021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
محکمۂ بہبود آبادی کے ساتھ ملازمت کاحکم
71320جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم رحمۃ اللہ وبرکاتہ!

سوال:کیا  فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں: میں  محکمہ بہبود آبادی میں بطور بابو(کلرک)کے، ملازمت کرتاہوں، یہ گورنمنٹ آف پاکستان  کا ایک ادارہ ہے ،اور  اس کا کام  لوگوں میں یہ دعوت چلاناہے کہ بچوں کے درمیا ن مناسب یعنی دو یا تین سال کا وقفہ کریں  وغیرہ،نیز اس ادارہ میں جو ڈرائیور،سیکیورٹی گارڈ اور  صفائی کا عملہ ہے ان کی تنخواہ کا کیا حکم ہے؟

برائے مہربانی اس مسئلہ کاشرعی وضاحت فرمائیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 اس ادارے کے کاموں میں اگر یہ دعوت چلانا بھی شامل ہوکہ بچے دو ہی اچھے،اور اولاد کم پیدا کرو  ورنہ ان کے معاش کامسئلہ ہوگا وغیرہ وغیرہ ،جیساکہ زمانۂ جاہلیت میں لوگ رزق کی تنگی اور عار کی وجہ سے اولاد کو قتل کر دیا کرتے تھے،تو یہ منصوبہ چونکہ منشأ شریعت کے خلاف ہےاس لیے ایسی این جی اوز یا گورنمنٹ ادارے کےساتھ تعاون کرنا اور انہیں سروس فراہم کرنا گناہ کے کام میں معاون بننے کی بناء پر جائز نہیں ہے ۔

البتہ اگر اس ادارے یا این جی اوز کا مقصدصرف لوگوں میں یہ شعور پیداکرنا ہوکہ بچوں کے درمیان مناسب وقفہ کر لیا کریں،جیسا کہ سوال میں مذکور ہے تاکہ ماں کی صحت اور موجودہ بچے کی صحت اور دودھ کا مسئلہ پیدانہ  ہو،تو یہ نظریہ چونکہ منشأ شریعت کے خلاف نہیں ہے اس لیے ایسے ادارے یا این جی اوز کے ساتھ کوئی بھی ملازمت کرنا شرعا جائز  ہے ۔                                                                     

حوالہ جات
تفسير ابن كثير(4/ 305)
{وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الأرْضِ إِلا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُبِينٍ .
أَخْبَرَ تَعَالَى أَنَّهُ مُتَكَفِّلٌ بِأَرْزَاقِ الْمَخْلُوقَاتِ، مِنْ سَائِرِ دَوَابِّ الْأَرْضِ، صَغِيرِهَا وَكَبِيرِهَا، بَحْرِيِّهَا، وَبَرِّيِّهَا۔
تفسير القرآن الكريم لابن القيم (ص: 233)
وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقابِ ۔
فكل إثم عدوان، إذ هو فعل ما نهى الله عنه، أو ترك ما أمر الله به. فهو عدوان على أمره ونهيه. وكل عدوان إثم. فإنه يأثم به صاحبه۔
صحيح البخاري (7/ 4)
حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا إبراهيم بن سعد، أخبرنا ابن شهاب، سمع سعيد بن المسيب، يقول: سمعت سعد بن أبي وقاص، يقول: «رد رسول الله صلى الله عليه وسلم على عثمان بن مظعون التبتل، ولو أذن له لاختصينا»۔
‘‘قال الحافظ العینی رحمہ اللہ تعالی تحت ھذا الحدیث:ان الاختصاء فی الادمی  حرام مطلقاً )عمدۃ القاری۲۰/۷۲(’’
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 55)
(ولا تصح الاجارۃ لأجل المعاصي۔۔۔ .   

  وقاراحمد

  دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

  ۲۵جمادی الثانی۱۴۴۲

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

وقاراحمد بن اجبر خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب