہیں کہا اور نہ ہی ان پر ائمہ کرام رحمہم اللہ نے جرح کی ہے، لہذا ان کی خبر کو منکر کہنا تحکم اور سینہ زوری ہے۔[10]

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی  روایت کا پہلا متابع:

مسند أحمد (14/ 419، رقم الحدیث: 8823، مؤسسة الرسالة، بیروت:

حدثنا يحيى بن إسحاق، أخبرنا البراء، عن الحسن، عن أبي هريرة، قال: حدثني خليلي الصادق رسول الله صلى الله عليه وسلم، أنه قال: " يكون في هذه الأمة بعث إلى السند والهند، فإن أنا أدركته فاستشهدت فذاك، وإن أنا فذكر كلمة رجعت وأنا أبو هريرة المحرر قد أعتقني من النار "

مذکورہ بالا روایت کے پہلے راوی یحی بن اسحاق ہیں، جن کو امام ابنِ سعد اور علامہ خطیب بغدادی  رحمہ اللہ نے "ثقہ" نقل کیا ہے۔[11] دوسرے راوی براء بن عبداللہ بن یزید غنوی ہیں، ان کو امام احمد بن حنبل  نے ضعیف کہا ہے، امام یحی بن معین رحمہ اللہ  کے اس بارے میں دوقول منقول ہیں: ایک میں "ضعیف" اور دوسرے میں" لیس بہ باس" کے اقوال منقول ہیں، نیز انہوں نے ابوالولید کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں براء بن یزید سے روایت نہیں کرتا، کیونکہ وہ" متروک الحدیث" راوی ہے۔ امام ابن عدی، امام نسائی اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے  براء بن عبداللہ کو ابو نضرہ منذر بن مالک کی روایات کے بارے میں ضعیف قرار دیا ہے، البتہ حافظ ابنِ حجر   نے تقریب التہذیب میں ان پر مطلقاً "ضعف" کا حکم لگایا  ہے۔[12]

 تیسرے راوی حضرت حسن بصری رحمہ اللہ ہیں، جن سے براء بن عبداللہ نے روایت لی ہے، یہ مشہور تابعی اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی باندی کے بیٹے  ہیں، ان کو بہت سے ائمہ کرام رحمہم اللہ نے زاہد، عابد، امام اور   ثقہ قرار دیا ہے، البتہ ان کی طرف  تدلیس کی نسبت بھی کی گئی ہے، یہ اس روایت کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے نقل کرتے ہیں اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان کے سماع کے بارے میں ائمہ کرام رحمہم اللہ کے دو قول ہیں: بعض ائمہ کرام رحمہم اللہ نے سماع کے ثبوت کا قول کیا ہے، جبکہ اکثر حضرات نے سماع کی نفی کی ہے،[13] چنانچہ امام  عبد الرحمن ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ جو شخص حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے حوالے سے  یوں نقل کرے: ’’حدثنا أبوھریرۃ‘‘  یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہم سے بیان کیا تو اس نے خطا کی، اسی طرح کی عبارت امام یحی بن معین رحمہ اللہ کے حوالے سے بھی نقل کی گئی ہے، دیکھیے عبارات:

المراسيل لابن أبي حاتم (ص: 36، رقم الترجمۃ: 109،110) مؤسسة الرسالة ،بيروت:

 سمعت أبي رحمه الله يقول لم يسمع الحسن من أبي هريرةو  سمعت أبا زرعة يقول لم يسمع الحسن من أبي هريرة ولم يره فقيل له فمن قال حدثنا أبو هريرة قال يخطىء۔

التعديل والتجريح لأبی الولید سلیمان القرطبی (2/ 484) دار اللواء للنشر والتوزيع - الرياض:

قال ابن معين: لم يسمع الحسن من أبي هريرة شيئا فهو مرسل من جهته وإنما يسند من طريق محمد بن سيرين فإنه سمع من أبي هريرة قيل ليحيى بن سعيد إن في بعض حديث الحسن سمعت أبا هريرة قال ليس بشيءْ

پیچھے ذکرکردہ ائمہ کرام رحمہ اللہ کے اقوال سے معلوم ہوا کہ یہ روایت بھی براء بن عبداللہ غنوی کے ضعف اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہ ہونے کی وجہ سے  اس کی سند میں ضعف خفیف ہے، چنانچہ  علامہ شعيب ارنؤوط رحمہ اللہ نے مسندِ احمد کی تخریج میں اس  روایت پر بھی ضعف کا حکم لگایا ہے:

قال شعيب الأرنؤوط: إسناده ضعيف لضعف البراء بن عبد الله الغنوي، ولانقطاعه، فإن الحسن -وهو البصري- لم يسمع من أبي هريرة.

البتہ اس روایت میں بھی ضعفِ شدید نہیں، کیونکہ اس کے کسی راوی پر شدید جرح نہیں کی گئی، لہذا یہ طریق گزشتہ روایت کے متابع کے طور پر قبول ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کا دوسرا متابع:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے غزوہ ہند سے متعلق تیسرے طریق کو امام ابن  ابی عاصم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الجہاد‘‘ میں ذکر کیا ہے،  جس کی سند یوں ہے:

الجهاد لابن أبي عاصم (2/ 668) مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة:

قال: حدثنا عبد الصمد قال: حدثنا هاشم بن سعيد، عن كنانة بن نبيه مولى صفية، عن أبي هريرة قال: «وعدنا الله ورسوله غزوة الهند، فإن أدركها أنفق فيها نفسي ومالي، فإن قتلت كنت كأفضل الشهداء، وإن رجعت فأنا أبو هريرة المحرر»

مذکورہ روایت میں ایک راوی ہاشم بن سعید کو عبدالرحمن بن ابی حاتم نے یحی بن معین اور اپنے والد ابو حاتم رازی رحمہ اللہ کے حوالے سے "ضعیف الحدیث"  قرار دیا ہے، اس کے علاوہ اس طریق کے بقیہ  راوی ثقہ ہیں، لہذا یہ طریق بھی ہاشم بن سعید کی وجہ سے سنداً ضعیف ہے، البتہ اس میں بھی ضعف شدید نہیں ہے، کیونکہ اس راوی پر سخت جرح نہیں کی گئی:

الكاشف (1/ 653، رقم الترجمۃ: 3376 ) دار القبلة للثقافة الإسلامية، جدة:

عبد الصمد بن عبد الوارث التنوري أبو سهل الحافظ عن هشام الدستوائي وشعبة وعنه ابنه عبد الوارث وعبد والترقفي حجة مات 207 ع۔[14]

الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (9/ 104، رقم الحدیث: 443)  دار إحياء التراث العربي، بيروت:

هاشم بن سعيد الكوفى نزل البصرة روى عن كنانة مولى صفية وهشام بن عروة وحماد ومحمد بن زياد وزيد الخثعمي روى عنه عبد الصمدابن عبد الوارث وهلال بن الفياض سمعت أبي يقول ذلك. نا عبد الرحمن أنا حرب بن إسماعيل  فيما كتب إلي قال قلت لأحمد بن حنبل: هاشم بن سعيد الذى يروى عن كنانة؟ قال: ما أعرفه. نا عبد الرحمن قال قرئ على العباس الدوري قال سمعت يحيى بن معين يقول: هاشم بن سعيد الذى يروى عن كنانة كوفى نزل البصرة ليس بشئ. نا عبد الرحمن قال سألت ابى عن هاشم بن سعيد فقال: ضعيف الحديث۔

الكاشف (2/ 150، رقم الترجمة: 4679)  دار القبلة للثقافة الإسلامية ، جدة:

كنانة عن مولاته صفية وعثمان وعنه زهير بن معاوية ومحمد بن طلحة وجماعة وثق ت۔[15]

حاصلِ عبارات:

پیچھے ذکرکردہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی  روایت جبر بن عبیدہ کی وجہ سے ضعیف ہے، البتہ اس میں  ضعف شدید نہیں،اس لیے بقیہ دو طرق کی متابعت کی وجہ سے یہ روایت سند کے اعتبار سے حسن لغیرہ شمار  ہو گی، کیونکہ ضعیف روایت توابع یا شواہد (جس کو محدثین کرام رحمہم اللہ کی اصطلاح میں کثرتِ طرق بھی کہا جاتا ہے)  سنداً حسن لغیرہ کے درجے کو پہنچ جاتی ہے۔

نمبر۳: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت کو امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ[16] نے اپنی ’’مسند‘‘ میں ذکر کیا ہے:

مسند إسحاق بن راهويه (1/ 462، رقم الحدیث: 537) مكتبة الإيمان - المدينة المنورة:

أخبرنا يحيى بن يحيى، أنا إسماعيل بن عياش، عن صفوان بن عمرو السكسكي، عن شيخ، عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما الهند، فقال: «ليغزون جيش لكم الهند فيفتح الله عليهم حتى يأتوا بملوك السند مغلولين في السلاسل فيغفر الله لهم ذنوبهم فينصرفون حين ينصرفون فيجدون المسيح ابن مريم بالشام» قال: أبو هريرة رضي الله عنه فإن أنا أدركت تلك الغزوة بعت كل طارد وتالد لي وغزوتها فإذا فتح الله علينا

انصرفنا فأنا أبو هريرة المحرر، يقدم الشام، فيلقى المسيح ابن مريم، فلأحرصن أن أدنو منه فأخبره أني صحبتك يا رسول الله، قال: فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم ضاحكا، وقال: «إن جنة الآخرة ليست كجنة الأولى يلقى عليه مهابة مثل مهابة الموت يمسح وجه الرجال ويبشرهم بدرجات الجنة»

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺنے ہندوستان کا تذکرہ کیا اور ارشاد فرمایا: ''ضرور تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا، اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا فرمائے گا حتیٰ کہ وہ (مجاہدین) سند(دوسری روایت میں ہند کا ذکر ہے) کے بادشاہوں کوبیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے اور اللہ  ان کی مغفرت فرما دے گا۔ پھرجب وہ مسلمان واپس پلٹیں گے تو شام میں عیسیٰ ابن مریم کو پائیں گے۔'' حضرت ابوہریرۃ نے عرض کیا: ''اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال بیچ دوں گا اور اس میں شرکت کروں گا  اور جب اللہ تعالیٰ  ہمیں فتح عطاکردیں گے  اور ہم واپس لوٹ آئیں گے  تو میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا ۔جب یہ لشکر ملک شام میں آئے گا  تو وہاں عیسیٰ ابن مریم کو پائے گا۔ یارسول اللہ! اس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے پاس پہنچ کر انہیں بتاؤں کہ میں آپ ﷺکا صحابی ہوں،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور ﷺمسکرائے اور فرمایا: آخرت کی جنت دنیا کی جنت کی طرح نہیں ہوگی، آدمی ان (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) سے خوف کی حالت میں ملے گا، جیسا کہ موت کا خوف۔ وہ مردوں کے چہروں پر ہاتھ پھیریں گے اور ان کو جنت کے درجات کی بشارت دیں گے۔

امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نے اسی روایت کو دوسری جگہ اختصار کے ساتھ نقل کیا ہے اور اس میں صرف یہاں تک تصریح ہے  کہ ’’جب یہ مجاہدین واپس لوٹیں گے تو شام میں حضرت عیسی علیہ السلام سے کو پائیں گے‘‘ اس کے بعد کی تفصیل (جو گزشتہ روایت میں گزری) اس میں مذکور نہیں ، دیکھیے عبارت:

مسند إسحاق بن راهويه (1/ 462، رقم الحدیث: 537) مكتبة الإيمان - المدينة المنورة:

أخبرنا يحيى بن يحيى، أنا إسماعيل بن عياش، عن صفوان بن عمرو السكسكي، عن شيخ، عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما الهند، فقال: «ليغزون جيش لكم الهند فيفتح الله عليهم حتى يأتوا بملوك السند مغلولين في السلاسل فيغفر الله لهم ذنوبهم فينصرفون حين ينصرفون فيجدون المسيح ابن مريم بالشام»

روایت کی اسنادی حیثیت:

اس روایت کے بارے میں بھی کسی امام کا صریح کلام نہیں ملا، اس لیے ائمہ جرح وتعدیل کا اس سند کے رواۃ کے بارے میں کلام ملاحظہ فرمائیں:

  1. اس سند کے سب سے پہلے راوی یحی بن یحی بن بکر بن عبدالرحمن حنظلی ہیں، ان کو امام احمد بن حنبل، امام نسائی، امام اسحاق بن راہویہ اور بہت سے ائمہ کرام رحمہم اللہ نے ثقہ قرار دیا ہے، ان سے حضرات شیخین یعنی امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے بھی احادیث لی ہیں، ان کی وفات دو سو چھبیس ہجری (226ھ) میں ہوئی۔

تهذيب الكمال (32/ 34، رقم الترجمۃ: 6943 ) مؤسسة الرسالة،بيروت:

خ م ت س: يحيى بن يحيى بن بكر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وقال إسحاق بن راهويه: يحيى بن يحيى أثبت من عبد الرحمن بن مهدي. وقال في موضع آخر: ما رأيت مثل يحيى بن يحيى ولا أرى يحيى مثل نفسه. وقال في موضع آخر: مات يحيى بن يحيى يوم مات وهو إمام لأهل الدنيا. وقال الحسن بن سفيان: كنا إذا رأينا رواية ليحيى بن يحيى عن يزيد بن زريع قلنا: ريحانة أهل خراسان عن ريحانة أهل العراق. وقال يحيى بن يحيى: أخبرت عن ابن حماد بن زيد، قال: قال أبي: ما أخرجت كتابي إلى أحد إلا إلى يحيى بن يحيى. وقال محمد بن أسلم الطوسي: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم في المنام، فقلت: عمن أكتب؟ قال: يحيى بن يحيى. وقال العباس بن مصعب المروزي: يحيى بن يحيى أصله مروزي، وهو من بني تميم من أنفسهم، وكان ثقة يرجع إلى زهد وصلاح.

الكاشف للذهبي (2/ 378، رقم الحديث: 6264) دار القبلة للثقافة الإسلامية،جدة:

 يحيى بن يحيى بن بكر التميمي النيسابوري أبو زكريا أحد الاعلام عن مالك وزهير بن معاوية وعنه البخاري ومسلم وداود بن الحسين البيهقي قال أحمد ما أخرجت خراسان بعد بن المبارك مثله وقال بن راهويه ما رأيت مثله ولا رأى مثل نفسه مات 226 ثبت فقيه صاحب حديث وليس بالمكثر جدا خ م ت س۔

  1. اس سند كے دوسرے راوی اسماعیل بن عیاش بن سلیم عنبسی  ہیں،  ان کے بارے میں امام یحی بن معین رحمہ اللہ نے ’’ لیس بہ بأس‘‘ کہا ہے، امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں ’’لین یکتب حدیثہ‘‘ کے الفاظ ذکر کر کے فرمایا کہ مجھے علم نہیں کہ ان سے حدیث لینے سے کسی شخص نے انکار کیا ہو سوائے ابو اسحاق فزاری کے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے نتیجتاً  ان پر اپنے شہر والوں سے لی جانے والی روایات کے سلسلے میں ’’تقریب التہذیب‘‘ میں ’’صدوق‘‘ کا حکم لگایا ہے۔

الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (2/ 192) أبو محمد عبد الرحمن بن محمد الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) دائرة المعارف العثمانية - بحيدر آباد الدكن – الهند:

حدثنا عبد الرحمن أنا ابن أبي خيثمه فيما كتب إلى قال سئل يحيى بن معين عن إسماعيل بن عياش فقال ليس به بأس، قال وسألت أبي عن إسماعيل بن عياش فقال هو لين يكتب حديثه لا أعلم أحدا كف عنه إلا أبو إسحاق الفزاري۔ قال وسمعت أبي يقول سئل إبراهيم بن موسى عن إسماعيل بن عياش كيف هو في الحديث؟ قال حسن الخضاب، قال وسئل أبو زرعة عن إسماعيل بن عياش [كيف هو في الحديث؟] قال: صدوق إلا أنه غلط في حديث الحجازيين والعراقيين.

تقريب التهذيب (ص: 109، رقم الترجمة: 473) أبو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852ھ) المحقق: محمد عوامة،الناشر: دار الرشيد - سوريا:

 إسماعيل ابن عياش ابن سليم العنسي بالنون أبو عتبة الحمصي صدوق في روايته عن أهل بلده مخلط في غيرهم من الثامنة مات سنة إحدى أو اثنتين وثمانين وله بضع وسبعون سنة 4۔[17]

  1. اس سند كے تیسرے راوی صفوان بن عمرو ہیں، علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے الکاشف میں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب التہذیب میں اور علامہ مزی رحمہ اللہ نے تہذیب الکمال میں امام ابو حاتم رازی، امام نسائی، امام محمد بن سعد اور امام عبد اللہ بن مبارک وغیرہ رحمہم اللہ کے حوالے سے ان کو "ثقہ" نقل كیا ہے، امام عمرو بن علی رحمہ اللہ نے ان کو ’’ثبت فی الحدیث‘‘ کہا ہے اور امام یحی بن معین رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں تعریفی کلمات کہے ہیں، ان سے  امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’الادب المفرد میں  اور ان کے علاوہ  امام مسلم، امام ابوداود، امام ترمذی، امام نسائی، امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان وغیرہ رحمہم اللہ نے روایات لی ہیں، ان کی وفات ایک سو پچپن ہجری (155ھ) میں ہوئی۔

تهذيب الكمال في أسماء الرجال (13/ 204، رقم الترجمۃ: 2888) مؤسسة الرسالة - بيروت:

بخ م: صفوان بن عَمْرو بن هرم السكسكي ۔۔۔۔۔قال عَبد اللَّهِ بْن أَحْمَد بْن حنبل ، عَن أبيه: ليس به بأس. وَقَال أبو حاتم: سألت يحيى بْن مَعِين عنه، فأثنى عليه خيرا،وَقَال عَمْرو بن علي: ثبت في الحديث. وَقَال علي بْن المديني: كان عند يحيى القطان أرفع من عبد الرحمن بن يزيد. وَقَال أَحْمَد بْن عَبد اللَّهِ العجلي ، ودحيم ، وأبو حاتم ، والنَّسَائي: ثقة زاد أبو حاتم: لا بأس به وقال محمد بن سعد  : كان ثقة مأمونا. وقال أبو زرعة الدمشقي۔

: قلت لعبد الرحمن بن إبراهيم: من الثبت بحمص؟ قال: صفوان، وبحير، وحريز، وثور، وأرطاة. وقال أبو حاتم  : سمعت دحيما يقول: صفوان أكبر من حريز، وقدمه وأثنى عليه وعلى حريز. وقال ابن خراش: كان ابن المبارك وغيره يوثقه.

الكاشف (1/ 503، رقم الترجمة: 2402،  دار القبلة للثقافة الإسلامية، جدة:

 صفوان بن عمرو السكسكي أبو عمرو الحمصي عن عبد الله بن بسر وجبير بن نفير والكباروعنه الوليد بن مسلم وبقية وأبو اليمان وثقوه مات 155ھ۔

                        تقريب التهذيب (ص: 277، رقم الترجمة: 2938،دار الرشيد - سوريا:

صفوان ابن عمرو ابن هرم السكسكي أبو عمرو الحمصي ثقة من الخامسة مات سنة مائة وخمس وخمسين أو بعدها بخ م 4۔

  1. اس روایت کے چوتھے راوی وہ ہیں جن سے صفوان بن عمرو رحمہ اللہ نے روایت  لی ہے،  مگرصفوان بن عمرو رحمہ اللہ نے ان کا نام نہیں ذکر کیا، بلکہ  لفظ’’شیخ‘‘کہہ کر روایت بیان کی ہے،جبکہ اس شیخ  کی عدالت وثقاہت اور ضبط کے بارے میں کچھ علم نہیں، لہذا ااس شیخ کے مبہم ہونے کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے کہ جب تک  روایت کی سند میں راوی کا نام  مذکور نہ ہو اس وقت تک اس کی روایت قبول نہیں کی جائے گی:

نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر (ص: 231) مطبعة سفير بالرياض:

  • أو لا يسمى الراوي، اختصارا من الراوي عنه. كقوله: أخبرني فلان، أو شيخ، أو رجل، أو بعضهم، أو ابن فلان. ويستدل على معرفة اسم المبهم بوروده من طريق أخرى مسمى. وصنفوا فيه المبهمات. ولا يقبل حديث المبهم، ما لم يسم، لأن شرط قبول الخبر عدالة رواته، ومن أبهم اسمه لا يعرف عينه؛ فكيف عدالته.[18]

اس سند کے آخری راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے اس کورسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے۔

مذكوره سند کے رواة کے بارے میں ائمہ کرام رحمہم اللہ کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ اس روایت کے بقیہ سب راوی ثقہ اور صدوق ہیں، البتہ اس سند میں چونکہ ایک مبہم راوی موجود ہے اورراوی کامبہم ہونا ضعف کا مقتضی ہے، اس لیے یہ روایت ضعیف ہے، لیکن اس میں ضعفِ شدید نہیں ہے، لہذا اگر اس کا کوئی معتبر متابع یا شاہد موجود ہو تو یہ یہ روایت مقبول ہو سکتی ہے۔ اس روایت کے متابعات اور شواہد کو نعیم بن حماد رحمہ اللہ نے ’’الفتن‘‘ میں ذکر کیا ہے، جن کی تفصیل یہ ہے:

۱۔ نعیم بن حماد کی پہلی روایت بطریق صفوان:

مذکورہ روایت کے ایک متابع کو نعیم بن حماد رحمہ اللہ(متوفى: 228ھ) [19]نے اپنی کتاب ’’الفتن‘‘  میں درج ذیل سند کے ساتھ ذکر کیا ہے:

الفتن لنعيم بن حماد (1/ 409، رقم الحدیث: 1236( مكتبة التوحيد،  القاهرة:

حدثنا بقية بن الوليد، عن صفوان، عن بعض المشيخة، عن أبي هريرة، رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، وذكر الهند، فقال: «ليغزون الهند لكم جيش، يفتح الله عليهم حتى يأتوا بملوكهم مغلولين بالسلاسل، يغفر الله ذنوبهم، فينصرفون حين ينصرفون فيجدون ابن مريم بالشام» قال أبو هريرة: إن أنا أدركت تلك الغزوة بعت كل طارف لي وتالد وغزوتها، فإذا فتح الله علينا وانصرفنا فأنا أبو هريرة المحرر،

يقدم الشام فيجد فيها عيسى ابن مريم، فلأحرصن أن أدنو منه فأخبره أني قد صحبتك يارسول الله، قال: فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وضحك، ثم قال: «هيهات هيهات»

روایت کی اسنادی حیثیت:

مذکورہ روايت كی سند کے رواة کے بارے میں ائمہ کرام رحمہم اللہ کے اقوال یہ ہیں:

  1. پہلے راوی ابو محمد بقيہ بن وليد کلاعی  ہیں، ان کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال مختلف ہیں، جيسا كہ صفحہ نمبر(4) پر تفصیل گزر چکی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بعض نے کہا اگر یہ ثقات سے روایت بیان کریں تو یہ ثقہ اور اگر ضعاف سے روایت لیں تو ان کی روایت مقبول نہیں، علامہ ذہبی رحمہ اللہ  نے جمہور ائمہ کرام کے حوالے سے ثقات سے لی گئی روایات کے سلسلہ میں ان کو ثقہ قرار دیا ہے، امام نسائی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اگر یہ حدثنا یا اخبرنا کے الفاظ سے روایت بیان کریں تو ان کی روایت مقبول ہو گی، ورنہ نہیں۔ائمہ کرام رحمہم اللہ کی عبارات سے یہی قول راجح معلوم ہوتا ہے، جبکہ مذکورہ روایت صیغہ ٔ عن کے ذریعہ بیان کی  گئی ہے، لہذا تدلیس کی وجہ سے اس روایت میں ضعف خفیف آئے گا اور ان کی یہ روایت فضائل کے باب میں قبول ہو گی۔ اس راوی کی وفات ایک سو ستانوے ہجری (197ھ) میں ہوئی:

الكاشف  للحافظ شمس الدين  الذهبی (1/ 273، رقم الترجمة: 619،  دار القبلة للثقافة الإسلامية، جدة:

بقية بن الوليد أبو يحمد الكلاعي الميتمي الحافظ عن بحير ومحمد بن زياد الالهاني وأمم وعنه بن جريج وشعبة وهما من شيوخه وكثير بن عبيد وأحمد بن الفرج الحجازي وثقه الجمهور فيما سمعه من الثقات وقال النسائي: إذا قال حدثنا وأخبرنا فهو ثقة مات  في 197 ھ۔

تقريب التهذيب  لابن حجر(ص: 126، رقم الترجمۃ: 734، دار الرشيد - سوريا:

بقية ابن الوليد ابن صائد ابن كعب الكلاعي أبو يحمد بضم التحتانية وسكون المهملة وكسر الميم [الميتمي] صدوق كثير التدليس عن الضعفاء من الثامنة مات سنة سبع وتسعين وله سبع وثمانون سنۃ۔

لسان الميزان (7/ 185، رقم الترجمۃ: 2443 ) مؤسسة الأعلمي للمطبوعات بيروت :

" بقية " بن الوليد أبو يحمد الحمصي اخرج له مسلم حديثا واحدا.

تهذيب الكمال في أسماء الرجال (4/ 198) مؤسسة الرسالة - بيروت:

وقال النسائي: إذا قال: حدثنا وأخبرنا"، فهو ثقة. وإذا قال: عن فلان"فلا يؤخذ عنه، لأنه لا يدرى عمن أخذه.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔استشهد به البخاري في "الصحيح"وروى له في "الأدب"، وروى له مسلم في "المتابعات"، واحتج به الباقون.

تهذيب الكمال في أسماء الرجال (4/ 197) مؤسسة الرسالة - بيروت:

وقال محمد بن سعد: كان ثقة في روايته عن الثقات، ضعيفا في روايته عن غير الثقات. وقال أحمد بن عبد الله العجلي: ثقة فيما روى عن المعروفين، وما روى عن المجهولين فليس بشيء. وقال أبو زرعة: بقية عجب إذا روى عن الثقات، فهو ثقة - وذكر قول ابن المبارك الذي تقدم - ثم قال: وقد أصاب ابن المبارك في ذلك، ثم قال: هذا في الثقات، فأما في المجهولين فيحدث عن قوم لا يعرفون ولا يضبطون.

  1. اس سند كے دوسرے راوى صفوان بن عمرو ہیں، جن کو ائمہ کرام رحمہم اللہ نے ثقہ قرار دیا ہے اور ان کے تفصیلی حالات صفحہ نمبر(24) پر  پیچھے گزر چکے ہیں، ان کی وفات(155ھ) میں ہوئی۔

  2. سند کے تیسرے راوی صفوان بن عمرو رحمہ اللہ کے شیخ ہیں ، جن كا نام مذكور نہیں اور وہ  اس روایت کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔

پیچھے ذکر کردہ عبارات کا خلاصہ یہ کہ اس سند میں ایک راوی ولید بن مسلم چونکہ مدلس راوی ہے اور مدلس کی معنعن روایت قبول نہیں، البتہ پیچھے ذکر کی گئی مسندِ اسحاق بن راہویہ کی روایت میں اس کا متابع اسماعیل بن عیاش موجود ہے، اس ليے ولید کی تدلیس کی وجہ سے پیدا ہونے والا ضعف اس روایت کو نقصان نہیں دے گا۔

البتہ اس روایت کی سند میں بھی مبہم راوی موجود ہے، کیونکہ صفوان بن عمرو نے اپنے شیخ کا نام ذکر نہیں کیا ، اس لیے یہ روایت بھی  ضعیف ہے اور اس کی وجہ سے  مسندِ اسحاق بن راہویہ کی روایت  کاضعف دور نہیں ہو گا، البتہ اس کی وجہ سے مسندِ اسحاق کی روایت میں کچھ تقویت آ جائے گی۔[20]

تنبیہ:

واضح رہے کہ نعیم بن حماد نے ’’الفتن‘‘ میں ایک اور روایت بھی نقل کی ہے، جس میں مبہم راوی سمیت بقیہ راوی گزشتہ سند والے ہی ہیں، البتہ اس میں حضوراکرم ﷺ سے نقل کرنے والے صحابی کا نام بھی مذکور نہیں، بلکہ صفوان بن عمرو رحمہ اللہ  نے جس شیخ سے روایت لی ہے وہ بغیر کسی  صحابی کا نام  ذکر کیے اس کو نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں اور  درمیان میں ساقط راوی کے بارے میں كوئی علم نہیں کہ اس نے کسی صحابی سے یہ روایت لی ہے یا کسی تابعی سے؟ پھر تابعی سے لینے کی صورت میں یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ تابعی ثقہ ہے یا ضعیف؟

نيز اس سند کے پہلے راوی ولید بن مسلم کی طرف تدلیس التسویہ (جس کی صورت یہ ہے کہ مدلس راوی کسی ایسے ثقہ شیخ سے روایت کرے جس نے ضعیف راوی سے روایت لی ہو اور اس ضعیف راوی نے آگے کسی ثقہ شیخ سے روایت نقل کی ہو تو مدلس راوی دونوں ثقہ شیوخ کے درمیان ضعیف راوی کا واسطہ ساقط کر کے دونوں ثقہ شخصوں کو آپس میں ملا دیتا ہے، جس سے سند سے بظاہر ضعف ختم ہو جاتا ہے، یہ تدلیس کی سب سے خطرناک قسم ہے)  کی نسبت کی گئی ہے اور مدلس کی صیغہ" عن "سے کی گئی روایت  فضائل کے باب میں بھی ثبوت کا فائدہ نہیں دیتی۔

الفتن لنعیم بن حماد (1/ 399، رقم الحدیث: 1202)  أبو عبد الله نعيم بن حماد الخزاعي (المتوفى: 228ھ) الناشر: مكتبة التوحيد – القاهرة:

حدثنا الوليد، عن صفوان بن عمرو، عمن حدثه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «يغزو قوم من أمتي الهند، فيفتح الله عليهم حتى يأتوا بملوك الهند مغلولين في السلاسل، يغفر الله لهم ذنوبهم، فينصرفون إلى الشام فيجدون عيسى ابن مريم بالشام»

تقريب التهذيب (ص: 584، رقم الترجمة: 7456 ،دار الرشيد - سوريا :

الوليد ابن مسلم القرشي مولاهم أبو العباس الدمشقي ثقة لكنه كثير التدليس والتسوية من الثامنة مات آخر سنة أربع أو أول سنة خمس وتسعين ۔

توضيح الأفكار لمعاني تنقيح الأنظار (1/ 318) محمد بن إسماعيل الصنعاني، أبو إبراهيم، المعروف بالأمير (المتوفى: 1182هـ) دار الكتب العلمية, بيروت:

"وله" أي لتدليس الإسناد "شرطان أحدهما أن يأتي بلفظ محتمل غير كذب مثل عن فلان

ونحوه وثانيهما أن يكون عاصره لأن شرط التدليس إيهام أنه سمع منه" ولا يتم إلا بالمعاصرة واللقاء عند شرطه "وإذا لم يعاصره زال التدليس" وصار كذابا أو مرسلا محضا "هذا هو الصحيح المشهور وروى ابن عبد البر" في التمهيد "عن بعضهم أنه لا يشترط ذلك" قال فجعل التدليس أن يحدث الرجل عن الرجل بما لم يسمعه منه بلفظ لا يقتضي تصريحا بالسماع وإلا لكان كذبا.

"قال ابن عبد البر فعلى هذا ما سلم من التدليس أحد لا مالك ولا غيره ومثله" أي مثل التدليس في حكمه۔

توضيح الأفكار لمعاني تنقيح الأنظار (1/ 324) دار الكتب العلمية, بيروت:

إحداهما: أن يكون البخاري ومسلم ونحوهما ممن صحح حديث المدلسين قد نص على أن عنعنة المدلس غير صحيحة۔

نمبر۲: نعیم بن حماد  کی  دوسری روایت بطریق کعب:

غزوہ ہند سے متعلق  دوسری روایت کو نعیم بن حماد رحمہ اللہ نے ’’الفتن‘‘ میں  یوں نقل کیا ہے:

الفتن لنعيم بن حماد (1/ 409، رقم الحدیث: 1235)  أبو عبد الله نعيم بن حماد بن معاوية بن الحارث الخزاعي المروزي ، الناشر: مكتبة التوحيد – القاهرة:

حدثنا الحكم بن نافع، عمن حدثه عن كعب، قال: «يبعث ملك في بيت المقدس جيشا إلى الهند فيفتحها، فيطئوا أرض الهند، ويأخذوا كنوزها، فيصيره ذلك الملك حلية لبيت المقدس، ويقدم عليه ذلك الجيش بملوك الهند مغللين، ويفتح له ما بين المشرق والمغرب، ويكون مقامهم في الهند إلى خروج الدجال»

ترجمہ: حضرت کعب  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بیت المقدس کا بادشاہ ایک لشکر ہند کی طرف بھیجے گا، وہ لشکر ہند کو فتح کرے گا، وہ ہند کی سرزمین کو روند ڈالے گا اور اس کے خزانے  نکال لے گا، بادشاہ ان خزانوں کو بیت المقدس کی زیب و زینت  کےلیے مختص کر دےگا، وہ لشکر ہند کے بادشاہوں کو طوق پہنا کر لائے گا اور وہ لشکر مشرق اور مغرب کے درمیان کے علاقوں کو فتح کرے گا اور وہ دجال کے نکلنے تک ہند میں  رہےگا۔

روایت کی اسنادی حیثیت:

      یہ روایت نعیم بن حماد کی’’الفتن‘‘ کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہیں ملی، اس کی اسنادی حیثیت کے بارے میں ائمہ کرام رحمہم اللہ سے صریح حکم کہیں نہیں ملا، اس لیے ائمہ جرح وتعدیل رحمہم اللہ کے اقوال کی روشنی میں  رواۃ کے  احوال  ملاحظہ فرمائیں:

  1. اس سند كےپہلے راوی حکم بن نافع ہیں، جن سے کتبِ ستہ کے مصنفین نے روایات لی ہیں، ان کو علامہ مزی رحمہ اللہ نے مختلف ائمہ کرام رحمہم اللہ کے حوالے سے ثقہ نقل کیا ہے، ان کی وفات دو سو بائیس ہجری (222ھ) میں ہوئی:

تهذيب الكمال (7/ 153رقم الترجمة: 1448، مؤسسة الرسالة - بيروت:

ع: الحكم بن نافع البهراني  ، أَبُو اليمان الحمصي، مولى امرأة من بهراء ۔۔۔۔۔۔۔۔وَقَال عبد الرحمن بن أَبي حاتم : سئل أبي عَن أبي اليمان، فَقَالَ: كان يسمى كاتب إسماعيل بن عياش كما يسمى أَبُو صالح كاتب الليث، وهو نبيل ثقة صدوق، وَقَال أَحْمَد بْن عَبد اللَّهِ العجلي : لا بأس بِهِ. وَقَال مُحَمَّد بْن عَبد الله بْن عمار الموصلي: كان ثقة۔                  

تقريب التهذيب (ص: 176، رقم الترجمة: 1464)  دار الرشيد - سوريا:

الحكم ابن نافع البهراني بفتح الموحدة أبو اليمان الحمصي مشهور بكنيته ثقة ثبت يقال إن أكثر حديثه عن شعيب مناولة من العاشرة مات سنة اثنتين وعشرين ع۔

تهذيب التهذيب (2/ 443،رقم الحدیث: 769) : مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند:

"ع - الحكم" بن نافع البهراني مولاهم أبو اليمان الحمصي روى عن شعيب بن أبي حمزة وحريز بن عثمان وعطاف بن خالد وسعيد بن عبد العزيز وصفوان بن عمرو…….. وقال أبو حاتم نبيل ثقة صدوق وقال بن عمار وقال العجلي: لا بأس به وقال أبو بكر محمد بن عيسى الطرسوسي سمعت أبا اليمان يقول صرت إلى مالك فرأيت ثم من الحجاب والفرش شيئا عجيبا فقلت ليس هذا من أخلاق العلماء فمضيت وتركته ثم ندمت بعد قال محمد بن مصفى وغيره مات سنة "211" زاد أبو زرعة وهو ابن "83"سنۃ وقال البخاري وغيره مات سنة "222"

  1. حكم بن نافع بہرانی رحمہ اللہ نے سند كے دوسرے راوى كا نام ذکر نہیں کیا، جس کی وجہ سے وہ  راوی مبہم ہے  اور اس کی وجہ سے روایت میں ضعف آ جاتا ہے، اگرچہ یہ ضعف شدید نہیں، جیسا کہ پیچھے گزر چکا۔

  2. تیسرے راوی ابو اسحاق کعب بن ماتع حمیری ہیں اور یہ کعب احبار کے نام سے معروف ہیں، یہ مشہور تابعی ہیں، ایک قول کے مطابق یہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اسلام لائے تھے، حضور اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کرتے ہیں، انہوں نے صحابہ کرام میں سے حضرت ابوہریرہ، حضرت معاویہ، حضرت ابن عباس، حضرت عائشہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم سے روایات لی ہیں، ابن سعد رحمہ اللہ نے ان کو شام کے طبقۂ اولیٰ کے تابعین میں سے شمار کیا ہے، ان سے کتب ستہ کے مصنفین کرام رحمہم اللہ نے روایات لی ہیں، بتیس ہجری (32ھ) میں ان کا انتقال ہوا۔

واضح رہے کہ مذکورہ سند میں کعب کی تصریح نہیں کی گئی کہ یہاں کون سے کعب مراد ہیں؟ کعب احبار رحمہ اللہ(جو مشہور تابعی ہیں) یا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ(جو مشہور صحابی ہیں)؟  اس لیے فی نفسہ اس میں دونوں احتمال موجود ہیں، کیونکہ حکم بن نافع سے مروی روایات کے طرق میں دونوں حضرات کا نام موجود ہے۔[21]  البتہ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کعب احبار رحمہ اللہ مراد ہیں، کیونکہ  حکم بن نافع رحمہ اللہ نے فتن کی اکثر  احادیث( جو حضرت کعب  کے طریق سے مروی ہیں) شریح بن عبید (ان کو علامہ مزی رحمہ اللہ نے امام احمد بن عبداللہ عجلی، امام عثمان دارمی اور امام نسائی رحمہم اللہ کے حوالے سے "ثقہ" نقل کیا ہے[22]) کے واسطہ سے نقل کی گئی  ہیں اور شریح بن عبیدکے اساتذہ میں کعب احبار رحمہ اللہ کا نام ہے، نہ کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا۔واللہ اعلم

تهذيب التهذيب (8/ 438، رقم الحدیث: 795) مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند:

"خ م د ت س فق - كعب" بن ماتع الحميري أبو إسحاق المعروف بكعب الأحبار من آل ذي رعين وقيل من ذي الكلاع أدرك الجاهلية وأسلم في أيام أبي بكر وقيل في أيام عمر روى عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا وعن عمر وصهيب وعائشة وعنه بن امرأته تبيع الحميري ومعاوية وأبو هريرة وابن عباس ومالك بن أبي عامر الأصبحي وعطاء بن أبي رباح وعبد الله بن ضمرة السلولي وعبد الله بن رباح الأنصاري وممطور أبو سلام

وأبورافع الصائغ وعبد الرحمن بن مغيث وروح بن زنباع ويزيد بن خمير وشريح بن عبيد ولم يدركه وابن مواهن وآخرون وذكره بن سعد في الطبقة الأولى من تابعي أهل الشام وقال كان على دين يهود فأسلم وقدم المدينة ثم خرج إلى الشام فسكن حمص حتى توفي بها سنة ثنتين وثلاثين في خلافة عثمان وفيها أرخه غير واحد وقال بن حبان : مات سنة 4 وقيل سنة 32 وقد بلغ مائة وأربع سنين۔

الثقات لابن حبان (3/ 350، رقم الترجمۃ: 1157) دائرة المعارف العثمانية بحيدر آباد الدكن الهند:

كعب بن مالك بن أبي كعب بن القين بن كعب بن سواد بن غنم بن كعب بن سلمة بن سعد بن علي بن أسد بن ساردة بن تزيد بن الجشم بن الخزرج الأنصاري السلمي المدني شهد العقبة من الثلاثة الذين تخلفوا تقدم ذكره توفي أيام قتل علي بن أبي طالب كنيته أبو عبد الله قد قيل إنه مات سنة خمسين وكان له يوم مات سبع وستون سنة.

ائمہ کرام رحمہم اللہ کے اقوال سے معلوم ہوا کہ  اس طریق کے  مذکورہ دونوں راوی ثقہ ہیں، البتہ یہ روایت تین وجوہ سے ضعیف ہے:

  1. پہلی وجہ:  اس روایت میں بھی مبہم راوی پایا جاتا ہے، کیونکہ اس میں حکم بن نافع نے جس راوی سے یہ روایت لی ہے وہ مبہم راوی ہے، جس  کی ثقاہت اور ضعف کا  علم نہیں، البتہ چونکہ حکم بن نافع رحمہ اللہ نے حضرت کعب  کے طریق سے مروی فتن کی اکثر  احادیث شریح بن عبیدکے واسطہ سے نقل کی ہیں، اس لیے اگریہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہاں مبہم راوی سے مراد شریح بن عبید ہیں تو اس صورت میں یہ وجہ ضعف نہیں رہے گی، کیونکہ شریح بن عبید کو ائمہ کرام رحمہم اللہ نے ثقہ قرار دیا ہے۔جيسا کہ گزشتہ صفحہ کے حاشیہ میں منقول عبارت میں تصریح کی گئی ہے۔

  2. دوسری وجہ: اس روایت میں انقطاع پایا جاتا ہے، کیونکہ حضرت کعب احبار رحمہ اللہ کی  وفات بتیس ہجری میں ہوئی ، جبکہ حکم بن نافع کی وفات دوسوبائیس ہجری میں ہوئی، دونوں کے درمیان تقریباً دو سو سال کا وقفہ ہے، اس لیے ان کے درمیان دو یا دو سے زياده راوی ساقط ہیں اور جس روایت کی  سند سے دو راوی ساقط ہوں وہ ’’معضل‘‘کہلاتی ہے، یہ بھی ضعیف روایت کی ایک قسم ہے، البتہ معضل روایت اعتبار  (یہ ایک عمل ہے، جس کے ذریعے روایت کو اس کے متابعات اور شواہد کی روشنی میں پرکھاجاتا ہے) کے حق میں مرسل کا حکم رکھتی ہے، یعنی مرسل روایت کی طرح معضل بھی متابعت کا فائدہ دیتی ہے۔

الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب البغدادي (2/ 191) محقق:. محمود الطحان،مكتبة المعارف – الرياض:

أنا أبو نعيم الحافظ، نا أبو محمد عبد الله بن محمد بن جعفر بن حنان، نا عبد الرحمن بن محمد بن إدريس، نا أحمد بن سلمة، قال: سمعت أبا قدامة السرخسي، يقول: سمعت عبد الرحمن بن مهدي، يقول: «لأن أعرف علة حديث أحب إلي من أن أستفيد عشرة أحاديث» وحكم المعضل مثل حكم المرسل في الاعتبار به فقط۔

  1. تیسری وجہ : اس روایت میں کعب کی تعیین نہیں ہو سکی، لہذا اگر  کعب سے کعب احبار مراد ہیں تو یہ روایت مرسل ہو گی، کیونکہ ان کو شرفِ صحابیت حاصل نہیں، پھر مرسل ہونے کی صورت میں اس میں  یہ احتمال بھی موجود ہے کہ انہوں نے صحابی کی بجائے کسی اور تابعی سے روایت لی ہو اور تابعین میں ثقات اور ضعاف دونوں قسم کے لوگ شامل ہیں۔

لہذا  یہ روایت بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت (بطریق اسحاق بن راہویہ) کو کچھ فائدہ نہ دے گی، کیونکہ اس میں ضعف گزشتہ دونوں روایات سے زیادہ ہے۔

حاصلِ بحث:

 غزوۂ ہند کے بارے میں  پیچھے ذکر کی گئی مکمل بحث کا خلاصہ یہ ہے:

  1. پہلی روایت حضرت ثوبان رضی للہ عنہ کی ہے، جو اصطلاحی اعتبار سےصحیح یا کم از کم حسن درجے کی ضرورہے، یہ مستند اور قابلِ استدلال روایت ہے اور  اس روایت میں صرف یہ ذکر ہے کہ غزوہ ہند میں شریک ہونے والی جماعت کو اللہ تعالیٰ آگ یعنی جہنم سے محفوظ  فرمائیں گے۔

  2. دوسری حضرت ابوہریرہ رضی اللہ کی روایت ہے، جو تین طرق سے مروی ہے اور تینوں طرق ضعیف ہیں، البتہ کثرتِ طرق کی وجہ سے اس میں پیدا ہونے والے ضعف کا جبیرہ ہو چکا ہے، اس لیے  یہ روایت سنداًحسن لغیرہ ہے، اس لیے اس سے بھی غزوہ ہند کی فضیلت پر استدلال کیا جا سکتا ہے اور  اس  روایت سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص غزوہ ہند میں شہید ہو گا وہ بہترین شہداء میں سے ہوگا اور جہنم سے آزاد ہو گا۔

  3. تیسری روایت بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہے، جو تین طرق سے مروی ہے، جس میں ہند کے ساتھ سند کا بھی ذکرہے، ہندیا سند(علی اختلاف الروایہ) کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑنے، ہند سے خزانوں کو نکالنے، پھر بیت المقدس کی طرف  واپس جانے اور شام میں حضرت عیسی علیہ السلام کو پانے وغیرہ کا ذکر ہے۔

لیکن یہ روایت کثرتِ طرق کے باوجود حسن لغیرہ کے درجے کو نہیں پہنچے گی، كيونكہ کثرتِ طرق سے ضعیف روایت اس وقت حسن لغیرہ کے درجے کو پہنچتی ہے جب اس میں پائے جانے والے ضعف کا انجبار ہو جائے، جبکہ اس روایت کے ضعف کا انجبار نہیں ہوا، کیونکہ ان میں سے  ہر ایک کی سند  میں مبہم راوی موجود ہے،  اس لیے آخری دو طرق کی متابعت  کے باوجود حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مسندِ اسحاق بن راہویہ میں ذکر کی گئی روایت کا ضعف دور نہیں ہوا۔

 البتہ چونکہ اس روایت میں فنی اعتبار سے ضعفِ شدید نہیں ہے اور مذکورہ روایت کا تعلق فضائل اور اخبار سے ہے اور فضائل و اخبار میں ضعیف روایت بھی قابلِ عمل ہوتی ہے، بشرطیکہ اس میں ضعفِ شدید نہ ہو اور اس کے ثبوت کا عقیدہ نہ رکھا جائے۔لہذا غزوہ ہند کی فضیلت کی حد تک اس روایت کو قبول جا سکتا ہے،خصوصاً جبکہ نفسِ فضيلت دیگر صحیح یا حسن درجے کی نصوص سے بھی ثابت ہے، اس کے علاوہ دیگر امور(جو پیچھے ذکر کیے گئے ہیں) کو اس روایت کی بناء پر ثابت ماننا اور اس کے ثبوت کا عقیدہ رکھنا درست نہیں۔

کیا غزوۂ ہند ہو چکا ہے؟

اس سوال کے جواب سے پہلے اس بات کی تحقیق ضروری ہے کہ’’ہند‘‘ سے کونسا خطۂ زمین مراد ہےاور اس میں کون کون سے علاقے شامل ہیں؟

لفظِ ’’ہند‘‘کا اطلاق:

تاریخ کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں پورے برصغیر کے علاقے کا ایک نام نہیں تھا، بلکہ مختلف ریاستوں کے علیحدہ علیحدہ نام تھے، جیسے بنگال، سندھ، بہاولپور،حیدرآباد اور کشمیر وغیرہ۔ انہیں میں سے ایک ہند تھا جو دریائے سندھ کے پار یعنی مشرقی علاقے کو کہا جاتا تھا، جہاں سنسکرت بولی جاتی تھی، کیونکہ جب اہل فارس نے اس علاقے کو فتح کیا تو انہوں نے دریائے سندھ کی مناسبت سے اس کا نام ہندھورکھا جو بعد میں ہند بن گیا۔ البتہ اہلِ عرب مشرق کی طرف کے تمام علاقہ جات کو ہند سے تعبیر کرتے تھے، تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:

اردو دائرة المعارف (ج:23ص:173) زیر اہتمام پنجاب  یونیورسٹی، لاہور، ط: عالمین پبلیکیشنز پریس، ریٹیگن روڈ۔ ہجویری پارک، لاہور۔

مصر قدیم کے جغرافیہ دان لفظ ہند کو سندہ کے مشرقی علاقوں کے لیے استعمال کرتے تھے، ہند سے جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک بھی مراد لیے جاتے تھے، چنانچہ جب ہند کے بادشاہ یا ہند کے علاقے کہا جاتا تھا تو اس سے صرف ہند ہی مراد نہ ہوتا تھا، بلکہ اس میں انڈونیشیا، ملایا وغیرہ بھی شامل سمجھے جاتے تھے اور جب سندھ کہا جاتا تھا تو اس  میں سندھ، مکران، بلوچستان، پنجاب کا کچھ حصہ اور شمال مغربی سرحدی صوبے بھی شامل سمجھے جاتے تھے،ایسا کوئی نام نہ تھا جس کا اطلاق پورے ہندوستان پر ہو، ہند اور سندھ مل کر ہی ہندوستان کو ظاہر کرتے تھے، عربی اور فارسی میں جب ہندوستان کے جغرافیائی حالات بیان کیے جاتے تھے تو اس میں ہند اور سندھ دونوں کے حالات شمال ہوتے تھے، یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے کوئی نام ایسا نہ تھا جس کا اطلاق پورے ملک پر ہو، ہر صوبے کا اپنا اپنا الگ نام ہوتا تھا، اہلَ فارس نے جب اس ملک کے ایک صوبےے پر قبضہ کر لیا تو اس دریا کے نام پر جیسے اب سندھ کہتے ہیں، ہندھو رکھا، کیونکہ ایرانَ قدیم کی زبان پہلوی میں اور سنسکرت میں س اور ہ کو آپس میں بدل لیا کرتے تھے، چنانچہ فارسی والوں نے ہندھو کہہ کر پکارا، جبکہ عربوں نے سندھ کو تو سندھ ہی کہا، لیکن اس کے علاوہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں کو ہند کہا اور آخر میں یہی نام تمام دنیا میں پھیل گیا۔

اردو دائرة المعارف (ج:11ص:330) زیرِ اہتمام پنجاب یونیورسٹی، لاہور، ط: عالمین پبلیکیشنز پریس، ریٹیگن روڈ۔ ہجویری پارک، لاہور:

پہلی صدی ہجری/آٹھویں صدی عیسوی میں سندھ آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ وسیع ملک تھا، اس میں موجودہ بلوچستان کے علاوہ مکران کے مشرقی اضلاع بھی شامل ہوتے تھے،شمال میں اس کی سرحد جہلم اور چناب کے سنگم تک تھی اور جنوب میں جسلمیراور مارواڑ کے کچھ علاقے بھی اس میں شامل تھے۔

عرب وہند کے تعلقات: (ص:10) مؤلفہ: سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ، ط: دارالمصنفین شبلی اکیڈمی، یوپی، انڈیا:

مسلمانوں کی آمد سے پہلے اس پورے ملک کا کوئی ایک نام نہ تھا، ہر صوبہ کا الگ الگ نام تھا، ہر ریاست کا نام اس کی راجدھانی کے نام سے معروف تھا، جب اہلِ فارس نے اس ملک کے ایک صوبے پر قبضہ کیا تو اس دریا کا نام جس کو آج کل دریائے سندھ کہتے ہیں، ہندھو رکھا، اس کا نام عربی میں ’’مہران‘‘ ہے، پرانی ایرانی زبان میں ’’س‘‘ اور ’’ہ‘‘ آپس میں بدلا کرتے ہیں، اس لیے اہلِ فارس نے اس کا نام ہندھو رکھا، اس سے اس ملک کا نام ہند پڑ گیا، عربوں نے  جو سندھ کے علاوہ اس علاقے کے دوسرےشہروں سے بھی واقف تھے، انہوں نے سندھ کو سندھ ہی کہا، لیکن سندھ کے علاوہ دیگر شہروں کو ہند قرار دیا اور آخر یہی نام تمام دنیا میں پھیل گیا۔[23]

كتاب المسالك والممالك للاصطخري أو مسالك الممالك أبو اسحاق إبراهيم بن محمد الفارسي الاصطخري، المعروف بالكرخي (المتوفى: 346هـ) الناشر: الهيئة العامة لقصور الثقافة القاهرة:

]بلاد السند[

وأما بلاد السند وما يصاقبها مما قد جمعناه فى صورة واحدة، فهى بلاد السند وشىء من بلاد الهند ومكران وطوران والبدهة، وشرقىّ ذلك كله بحر فارس، وغربيّه كرمان ومفازة سجستان وأعمال سجستان، وشماليه بلاد هند ، وجنوبيه مفازة بين مكران والقفص، ومن ورائها بحر فارس، وإنما صار بحر فارس يحيط بشرقى هذه البلاد والجنوبىّ من وراء هذه المفازة، من أجل أن البحر يمتد من صيمور على الشرقىّ إلى نحو  تيز مكران، ثم ينعطف على هذه المفازة إلى أن يتقوّس على بلاد كرمان وفارس.

[ما وراء النهر]

وأما ما وراء النهر فيحيط به من شرقيّة: فامر وراشت، وما يتاخم الختّل من أرض الهند خط مستقيم، وغربيّه بلاد الغزيّة والخزلجيّة من حدّ طراز، ممتدا على التقويس حتى ينتهى إلى فاراب وبيسكند وسغد سمرقند ونواحى بخارى إلى خوارزم، حتى ينتهى إلى بحيرتها، وشماليّه الترك الخزلجية من أقصى بلد فرغانة إلى الطّراز على خط مستقيم، وجنوبيّه نهر جيحون من لدن بذخشان إلى بحيرة خوارزم على خط مستقيم؛ وجعلنا خوارزم والختّل فى ما وراء النهر لأن الختّل بين نهر جرياب ووخشاب، وعمود جيحون جرياب، وما دونه من وراء النهر. وخوارزم مدينتها وراء النهر ، وهى إلى مدن ما وراء النهر أقرب منها إلى مدن خراسان.

صورة الأرض لابن حوقل:(ص: 274) لأبي القاسم بن حوقل النصيبي:

وأما بلاد السند ومايصاقبها للاسلام مما جمعته في صورة واحدة فهي بلاد السند وشيئ من بلاد الهند، ومكران وطوران، والبدهة وشرقي ذلك كله بحر فارس، وغربيها كرمان ومفازة سجستان وأعمالها وشماليتها بلاد الهند، وجنوبيها ما بين مكران والقفص ومن ورائها بحر فارس، وإنما صار بحر فارس يحيط بشرقي هذه البلاد والجنوبي من وراء هذه المفازة من أجل هذه البحر يمتد من صيمور شرقي إلي تيز مكران۔

مذکورہ بالا عبارات سے معلوم ہوا کہ حدیثِ پاک میں بیان کیے گئے لفظ  ہند کے مصداق میں اہل عرب اور اہل فارس کے ہاں دریائے سندھ کا مشرقی علاقہ بہرصورت شامل ہے، جس میں موجودہ جغرافیائی تقسیم کے اعتبارسے بھارت اور بنگلہ دیش مکمل شامل ہیں، جبکہ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات (اٹك پل تك) اور دریائے سندھ کے مغربی علاقہ کو چھوڑ کر بقیہ علاقے اس میں شامل ہیں،[24]كيونکہ بقیہ تمام علاقہ  جات دریائے سندھ کے مشرق میں واقع ہیں،  اس کے علاوہ اردگرد کے دیگر علاقوں کو اہلِ عرب کی تعبیر کے مطابق ہند میں شامل کیا جا سکتا ہے، کیونکہ وہ عرب کے تمام مشرقی علاقوں کو ہند سے تعبیر کرتے تھے، البتہ اہلِ فارس کی تعبیر کے مطابق  دیگر علاقے اُس وقت کےتناظر میں ہند کے مصداق میں شامل نہیں ہوں گے۔

 یہ بھی واضح رہے کہ اہلِ عرب سندھ كو اس وقت بھی سندھ ہی کہتے تھے، اسی لیے محمد بن قاسم کے حملے کے تذکرہ میں سب تاریخ دانوں نےصرف سندھ کا ذکر کیا ہے، کسی نے اس علاقے کو ہند سے تعبیر نہیں کیا۔

غزوہ ہند کا مصداق :

غزوۂ ہند کا مصداق کیا ہے؟ اور یہ غزوہ کب ہو گا؟  اس کے بارے میں کسی صحیح یا حسن درجے کی حدیث  میں کوئی صراحت منقول نہیں، اس لیے اس غزوہ کے مصداق اور اس کی تعیین کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے، البتہ علامات اور قرائن کے اعتبار سے اس کے مصداق کے بارے میں تین اقوال ہو سکتے ہیں، جن کی تفصیل یہ ہے:

پہلا قول:

یہ فضیلت ہند کی کسی خاص جنگ سے متعلق نہیں، بلکہ ہند میں ہونے والی سب جنگیں اس فضیلت میں شامل ہیں، چنانچہ اسلام کے ابتدائی اور وسطی دور میں جو غزوات ہند میں ہوئے، جن کی بناء پر ہندوستان ایک عرصہ تک دارالاسلام بنا رہا اور وہاں اسلامی حکومت قائم رہی، جن میں بالخصوص حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں چوالیس ہجری (۴۴ھ) میں جو جنگ لڑی گئی،  اس کے بعد محمد بن قاسم رحمہ اللہ نے سات سو بارہ عیسوی (۹۳ھ) میں  جو جنگ لڑی  اور پھر چوتھی  صدی ہجری میں محمود غزنوی (متوفی:۴۲۰ھ)کے دور میں لڑی جانے والی جنگیں اور بارہویں صدی ہجری میں احمد شاه ابدالی (متوفی: ۱۱۳۴ھ) کے دور میں لڑی جانے والی سب جنگیں غزوۂ  ہند کے مصداق میں شامل ہیں۔چنانچہ علامہ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے ’’البدایہ والنہایۃ‘‘ میں حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اور محمود غزنوی رحمہ اللہ کے دور میں لڑی جانے والی جنگوں کا ذکر کیا ہے، اور  انہوں نے  غزوۂ ہند کو کسی زمانہ کے ساتھ خاص نہیں کیا، لہذا اس صورت میں قربِ قیامت میں ہونے والی جنگیں بھی اس کے مصداق میں شامل ہوں گی۔

یہ قول مرجوح معلوم ہوتا ہے، کیونکہ تمام روایات میں غزوہ ہند کے بارے میں تین الفاظ(غزوۃ، جیش اور عصابۃ)ذکرکیے گئے ہیں اور يہ تینوں واحد کے صیغے ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی ایک خاص لشکر یا جماعت ہو گی جو ہند میں قتال کرے گی، نیزعلامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی ان تمام جنگوں کو صراحتاً غزوہ ہند کا مصداق قرار نہیں دیا۔لہذا اس علاقے میں ہونے والی تمام جنگوں کو اس روایت کا مصداق قرار دینا محلِ نظر معلوم ہوتا ہے۔

البداية والنهاية لابن كثير الدمشقي(6/ 249) ط: دار إحياء التراث العربي:

الأخبار عن غزوة الهند:  قال الإمام أحمد: حدثنا هشيم عن سيار بن حسين بن عبيدة، عن أبي هريرة قال: وعدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة الهند فإن استشهدت كنت من خير الشهداء، وإن رجعت فأنا أبو هرير المحرر رواه النسائي من حديث هشيم وزيد بن أنيسة عن يسار عن جبر، ويقال: جبير، عن أبي هريرة قال: وعدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة الهند فذكره، وقال أحمد: حدثنا يحيى بن إسحاق، ثنا البراء عن الحسن عن أبي هريرة

قال: حدثني خليلي الصادق المصدوق، رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: يكون في هذه الأمة بعث إلى السند والهند، فإن أنا أدركته فاستشهدت فذاك، وإن أنا وإن أنا فذكر كلمة رجعت فأنا أبو هريرة المحدث قد أعتقني من النار  تفرد به أحمد، وقد غزا المسلمون الهند في أيام معاوية سنة أربع وأربعين، وكانت هنالك أمور سيأتي بسطها في موضعها، وقد غزا الملك الكبير الجليل محمود بن سبكتكين، صاحب غزنة، في حدود أربعمائة، بلاد الهند فدخل فيها وقتل وأسر وسبى وغنم ودخل السومنات وكسر الند الأعظم الذي يعبدونه، واستلب سيونه وقلائده، ثم رجع سالما مؤيدا منصورا.

دوسرا قول:

بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ اس سے خاص ہندوستان مراد نہیں ہے، بلکہ ہندوستان کی طرف کے سب علاقے مراد ہیں جس میں خاص طور پر بصرہ اور اس کے اطراف کا علاقہ ہے اس کی تائید بعض آثار صحابہ سے ہوتی ہے جو یہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم لوگ ہند سے بصرہ مراد لیتے ہیں اس تاویل کے اعتبار سے غزوہ ہند کے سلسلہ کی روایات کا تعلق ان جنگوں سے ہو گا جو ابتدائی زمانہ میں  فارس سے ہوئیں، موجودہ ہند کی جنگوں سے اس کا تعلق نہ  ہو گا۔

(فتاوی دارالعلوم دیوبندبتصرف،فتوی نمبر: 047- 000/37=20/1438)

واضح رہے کہ تلاش کے باوجود اس قول کا بھی  کوئی ماخذ نہیں ملا، نیز  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہند سے بصرہ مراد لینے کی تصریح بھی کسی روایت میں نہیں ملی،اس لیے یہ قول بھی مرجوح  ہے۔

  تيسرا قول:

ابھی ان روایات کا مصداق پیش نہیں آیا،  بلکہ حضرت امام مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے زمانہ میں اس معرکہ آرائی کا تحقق ہوگا،  اس رائے کے قائلین ان روایتوں کو پیش کرتے ہیں جو  امام نعیم بن حماد رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”الفتن“ اور امام اسحاق بن راہویہ  نے اپنی" مسند" میں ذکر  کی ہیں، جن میں یہ ذکر ہے کہ ”ایک جماعت ہندوستان میں جہاد کرے گی اور اس کو فتح نصیب ہوگی اور جب وہ مال غنیمت لے کر واپس لوٹیں گے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کو پائیں گے“  نیز بعض روایات میں یہ بھی مذکور ہے کہ یہ لشکر دجال کے نکلنے تک ہند میں ہی رہے گا۔ اور خروج دجال بھی حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے کے قریب ہو گا۔ اور قرائن کی روشنی میں یہی قول راجح معلوم ہوتا ہے، جس کی وجوہ درج ذیل ہیں:

پہلی وجہ: حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث (جس کو بعض حضرات نے صحیح اور بعض نے حسن قرار دیا ہے) اس میں حضرت عیسی بن مریم کے ساتھ مل کر جنگ کرنے والی اور ہند کے علاقے  میں لڑنے والی دونوں جماعتوں كو اکٹھا ذکر کیا گیا ہے، اورلفظوں کے اتصال سے بظاہر زمانے کے اتصال  پر استیناس کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ شام میں الملحمة الكبرى اور برصغير ميں غزوہٴ ہند ان دونوں جنگوں میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ اس کے بعد خلافت الہیہ عالمیہ قائم ہو گی جو ان دونوں جنگوں میں کامیابی کا نتیجہ ہو گی۔

دوسری وجہ: قربِ قيامت كا زمانہ انتہائی مشکل اور پرفتن ہو گا، جس میں دین پر ثابت قدم رہنا انتہائی مشکل ہو گا، اس لیے ان کٹھن حالات میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے کی بنیاد پر یہ بشارت سنائی گئی۔

تیسری وجہ: غزوہٴ ہند سے متعلق  وہ روایات جن کو امام نعیم بن حماد اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہما اللہ نے ذکر کیا ہے اگر ان کوحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت (جو کثرتِ طرق کی وجہ سے حسن لغیرہ کا درجہ رکھتی ہے) کا متابع قرار دیا جائے تو اس صورت میں غزوہ ٔہند کا مصداق  غالب گمان كی حد تك حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے میں ہونے والی جنگیں ہوں گی، خصوصاً صفوان بن عمرو سکسکی رحمہ اللہ کی روایت اصولوں کی روشنی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی پہلی روایت کے لیے متابعت کا فائدہ دے سکتی ہے، کیونکہ اس روایت کے بھی کچھ الفاظ وہی ہیں جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی پہلی روایت میں ذکر کیے گئے ہیں، دونوں روایات ملاحظہ فرمائيں:

 الجهاد لابن أبي عاصم (2/ 668) مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة:

قال: حدثنا عبد الصمد قال: حدثنا هاشم بن سعيد، عن كنانة بن نبيه مولى صفية، عن أبي هريرة قال: «وعدنا الله ورسوله غزوة الهند، فإن أدركها أنفق فيها نفسي ومالي، فإن قتلت كنت كأفضل الشهداء، وإن رجعت فأنا أبو هريرة المحرر»

مسند إسحاق بن راهويه (1/ 462، رقم الحدیث: 537) مكتبة الإيمان - المدينة المنورة:

أخبرنا يحيى بن يحيى، أنا إسماعيل بن عياش، عن صفوان بن عمرو السكسكي، عن شيخ، عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما الهند، فقال: «ليغزون جيش لكم الهند فيفتح الله عليهم حتى يأتوا بملوك السند مغلولين في السلاسل فيغفر الله لهم ذنوبهم فينصرفون حين ينصرفون فيجدون المسيح ابن مريم بالشام» قال: أبو هريرة رضي الله عنه فإن أنا أدركت تلك الغزوة بعت كل طارد وتالد لي وغزوتها فإذا فتح الله علينا انصرفنا فأنا أبو هريرة المحرر، يقدم الشام، فيلقى المسيح ابن مريم، فلأحرصن أن أدنو منه فأخبره أني صحبتك يا رسول الله، قال: فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم ضاحكا، وقال: «إن جنة الآخرة ليست كجنة الأولى يلقى عليه مهابة مثل مهابة الموت يمسح وجه الرجال ويبشرهم بدرجات الجنة»[25]

البتہ ان روایات کی وجہ سے بھی حتمی طور پر غزوۂ ہند کی تعیین مشکل ہے، کیونکہ غزوهٔ ہند سے واپسی پر شام جانے اور وہاں حضرت عیسی علیہ السلام کو پانے کا ذکر ثقات کی روایات میں نہیں ہے، بلکہ یہ اضافہ دوسری روایات میں ہے جن سب  کا مدار مبہم راوی پر ہے اور راوی کا مبہم ہونا ضعف کا ایک درجہ ہے اور ائمۂ كرام  رحمہم اللہ کی تصریح کے مطابق ضعیف راوی کا اضافہ قبول نہیں۔[26] اس لیے یہ روایات ثبوت کا فائدہ نہیں دیں گی، البتہ ان روایات سے اس قول کی تائید ضرور ہوتی ہے، اس لیے  ان ضعیف روایات کی وجہ سے اس قول کو  غالب گمان کی حد تک راجح قرار دیا جا سکتا ہے،اسی لیے  بعض عرب علمائے کرام نے غزوهٴ ہند کے مصداق میں  اسی قول کو لیا ہے:

إتحاف الجماعة بما جاء في الفتن والملاحم وأشراط الساعة لحمود بن عبد الله التويجري (المتوفى: 1413هـ) (1/ 365) دار الصميعي للنشر والتوزيع، الرياض:

قال ابن كثير في "البداية والنهاية": "وقد غزى المسلمون الهند في أيام معاوية سنة أربع وأربعين، وكانت هنالك أمور، وقد غزا الملك الكبير الجليل محمود بن سبكتكين صاحب غزنة في حدود أربعمائة بلاد الهند، فدخل فيها وقتل أسر وسبى وغنم ودخل السومنات وكسر البد الأعظم الذي يعبدونه واستلب شنوفه وقلائده، ثم رجع سالما مؤيدا منصورا ". انتهى.

قلت: وقد استوفى أبو الحسن علي بن محمد بن الأثير الجزري أخبار غزو السلطان محمود للهند في كتابه "الكامل في التاريخ"؛ فلتراجع هناك. وما ذكر في حديث أبي هريرة رضي الله عنه الذي رواه نعيم بن حماد من غزو الهند؛ فهو لم يقع إلى الآن، وسيقع عند نزول عيسى ابن مريم عليهما الصلاة والسلام إن صح الحديث بذلك. والله أعلم.

خلاصہٴ بحث:

پوری بحث کا حاصل یہ ہے کہ مستند احادیث مبارکہ سے غزوہٴ ہند کی فضیلت ثابت ہے، البتہ کسی بھی صحیح یا حسن درجے کی حدیث میں ہند کے علاقے کی تعیین اور غزوہٴ ہند کے مصداق کی تصریح منقول  نہیں، اس لیے برصغیر میں ہونے والی کسی بھی جنگ کو حتمی طور پر غزوٴ ہند کا مصداق قرار دینا مشکل ہے، خواہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہو یا کوئی اور جنگ۔

البتہ بعض روایات (جن پر اگرچہ کچھ کلام ہے) اور کچھ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ غزوہ حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں پیش آئے گا، اور اُس زمانہ کے کٹھن اور پرفتن حالات کے موافق یہی قول زیادہ قرینِ قیاس اور اقرب الی الصواب معلوم ہوتاہے۔


[1] سنن النسائي (6/ 42، رقم الحديث: 3175) مكتب المطبوعات الإسلامية – حلب:

[2] نیز یہ   روایت کثرتِ طرق سے بھی مروی ہے، جس سے روایت میں مزید قوت آجاتی ہے اور کثرت کے لیے دو طریق بھی کافی ہیں، جیسا کہ علامہ نووی، حافظ ابن حجر، علامہ سیوطی اور علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہم اللہ وغیرہ نے تصریح فرمائی ہے:

 تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي لعبد الرحمن السيوطی (1/ 194) دار طيبة:

(وأما الضعف لفسق الراوي)، أو كذبه، (فلا يؤثر فيه موافقة غيره) له، إذا كان الآخر مثله ; لقوة الضعف وتقاعد هذا الجابر. نعم يرتقي بمجموع طرقه، عن كونه منكرا أو لا أصل له. صرح به شيخ الإسلام، قال: بل ربما كثرت الطرق حتى أوصلته إلى درجة المستور والسيئ الحفظ، بحيث إذا وجد له طريق آخر فيه ضعف قريب محتمل ارتقى بمجموع ذلك إلى درجة الحسن۔

[3] ثلاث رسائل في علم مصطلح الحديث:ص:104) اعتني به الشيخ أبو غدة رحمه الله، مكتب المطبوعات الإسلامية۔

سألت الإمام أبا القاسم سعد بن علي الزنجاني بمكة عن حال رجل من الرواة فوثّقه، فقلت: إن ابا عبد الرحمن النسائي ضعّفه، فقال: يا بني! إن لأبي عبد الرحمن في الرجال شرطا أشد من شرط البخاري ومسلم۔

 النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر (1/ 483)ط: الجامعة الإسلامية، المدينة المنورة، السعودية:

’’كم من رجل أخرج له أبو داود والترمذي تجنب النسائي إخراج حديثه، بل تجنب إخراج حديث جماعة من رجال "الصحيحين۔

([4] ) تهذيب الكمال في أسماء الرجال (30/ 283رقم الترجمۃ: 6595) مؤسسة الرسالة ، بيروت:

ع: هشيم بن بشير بن القاسم بن دينار السلمي، أبو معاوية بن أبي خازم، وقيل: أبو معاوية بن بشير بن أبي خازم، الواسطي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقال أحمد بن عبد الله العجلي : هشيم واسطي ثقة، وكان يدلس وَقَال عبد الرحمن بن أَبي حاتم  : سئل أبي عن هشيم، ويزيد بن هارون، فَقَالَ: هشيم أحفظهما. وَقَال أيضا  سَأَلتُ أبي عَنْ هشيم، فَقَالَ: ثقة، وهشيم أحفظ من أبي عوانة. وَقَال أيضا: سئل أَبُو زُرْعَة عَنْ جرير وهشيم؟ فَقَالَ: هشيم أحفظ. وقال محمد بن سعد: كان ثقة، كثير الحديث، ثبتا، يدلس كثيرا، فما قال في حديثه أخبرنا فهو حجة، وما لم يقل فيه أخبرنا فليس بشيء.

الكاشف (2/ 338، رقم الحدیث: 5979) دار القبلة للثقافة الإسلامية - مؤسسة علوم القرآن، جدة:

هشيم بن بشير أبو معاوية السلمي الواسطي حافظ بغداد عن عمرو بن دينار وأبي الزبير وعنه أحمد وابن معين وهناد إمام ثقة مدلس عاش ثمانين سنة توفى 183 ع۔

[5] تاريخ الإسلام للحافظ الذهبي (8/ 77، رقم الترجمة: 146) المكتبة التوفيقية:

ع: سيار أبو الحكم الواسطي - العنزي. مولاهم العبد الصالح. روى عن طارق بن شهاب وأبي وائل والشعبي وأبي حازم الأشجعي وجماعة. وعنه شعبة وسفيان وهشيم وخلف بن خليفة وآخرون. قال أحمد بن حنبل: ثقة ثبت. ويقال: إن اسم أبيه وردان. توفي سنة اثنتين وعشرين ومائة.

[6] الثقات لابن حبان (4/ 117 رقم الترجمة:2076) دائرة المعارف العثمانية بحيدر آباد الدكن الهند:

جبر بْن عُبَيْدَة يروي عَن أَبِي هُرَيْرَة روى عَنهُ سيار أَبُو الحكم۔

[7] ميزان الاعتدال (1/ 388، رقم الترجمة: 1436)  دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت:

جبر أو جبير [س] بن عبيدة. عن أبي هريرة بخبر منكر. لا يعرف من ذا. وحديثه: وعدنا بغزوة الهند.

ديوان الضعفاء والمتروکین للذهبي(ص: 60، رقم الحديث:  721 ) مكتبة النهضة الحديثة – مكة:

جبر بن عبيدة، أو جبير: عن أبي هريرة، مجهول.

یہ بھی واضح رہے کہ حافظِ ذہبی رحمہ اللہ کا ان کی خبر کے بارے میں لفظِ منکر  کبھی متقدمین کی اصطلاح کے مطابق تفرد کے معنی میں بھی استعمال کرتے ہیں اور یہاں "منکر" شاید اسی معنی میں ہو،  جس کا قرینہ یہ ہے کہ حافظِ ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’تاريخ الاسلام‘‘ میں اس روایت کو غریب کہا ہے،دیکھیے عبارت:

تاريخ الإسلام ت بشار (1/ 712) دار الغرب الإسلامي، بيروت:

وقال هشيم، عن سيار أبي الحكم، عن جبر بن عبيدة، عن أبي هريرة قال: وعدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة الهند، فإن أدركتها أنفق فيها مالي ونفسي، فإن استشهدت كنت من أفضل الشهداء، وإن رجعت فأنا أبو هريرة المحرر. غريب.

[8] علامہ شعیب ارنؤوط اور شیخ بشار عواد رحمہمااللہ کی ’’تحریر تقریب التہذیب‘‘ میں  اس کو ضعیف قرار دیا گیا ہے اور شیخ ماہر یسین الفحل حفظہ اللہ  کا’’کشف الایہام لما تضمنہ تحریرتقریب التہذیب من الاوہام‘‘  میں سکوت اختیار کرنا بھی اسی قول کا مقتضی ہے۔

[9] الكاشف (1/ 50) لشمس الدين الذهبي (المتوفى: 748هـ) دار القبلة للثقافة الإسلامية،جدة:

وأما ابن حبان رحمه الله: فقد اشتهر أنه يوثق المجاهيل ومن يقول فيه: لا أعرفه، ولا ابن من هو، ولا، ولا، وهذا هو مرادهم بقولهم: يوثق المجهول عينا الذي لم يرو عنه إلا راو واحد.  وأقول: نعم، ولكن بشرط أن لا يكون في هذا المجهول العين تضعيف، لان ابن حبان لا يرى الجهالة جرحا۔

[10] مسند أحمد التحقيق: الشيخ احمد  شاكر (6/ 532، رقم الحدیث: 7128) :

قال احمد شاکر: إسناده صحيح، سيار، بفتح السين المهملة وتشديد الياء التحتية: هو أبو الحكم الواسطي، سبق، سبق توثيقه (3552)، ونزيد هنا أنه ترجمه البخاري في الكبير (2/ 2/ 162)، وابن أبي حاتم (2/ 1/ 254 - 255). ووقع في (ح) "يسار"، وهو خطأ مطبعي، صححناه من (ك م).

جبر بن عبيدة: هو الشاعر، وهو تابعي ثقة، ترجمه البخاري في الكبير (1/ 2/ 242) فلم يذكر فيه جرحا، وابن أبي حاتم (1/ 1/ 533) فلم يجرحه أيضا، وذكره ابن حبان في الثقات (ص 157). وزعم الذهبي في الميزان (1: 180) أنه أتى "بخبر منكر، لا يعرف من ذا!، وحديثه: وعدنا بغزوة الهند!!، وكذلك نقل الحافظ في التهذيب (2: 59) عما قرأ بخط الذهبي۔

 ولست أدري مم جاء للذهبى نكر الخبر؟، ولم ينكره البخاري ولا غيره من قبله، ولم يجرحوا هذا التابعي بشيء!، ما هو إلا التحكم. "جبر": بفتح الجيم وسكون الباء الموحدة، على ذلك اتفقت أصول المسند هنا، وكذلك ذكره البخاري وابن أبي حاتم في "باب جبر".

[11] الطبقات الكبرى أبو عبد الله محمد بن سعد (7/ 340)  ط:  دار صادر، بيروت:

أبو زكريا السيلحيني واسمه: يحيى بن إسحاق البجلي، ذكر أنه من أنفسهم، وكان ثقة، روى عن يحيى بن أيوب، وابن لهيعة، وغيرهما، وقد كتب الناس عنه، وكان حافظا لحديثه، وكان ينزل بغداد في دار الرقيق، ومات بها في سنة عشر ومائتين، في خلافة المأمون۔

تاريخ بغداد (14/ 163) دارالکتب العلمية، بيروت:

أخبرني علي بن الحسن الدقاق، أخبرنا أحمد بن إبراهيم، حدثنا عمر بن محمد ابن شعيب الصابوني، حدثنا حنبل بن إسحاق قال: سمعت أبا عبد الله يقول: يحيى ابن إسحاق أبو زكريا السيلحيني شيخ صالح ثقة، سمع من الشاميين ومن ابن لهيعة، وهو صدوق.

سير أعلام النبلاء ط: الحديث (8/ 188، رقم الترجمة: 1506)  دار الحديث- القاهرة

يحيى بن إسحاق: "م، "الحافظ الإمام الثبت أبو زكريا السيلحيني والسالحين: من قرى العراق. ولد في حدود الأربعين ومائة.

[12] ميزان الاعتدال (1/ 301، رقم الحديث: 1140) دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت:

البراء بن عبد الله بن يزيد الغنوى، بصري. عن الحسن. ضعفه أحمد، وابن معين. وقال ابن معين أيضا: ليس به بأس. ثم قال: سمعت أبا الوليد يقول: لا أروى عن البراء بن يزيد، هو متروك الحديث. وقال ابن عدي: له أحاديث عن أبي نضرة غير محفوظة، ولا أعلم أنه يروي عن غيره. وقال النسائي: البراء بن يزيد، عن أبي نضرة ضعيف.

ديوان الضعفاء للذهبي (ص: 45، رقم الترجمة: 554)  مكتبة النهضة الحديثة – مكة:

البراء بن عبد الله بن يزيد الغنوي: بصري. ضعيف عن أبي نضرة.

تقريب التهذيب (ص: 121، رقم الترجمة: 649) دار الرشيد – سوريا:

البراء ابن عبد الله ابن يزيد الغنوي البصري وربما نسب إلى جده وقيل هما اثنان ضعيف من السابعة بخ۔

الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (2/ 401) دار إحياء التراث العربي – بيروت:

حدثنا عبد الرحمن قال قرئ على العباس [بن محمد الدوري] قال سمعت يحيى بن معين يقول: البراء بن عبد الله بن يزيد الغنوي يحدث عن عبد الله بن شقيق والحسن وليس حديثه بذلك۔

تهذيب الكمال في أسماء الرجال (4/ 37، رقم الترجمة: 651) مؤسسة الرسالة - بيروت:

بخ: البراء بن عبد الله بن يزيد الغنوي ، أبو يزيد البصري، القاضي، وربما نسب إلى جده. روى عن: الحسن البصري، وعبد الله بن شقيق العقيلي (بخ) ، وأبي نضرة المنذر بن مالك بن قطعة العبدي، وأبي جمرة نصر بن عمران الضبعي.

[13] الثقات للعجلي ط الباز (ص: 113، رقم الترجمة: 275) دار الباز:

الحسن بن أبي الحسن أبو سعيد: "بصري"، تابعي، ثقة، رجل صالح، صاحب سنة.

الطبقات الكبرى (7/ 116) دار الكتب العلمية – بيروت:

حدثنا وهيب عن أيوب وحماد عن علي بن زيد بن جدعان وغير واحد عن شعبة عن يونس قالوا: لم يسمع الحسن من أبي هريرة.

تاريخ ابن أبي خيثمة (1/ 437، رقم الترجمة: 1576) أبو بكر أحمد بن أبي خيثمة (المتوفى: 279ھ) الفاروق الحديثة للطباعة والنشر – القاهرة:

سمعت يحيى بن معين يقول لم يسمع الحسن من أبي هريرة. فقيل له في بعض الحديث يقول: حدثنا أبو هريرة؟ "قال: ليس بشيء.

[14] تهذيب الكمال في أسماء الرجال (18/ 102، رقم الحديث: 3431 ) مؤسسة الرسالة – بيروت:

ع: عبد الصمد بن عبد الوارث بن سعيد بن ذكوان التميمي العنبري ، مولاهم، التنوري، أبو سهل البصري۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قال أبو حاتم: صدوق صالح الحديث. وذكره ابن حبان في كتاب "الثقات" وقال: مات سنة ست أو سبع ومئتين۔

[15] تقريب التهذيب (ص: 462، رقم الحديث: 5669)   دار الرشيد - سوريا:

كنانة مولى صفية يقال اسم أبيه نبيه مقبول ضعفه الأزدي بلا حجة من الثالثة بخ ت۔

[16] امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کو سب حضرات نے ثقہ قرار دیا ہے، ان سے امام بخاری،  امام مسلم، امام ابوداود، امام ترمذی اور امام نسائی رحمہم اللہ نے بھی روایات لی ہیں، نیز یہ  اپنے زمانے کے مجتہد اور فقیہ تھے۔

تقريب التهذيب لابن حجر العسقلاني (ص: 99، رقم الترجمة:  332) (المتوفى: 852ھ) المحقق: محمد عوامة، الناشر: دار الرشيد – سوريا:

 إسحاق ابن إبراهيم ابن مخلد الحنظلي أبو محمد ابن راهويه المروزي ثقة حافظ مجتهد قرين أحمد ابن حنبل ذكر أبو داود أنه تغير قبل موته بيسير مات سنة ثمان وثلاثين وله اثنتان وسبعون خ م د ت س.

الكاشف (1/ 233، رقم الحديث: 276) شمس الدين محمد بن أحمد الذهبي (المتوفى: 748ھ) المحقق: محمد عوامة ،الناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، جدة:

 إسحاق بن إبراهيم بن مخلد الامام أبو يعقوب المروزي بن راهويه عالم خراسان عن جرير والداروردي ومعتمر وعنه البخاري ومسلم وأبو داود والترمذي والنسائي وبقية شيخه وأبو العباس السراج أملى المسند من حفظه مات في شعبان سنة 238 وعاش سبعا وسبعين سنة سوى ق۔

[17] الكاشف (1/ 248، رقم الترجمة: 400) شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد الذهبي (المتوفى: 748هـ) المحقق: محمد عوامة ،الناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، جدة:

إسماعيل بن عياش أبو عتبة العنسي عالم الشاميين عن شرحبيل بن مسلم ومحمد بن زيادالالهاني وأمم وعنه علي بن حجر وهناد وابن عرفة قال يزيد بن هارون ما رأيت أحفظ منه وقال دحيم هو في الشاميين غاية وخلط عن المدنيين وقال البخاري إذا حدث عن أهل حمص فصحيح وقال أبو حاتم لين۔

[18] اليواقيت والدرر شرح شرح نخبة الفكر للمناوی (2/ 136) مكتبة الرشد - الرياض:

المبهمات: أو لا يسمى الراوي اختصارا من الراوي عنه، كقوله أخبرني فلان، أو شيخ، أو رجل، أو بعضهم، أو ابن فلان. ويستدل على معرفة اسم المبهم بوروده مسمى من طريق أخرى تسمى بغير ذلك. ولا يقبل حديث المبهم في السند ما لم يسم لأن شرط قبول الخبر عدالة راوية وفي بعض النسخ عدالة رواته وهي الأصوب۔

[19]  نعیم بن حماد پر بعض حضرات نے کلام کیا ہے، لیکن  امام احمد بن حنبل اور امام یحی العجلی   رحمہما اللہ وغیرہ نے  ان کو ثقہ قرار دیا ہے، نیز ان سے امام بخاری رحمہ اللہ نے تعلیقاً روایات لی ہیں:

لسان الميزان لابن حجر العسقلاني (7/ 412، رقم الترجمة:  5047، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات بيروت:

" نعيم " بن حماد بن معاوية بن الحارث الخزاعي أبو عبد الله المروزي الحافظ نزيل مصر صاحب التصانيف عن أبي حمزة السكري وإبراهيم بن طهمان وابن المبارك وخلق وعنه البخاري تعليقا وابن معين الذهلي وطائفة وثقه أحمد ويحيى العجلي.

تقريب التهذيب لابن حجر(ص: 564، رقم الترجمة: 7166) دار الرشيد – سوريا:

نعيم ابن حماد ابن معاوية ابن الحارث الخزاعي أبو عبد الله المروزي نزيل مصر صدوق يخطىء كثيرا فقيه عارف بالفرائض من العاشرة مات سنة ثمان وعشرين على الصحيح وقد تتبع ابن عدي ما أخطأ فيه وقال باقي حديثه مستقيم خ مق دت ق۔

الكاشف لشمس الدين الذهبي (2/ 324، رقم الترجمة: 5856) دار القبلة للثقافة الإسلامية، جدة:

 نعيم بن حماد الخزاعي الحافظ أبو عبد الله المروزي الاعور عن أبي حمزة السكري وإبراهيم بن سعد وعنه البخاري مقرونا والدارمي وحمزة الكاتب مختلف فيه امتحن فمات محبوسا بسامراء 229 خ د ت ق۔

[20] تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي (1/ 194):

(وأما الضعف لفسق الراوي)، أو كذبه، (فلا يؤثر فيه موافقة غيره) له، إذا كان الآخر مثله ; لقوة الضعف وتقاعد هذا الجابر. نعم يرتقي بمجموع طرقه، عن كونه منكرا أو لا أصل له. صرح به شيخ الإسلام، قال: بل ربما كثرت الطرق حتى أوصلته إلى درجة المستور والسيئ الحفظ، بحيث إذا وجد له طريق آخر فيه ضعف قريب محتمل ارتقى بمجموع ذلك إلى درجة الحسن.

[21] السنن الكبرى للبيهقي (10/ 404، رقم الحدیث: 21110 ) دار الكتب العلمية، بيروت:

وأخبرنا أبو بكر بن الحسن القاضي , ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب ثنا محمد بن إسحاق , ثنا أبو اليمان الحكم بن نافع , أنبأ شعيب , عن الزهري , قال: وكان بشير بن كعب بن مالك يحدث أن كعب بن مالك كان يحدث أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " والذي نفسي بيده , لكأنما تنضحونهم بالنبل فيما تقولون لهم من الشعر "

الفتن لنعيم بن حماد (1/ 99، رقم الترجمة: 238) الناشر: مكتبة التوحيد – القاهرة::

حدثنا الحكم بن نافع، أنا صفوان بن عمرو، عن شريح بن عبيد، عن كعب، قال: «لا يزال لهذه الأمة خليفة يجمعهم، وإمارة قائمة، ويعطى الرزق والجزية حتى يبعث عيسى ابن مريم عليه السلام، ثم يكون هو يجمعهم، ثم تنقطع الإمارة»

[22] تهذيب الكمال في أسماء الرجال (12/ 447، رقم الترجمة: 2726) مؤسسة الرسالة – بيروت:

 د س ق: شريح بن عبيد بن شريح بن عبد بن عريب الحضرمي المقرائي أبو الصلت وأبو الصواب الشامي الحمصي. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قال أحمد بن عبد الله العجلي : شامي تابعي ثقة. وقال عثمان بن سعيد الدارمي، عن دحيم: من شيوخ حمص الكبار، ثقة. وقال غيره: سئل محمد بن عوف هل سمع شريح بن عبيد من أبي الدرداء؟ فقال: لا. قيل له: فسمع من أحد من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: ما أظن ذلك، وذلك أنه لا يقول في شيء من ذلك سمعت وهو ثقة. وقال أبو عبيد الآجري، عن أبي داود: لم يدرك سعد بن مالك. وقال النسائي: ثقة.

[23] ویکیپیڈیا میں ہند کی تفصیل اس طرح درج ہے:

پہلی صدی عیسوی میں جب عرب ہندوستان تجارت کے لیے آتے تو انہوں نے دریائے سندھ سے مشرقی طرف تمام علاقہ جات کو’’ ہند‘‘  کہا ، اپنی اصل کے اعتبار سے یہ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ یہ لفظ قدیم فارسی کی لفظ ’’ہندوس‘‘ سے لیا گیا جو خود سنسکرت کی لفظ ’’سندوس‘‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب وہ علاقے جو دریائے سندھ کے پیچھے آتے ہوں۔ اس طرح یہ لفظ جدید فارسی میں ’’ہندو‘‘ اور اس کے ساتھ ’’ستان‘‘ (جائے) کے مجموعے سے جنم پاگیا۔اس لفظ کو سرکاری سطح پر مغل سلطنت کے دور میں مغل بادشاہوں نے اپنی سلطنت کو ہندوستان کا نام دیا۔

شروع میں عرب کے لوگ فارس اور عرب کے مشرقی علاقے میں آباد قوموں کے لیے  لفظ "ہند"  استعمال کرتے تھے،مختلف سلطنتوں اور بادشاہتوں کے تحت بادشاہتِ ہند کی سرحدیں بدلتی رہیں۔ آخر  میں برصغیر پاک و ہند کا سارا علاقہ برطانوی تسلط میں آ کر "برطانوی انڈیا" یا "ہندوستان" کہلانے لگا۔ یہ صورتِ حال 1947ء تک برقرار رہی۔ اس میں موجودہ بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان شامل تھے۔ 1947ء کے بعد دو ملک بن گئے جنہیں بھارت اور پاکستان کہا گیا۔ موجودہ زمانے میں ہندوستان سے کوئی واضح جغرافیائی خطہ مراد نہیں ، بلکہ جغرافیائی اعتبار سے ہندوستان میں پاکستان،بھارت ،بنگلہ دیش اور ایک چھوٹا سہ حصہ چین (جس حصے کو اکسائی چین کہا جاتا ہے) اور اس کے ساتھ برما کا ایک چھوٹا سا حصہ ہندوستان میں شمار کیا جاتا ہے۔ عام زبان میں اس سے بھارت مراد لیاجاتاہے جو کہ تکنیکی لحاظ سے غلط ہے۔ https://www.wikipedia.org

[24] کتاب الجغرافیہ(ص: 226)مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب، مکتبہ البشری، کراچی:

 ہند کی فضیلت کا مصداق کون لوگ ہیں؟ ہند کے مصداق میں ہندوستان، بنگلہ دیش اور پاکستان آتے ہیں، نیپال اور بھوٹان اس میں داخل ہیں یا نہیں؟ اگر ہم غور کریں تو یہ چین اور ہند کے سنگم پر واقع ہیں، ان کی تہذیب، ثقافت اور حلیے کو دیکھیں، اگر یہ چین کے زیادہ مشابہ ہیں تو اس کے ساتھ ملحق ہو جائیں گے، ورنہ ہند میں داخل ہوں گے، غور کریں تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ چین کے زیادہ مشابہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لہذا غزوہ ہند کا صحیح مصداق آج کے جغرافیہ کے اعتبار سے یہ تین ممالک ہیں، پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش۔

[25] كذا في الفتن لنعيم بن حماد (1/ 409، رقم الحدیث: 1236( مكتبة التوحيد،  القاهرة:

حدثنا بقية بن الوليد، عن صفوان، عن بعض المشيخة، عن أبي هريرة، رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، وذكر الهند، فقال: «ليغزون الهند لكم جيش، يفتح الله عليهم حتى يأتوا بملوكهم مغلولين بالسلاسل، يغفر الله ذنوبهم، فينصرفون حين ينصرفون فيجدون ابن مريم بالشام» قال أبو هريرة: إن أنا أدركت تلك الغزوة بعت كل طارف لي وتالد وغزوتها، فإذا فتح الله علينا وانصرفنا فأنا أبو هريرة المحرر، يقدم الشام فيجد فيها عيسى ابن مريم، فلأحرصن أن أدنو منه فأخبره أني قد صحبتك يارسول الله، قال: فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وضحك، ثم قال: «هيهات هيهات»

[26] قفو الأثر في صفوة علوم الأثر لرضی الدین المعروف بابن الحنبلی(ص: 60) مكتبة المطبوعات الإسلامية – حلب:

إذا حالف العدل أحدا من الحفاظ فوجد حديثه أزيد أضر ذلك بحديثه فدل على أن زيادة العدل عنده لا يلزم قبولها مطلقا وإنما يلزم قبولها من العدل الحافظ لأن العدل غير الثقة الذي هو العدل الضابط معا وكلامه إنما هو في عدل لم يعرف ضبطه وعلى قياس ما سبق لا تقبل زيادة الضعيف إذا خالفت رواية الثقة۔

حوالہ جات
.....

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

23/جمادى الاولی 1441ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب