021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عورت کا بگڑتی صحت کی وجہ سے اسقاط حمل کروانے کا حکم
68330جائز و ناجائزامور کا بیانٹیسٹ ٹیوب بے بی اورخون کی منتقلی کے احکام

سوال

میری 2017 میں شادی ہوئی اور میرے دو بچے ہیں۔پہلی بچی گیارہ ماہ کی تھی کہ دوسری بچی پیدا ہوگئی اور اب وہ دوسری بچی آٹھ ماہ کی ہے کہ پھر حمل ٹھہر گیا ہے۔ میری طبیعت دوسری بچی کی دفعہ بھی انتہائی ناساز رہی اور اب بھی حالت کچھ مختلف نہیں اور چونکہ پہلے دو بچے بھی آپریشن سے پیدا ہوئے ہیں لہٰذا  ڈاکٹر نے بھی  میری صحت کی وجہ سے تین سال وقفہ کرنے کا کہا تھا ،نیز میرے شوہر بہت زیادہ مصروف ہوتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ  ابھی  اتنی جلدی مزید بچے کی وجہ سے پورا نظام زندگی متاثر ہوتا ہے اور ابھی اچھے طریقے  سے بچوں کی تربیت  نہیں کر سکیں گے۔ لہٰذا ابھی ابارشن کروادو۔ حمل ٹھہرے ہوئے تقریبا 2 ماہ ہونے والے ہوں گے ،اب مجھے پوچھنا یہ تھا  کہ کیا اب     اسقاط حمل کروانا جائز ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر حمل سے  عورت کی جان  کو خطرہ ہو یا صحت کےغیر معمولی حد تک بگڑنے کا اندیشہ ہو ، اور ایک متدین تجربہ کار  مسلمان ڈاکٹر  اسقاط حمل کا مشورہ دیتا ہو تو  صرف اس عذر کی  بناء پر روح پڑنے سے پہلے پہلے جس کی مدت تقریبا چارماہ ہے،  اسقاط  حمل کی گنجائش ہے اور چار ماہ کے بعد کسی صورت اسقاط حمل کی گنجائش نہیں۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں بظاہر کوئی ایسا عذر نہیں جس کی وجہ سے اسقاط حمل کو جائز قرار دیا جائے۔آج کل کچھ ڈاکٹرحضرات ڈرا دیتے ہیں اور کچھ مریض منصوبہ بندی والوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوچکے ہوتے ہیں۔لہٰذامستقل علاج اور مکمل نگرانی کے ذریعے  صحت کو بہتر کرنے کی کوشش کریں اور اس بچے کی پیدائش ہونے دیں  البتہ یہ عذر ایسا ہے کہ  آئندہ چاہیں تو  مانع حمل تدابیر اختیار کرسکتے ہیں۔

حوالہ جات
فی فتاوی الھندیۃ:العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه، کالشعر، والظفر، ونحوهما لایجوز، وإن کان غیر مستبین الخلق یجوز … امرأة مرضعة ظهربها حبل، وانقطع لبنها، وتخاف علی ولدها الهلاک، ولیس لأبي هذا الولد سعة، حتی یستأجر الظئر، یباح لها أن تعالج في استنزال الدم مادام نطفة، أو مضغة ،أو علقة لم یخلق له عضو، وخلقه لایستبین إلا بعد مائة وعشرین یوماً أربعون نطفةً، وأربعون علقةً، وأربعون مضغةً، کذا في خزانة المفتیین، وهکذا في فتاوی قاضي خان.
    (الفتاوی الھندیۃ:5/356)
وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:وقالوا يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ،ولو بلا إذن الزوج.(الدر المختار:3/176)
و قال العلامۃ الشامی رحمہ اللہ:قوله :(وقالوا إلخ): قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم يباح ما لم يتخلق منه شيء، ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوما، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح ،وإلا فهو غلط ؛لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة، قبل هذه المدة، كذا في الفتح. وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج. وفي كراهة الخانية: ولا أقول بالحل إذ المحرم لو كسر بيض الصيد، ضمنه لأنه أصل الصيد فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها ،اهـ. قال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل، وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر، ويخاف هلاكه. ونقل عن الذخيرة ،لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح، هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة، فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية. قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لا تأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق، اهـ، كلام النهر ح.
                                                           (رد المحتار علی الدر المختار:3/176)

.....

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عثمان یوسف

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب