021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرآن مجید کی حرکات كےتبدیل ہوجانے سے کافر ہوجانا
68319قرآن کریم کی تفسیر اور قرآن سے متعلق مسائل کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

تاج کمپنی کے قرآن کے آخر پر ایک ضروری ہدایات لکھی گئی ہیں،وہ یہ کہ بیس مقامات ایسے ہیں کہ ذراسی بے احتیاطی سےزیر،زبراورپیش میں ردوبدل کردینے سے معنی کچھ کے کچھ ہوجاتے ہیں، دانستہ پڑھنے سے گناہ کبیرہ،بلکہ کفر اور نادانستہ طور پڑھنے سے کلمہ کفر کاارتکاب تک نوبت جا پہنچتی ہے، ذیل میں وہ مقامات درج ہیں:سورۃفاتحہ میں أنعمتَ علیھم کی جگہ أنعمتْ عليھم  اسی طرح اور بھی مقامات ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اگربندہ نہ چاہتے ہوئے غلطی سے ان الفاظ کو پڑھ لے تو کیا اس بندہ نے کفر کا ارتکاب کرلیا؟اور بندہ کودوبارہ تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرنا پڑےگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جن مقامات میں حرکت بدلنے سے معنی بدل جاتا ہواورعمدا ایسا کرنے سے آدمی کافر ہوجاتاہو، اگر نادانستہ طور پر ایسی غلطی ہو جائےتو اس سے وہ شخص کافر نہ ہوگااور نہ ہی اس پر تجدید ایمان اور تجدیدنکاح ہوگا،البتہ غفلت اور بے احتیاطی کا گناہ ہوگا جس پر استغفار کرنا چاہیے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ التوقادی الحنفی رحمہ اللہ تعالی: أما النوع الثالث:ففيما يكون كفرا من المسلم عمدااتفاقا و اختلافا ففي كل منھما يؤمرقائله بتجديد النكاح،و بالتوبة ،والرجوع عن ذلك احتياطا،ولايعذر بالجھل لعمد ه ،وھو المختار عند عامة العلماء.وفي ألفاظ تكلم بھا خطأ نحوإن أراد أن يقول:لاإله إلا اللہ،فجري علي لسانه إن مع اللہ إلھا  ،أو جرت بدل "شكرت" كفرت"لايكفر فيه قطعافضلا عن لزوم النكاح،لكن يؤمر بالاستغفار ،والرجوع.(ھدية المھديين:13)
وفی الھندیۃ: (ومنها اللحن في الإعراب) إذا لحن في الإعراب لحنا لا يغير المعنى بأن قرأ لا ترفعوا أصواتكم برفع التاء، لا تفسد صلاته بالإجماع ،وإن غير المعنى تغييرا فاحشا بأن قرأ وعصى آدم ربه بنصب الميم ورفع الرب وما أشبه ذلك مما لو تعمد به يكفر. إذا قرأ خطأ فسدت صلاته في قول المتقدمين، واختلف المتأخرون: قال محمد بن مقاتل، وأبو نصر محمد بن سلام ،وأبو بكر بن سعيد البلخي ،والفقيه أبو جعفر الهندواني، وأبو بكر محمد بن الفضل ،والشيخ الإمام الزاهد، وشمس الأئمة الحلواني ،لا تفسد صلاته. وما قاله المتقدمون أحوط؛ لأنه لو تعمد يكون كفرا ،وما يكون كفرا لا يكون من القرآن .وما قاله المتأخرون أوسع؛ لأن الناس لا يميزون بين إعراب وإعراب. كذا في فتاوى قاضي خان وهو الأشبه. كذا في المحيط وبه يفتى. كذا في العتابية وهكذا في الظهيرية.(الھندیۃ:1/81)
وھکذا فی شرح الاشباہ  للشیخ الحموی:1/44
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب